براڈ شیٹ (پارٹ 1 )


12 اکتوبر 1999 کے مارشل لاء کے نتیجہ میں نواز شریف حکومت کا خاتمہ اور جنرل پرویز مشرف کی حکومت قائم ہوئی تو ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لانے کے نعرے کے تحت نواز شریف حکومت کی طرف سے قائم کردہ احتساب کمیشن کا نام بدل کر قومی احتساب بیورو (نیب) رکھا گیا۔ جنرل مشرف کی طرف سے جنرل امجد کو نیب کا چیئرمین مقرر کیا گیا، جنہوں نے فاروق آدم خان کو نیب کا پراسیکیوٹر جنرل تعینات کیا۔

جنرل امجد کی سربراہی میں نیب کی طرف سے مخصوص پاکستانیوں جن میں کچھ سیاستدان، مسلح افواج کے چند اعلی افسران اور چند کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے کے مبینہ بدعنوانی کے نتیجہ میں بیرون ملک جمع کیے گئے اثاثوں کو واپس پاکستان لانے کے لیے سال 2000 میں ایک معاہدہ کی بابت ”ٹروونز“ نامی ایک امریکی کمپنی کے ساتھ گفت و شنید شروع ہوئی۔ تمام شرائط اور معاملات بھی مبینہ طور پر اثاثوں کی ریکوری کا تجربہ رکھنے والی اسی ”ٹروونز“ نامی کمپنی کے ساتھ طے پائے۔

لیکن جب معاہدہ تیار ہوا اور دستخط کرنے کا وقت آیا تو نیب کی طرف سے Isle of Man میں نئی رجسٹرڈ ہونے والی ”براڈ شیٹ“ نامی ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ دستخط کر دیا گیا۔ براڈ شیٹ کے دونوں شیئر ہولڈرز (مالکان) کے طور پر کسی گمنام شخص (یا اشخاص) کی پانامہ میں رجسٹرڈ دو کمپنیوں کے نام موجود ہیں۔ نیب کی طرف سے انہی تاریخوں میں انہی شرائط پر مشتمل ایک اور معاہدہ اسی طرح کی جبرالٹر میں رجسٹرڈ انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری (IAR) نامی ایک کمپنی کے ساتھ بھی دستخط ہوا۔

کچھ مخصوص شخصیات کے ناموں پر مشتمل فہرست براڈ شیٹ کے معاہدہ میں اور کچھ مخصوص ناموں کی فہرست IAR کے ساتھ معاہدہ میں شامل کی گئیں۔ شریف خاندان کے نام براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ میں شامل کیے گئے۔ ٹروونز کی جگہ براڈشیٹ اور IAR جیسی شیلف کمپنیاں کیسے آ گئیں کچھ معلوم نہیں۔ ایک کی جگہ دو معاہدے کیوں کرنے پڑے (خاص طور پر جب ظاہری طور پر دونوں کمپنیوں کی نمائندگی کم و بیش وہی لوگ کر رہے تھے جو پہلے ٹروونز کے نمائندہ کے طور پر گفت وشنید کرتے رہے ) کچھ معلوم نہیں۔ براڈ شیٹ اور IAR دونوں کمپنیوں کے پیچھے اصل لوگ ایک ہی ہیں، اس کے تو کچھ اشارے ملتے ہیں لیکن وہ اصل لوگ کون ہیں کچھ معلوم نہیں۔

نیب کے ان دونوں مذکورہ معاہدوں کا مقصد تو لوٹی گئی دولت کا بیرون ملک سے پاکستان واپس لانا تھا لیکن معاہدہ کی شرائط میں درج کیا گیا کہ مذکورہ مخصوص شخصیات سے کوئی بھی اثاثہ خواہ وہ بیرون ملک سے ریکور ہو یا پھر نیب اور کسی مذکورہ مخصوص شخص کے ساتھ سمجھوتے کے نتیجے میں ریکور ہو اس اثاثے کی مالیت کا 20 فیصد براڈ شیٹ/IAR کو ادا کیے جائیں گے۔ معاہدہ کی اسی شق کی بنیاد پر ہی لندن کے ثالثی فیصلہ میں مذکورہ کسی بھی مخصوص شخص کے نیب کے ساتھ سمجھوتے کی صورت میں اس کے اندرون ملک سے ریکور ہونے والے اثاثے کے 20 فیصد پر بھی براڈ شیٹ کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ نیب اور مذکورہ دونوں کمپنیوں کے مابین ہونے والے معاہدہ میں خاص طور پر درج ہے کہ نیب اور کسی بھی مذکورہ مخصوص شخص کے مابین ہونے والے سمجھوتے میں براڈ شیٹ یا IAR کا خواہ کوئی بھی عمل دخل نہ ہو وہ پھر بھی اس سمجھوتہ کے نتیجہ میں ریکور ہونے والے اثاثوں کے 20 فیصد حصہ کے حقدار ہوں گے۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ معاہدہ میں جہاں فریقین کو ایک ماہ کے پیشگی نوٹس کے ساتھ بغیر کوئی وجہ بتائے معاہدہ ختم کرنے کا حق دیا گیا وہیں اگلی ہی شق میں یہ بھی درج کر دیا گیا کہ مذکورہ مخصوص اشخاص کی فہرست کسی صورت بھی منسوخ نہیں ہو سکتی، معاہدہ terminate بھی کر دیا جائے تب بھی اس termination کا مذکورہ فہرست پر کچھ اثر نہ ہو گا اور یہ ایسے ہی برقرار رہے گی جیسے کہ معاہدہ کی termination سے پہلے تھی۔

یعنی کہ براڈ شیٹ (اور IAR) کا معاہدہ میں درج مخصوص افراد سے ریکور ہونے والے اثاثوں کے 20 فیصد پر حق معاہدہ terminate ہونے کے باوجود بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے برقرار رہے گا۔ اب یہ ایک ایسا معاہدہ تھا کہ جس کے تحت براڈشیٹ محض معاہدہ پر دستخط کرنے سے ہی ان اثاثوں کے 20 فیصد حصہ کا بھی حقدار بن جاتی ہے جو اندرون ملک موجود ہوں اور جن کی ریکوری میں براڈشیٹ کا ذرہ برابر عمل دخل بھی نہ ہو اور پھر نیب کے لیے خواہ یہ معاہدہ سودمند نہ بھی ثابت ہو رہا ہو وہ پھر بھی عملی طور پر اس معاہدہ سے باہر نہیں نکل سکتی۔ اب ظاہر ہے کہ اس طرح کی یک طرفہ شرائط کا حامل معاہدہ آپ عام حالات میں اسی وقت دستخط کرتے ہیں جب آپ انتہائی سادہ اور معصوم ہوں یا آپ بدنیتی سے دوسری پارٹی کے ساتھ ملے ہوئے ہوں یا پھر آپ سے گن پوائنٹ پر دستخط کروا لیے گئے ہوں۔

لندن میں ہونے والی ثالثی کارروائی میں جنرل امجد کے بیان کے مطابق انہوں نے ٹروونز کے نمائندگان سے بیرون ملک ہونے والی صرف ابتدائی ملاقاتیں کی تھیں اور باقی تفصیلات اور ضروری اقدامات پراسیکیوٹر جنرل فاروق آدم خان کے حوالے کر دیے گئے تھے۔ اور پھر آخر میں دستخط کرنے کے لیے وہ دوبارہ involve ہوئے تھے۔ نیب کے اس وقت کے پراسیکیوٹر جنرل فاروق آدم خان کے مطابق چیئرمین نیب کی ہدایات تھیں کہ نیب بیرون ملک اثاثوں کی ریکوری پر کوئی رقم خرچ نہیں کرے گی لہذا نیب کی طرف سے فیس، ایڈوانس یا کوئی بھی ادائیگی کی بجائے ریکور ہونے والی رقم میں حصہ کی بنیاد پر بیرون ملک سے دولت واپس لانے کے لیے بیرون ملک اس کام کی ماہر کسی کمپنی سے معاہدہ کیا جائے۔

فاروق آدم خان کے مطابق ٹروونز کے علاوہ کوئی اور کمپنی اس شرط پر نیب کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہ تھی۔ ان کے مطابق سب سے پہلے طارق فواد ملک سے اسلام آباد میں ٹروونز کے نمائندہ کے طور پر رابطہ ہوا تھا اور اس کے بعد دیگر نمائندوں سے بیرون ملک ملاقاتیں طارق فواد ملک نے کروائیں اور معاہدہ کی شرائط طے کی گئیں جس کی منظوری نیب کے علاوہ حکومت پاکستان وزارت قانون نے بھی دی۔ فاروق آدم خان کا کہنا ہے کہ وہ بالکل نہیں جانتے کہ تمام شرائط ٹروونز کے ساتھ طے ہونے کے بعد حتمی معاہدے براڈشیٹ اور IAR کے ساتھ کیسے دستخط ہوئے۔

فاروق آدم خان کو جنرل امجد کے بعد چیئرمین نیب تعینات ہونے والے جنرل خالد مقبول نے بھی ان کا استعفی قبول نہ کرتے ہوئے بطور پراسیکیوٹر جنرل نیب برقرار رکھا البتہ ایک سال کا کنٹریکٹ پورا ہونے پر ان کے کنٹریکٹ میں مزید توسیع نہ کی گئی۔ فاروق آدم خان نے اپنے بیان میں تسلیم کیا کہ وہ نیب سے علیحدگی کے بعد براڈشیٹ کو نیب کے ساتھ dealings کے حوالے سے کنسلٹینسی سروسز فراہم کرتے رہے۔ ان کی طرف سے فراہم کردہ اپنے تحریری بیان میں کہا گیا ہے کہ انہیں جنرل خالد مقبول کے بعد تعینات ہونے والے چیئرمین نیب جنرل منیر حفیظ کی طرف سے براڈشیٹ/IAR کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کا background جاننے کے لیے بلایا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا جنرل حفیظ کا خاص طور پر استفسار تھا کہ یہ معاہدے کسی انڈرہینڈ ڈیل کا شاخسانہ تو نہیں جسے انہوں نے رد کر دیا تھا۔ بقول ان کے بعد ازاں انھوں نے تحریری خط کے ذریعے بھی جنرل حفیظ کو ان حقائق سے آگاہ کیا تھا۔ طارق فواد ملک کون ہیں، ان کا براڈشیٹ اور IAR کے ساتھ کیا تعلق ہے اور یہ کہ نیب کے behalf پر شرائط طے کرنے والے پراسیکیوٹر جنرل نیب فاروق آدم خان براڈشیٹ کے کنسلٹنٹ کیسے بن گئے؟ یہ بھی کچھ جواب طلب سوالات ہیں۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).