سردیوں میں کے ٹو سر کرنے کی مہم جوئی: محمد علی سد پارہ سمیت تین کوہ پیماؤں کا بیس کیمپ سے رابطہ منقطع، ریسکیو مشن کی تیاریاں


دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سردیوں میں فتح کرنے کی کوشش کرنے والی پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ سمیت تین کوہ پیماؤں کا جمعہ کے روز سے بیس کیمپ، ٹیم اور اہل خانہ سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے اور اس سلسلے میں ریسکیو مشن کی تیاریاں شروع کی جا رہی ہیں۔

محمد علی سد پارہ کے مینجر راؤ احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ان کا ’جمعے سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے اور وہ ساری صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘

الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ جمعہ کے روز علی سدپارہ اور ان کے ساتھی کو پیما آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے جے پی موہر کے ساتھ آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر رابطہ ہوا تھا۔

بی بی سی کو محمد علی سد پارہ اور دیگر کوہ پیماؤں کے قریبی عزیزوں اور ٹیم نے بتایا کہ تینوں نے جمعے کی شام تک آٹھ ہزار میٹر کا سنگ میل عبور کر لیا تھا جس کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ وہ جلد ہی اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے

نیپالی کوہ پیماؤں نے تاریخ رقم کر دی، کے ٹو کو موسم سرما میں پہلی بار سر کر لیا گیا

’خوش قسمتی ہے کہ K2 نے ہمیں خود کو سر کرنے کی مہلت دی، یہ بڑی بات ہے‘

’سب بھائی ہیں تاہم انڈیا تھوڑا پریشان کرتا ہے، پاکستان نے بھائیوں جیسا برتاؤ کیا‘

وہ خاتون جو سردیوں میں بغیر آکسیجن ’کے ٹو‘ سر کرنا چاہتی ہیں

کرار حیدری کے مطابق علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سد پارہ ابھی بھی چھ ہزار میڑ کی بلندی پر کیمپ تھری میں ہیں اور ان کا بھی تینوں کوہ پیماؤں کے ساتھ رابطہ نہیں ہوا ہے۔ وہ اب بیس کیمپ میں واپس آرہے ہیں۔

واضح رہے کہ ساجد سدپارہ بھی اپنے والد کے ہمراہ کے ٹو سر کرنے کی مہم میں شامل تھے لیکن آکسیجن ریگولیٹر خراب ہونے کے باعث وہ نیچے کیمپ تھری پر آ گئے۔

ٹورسٹ پولیس سکردو کے مطابق ان تینوں کی تلاش کا آپریشن شروع کیا جاچکا ہے اور تمام تر ممکنہ اقدامات کیے جارہے ہیں۔

تینوں کوہ پیماؤں کے ساتھ رابطے کے لیے جان سنوری کے پاس موجود ٹریکر کے علاوہ تینوں کے پاس موجود سیٹلائیٹ فون اور واکی ٹاکی کا استعمال کیا جاتا تھا۔

رابطوں کے لیے جان سنوری اپنے پاس موجود ٹریکر ہر ایک گھنٹے بعد آن کر کے اطلاع فراہم کردیتے تھے۔ انھوں نے جمعہ کے روز آخری مرتبہ اپنی موجودگی کی اطلاع چار بجے فراہم کی تھی۔

واضح رہے کہ گذشتہ ماہ نیپالی مہم جووں کی جانب سے کے ٹو کو سردیوں میں تاریخ میں پہلی مرتبہ فتح کرنے کے بعد محمد علی سد پارہ اور دو ساتھیوں نے اپنی مہم جاری رکھی تھی۔ اس مہم کے دوران جمعہ کے روز موسم بہتر ہونے کی بنا پر تینوں آگے بڑھے تھے۔

تاہم الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق جمعہ کے روز دوپہر کے وقت اچانک کے ٹو پر تیز ہواہیں چلنا شروع ہوگئیں تھیں۔

محمد علی سد پارہ اور ساجد علی پارہ باپ بیٹا ہیں جن کا تعلق گلگت بلتستان میں سکردو کے علاقے سد پارہ سے ہے۔ سد پارہ کا علاقہ مہم جوؤں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔

محمد علی سد پارہ کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جنھوں نے 2016 میں سردیوں کی مہم جوئی کے دوران پہلی مرتبہ نانگا پربت کو سر کیا تھا۔

محمد علی سد پارہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے آٹھ ہزار میٹر کی آٹھ چوٹیاں فتح کرنے کے علاوہ ایک سال کے دوران آٹھ ہزار میٹر کی چار چوٹیاں سر کی ہیں۔

ان کے بیٹے ساجد علی سد پارہ کو کے ٹو اور ماوئنٹ ایورسٹ فتح کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ساجد علی سد پارہ نے کوہ پیمائی کی تربیت اپنے والد ہی سے حاصل کی ہے۔

https://twitter.com/john_snorri/status/1356942786520641536

جان سنوری کا تعلق آئس لینڈ سے ہے۔ انھیں کے ٹو سمیت دنیا کی دس مختلف چوٹیاں سر کرنے کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ جس میں دنیا کی دشوار گزار چوٹیاں بھی شامل ہیں۔

جے پی موپر کا تعلق چلی سے ہے اور وہ بھی ایک کہنہ مشق مہم جو سمجھے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32495 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments