سر جی نیوز انٹرنیوں پر تھوڑا ہلکا ہاتھ پلیز !


(احسان احمد)۔

\"\"بہت مشکل ہوجاتا ہے کسی ایسے جونئیر صحافی کی کلاس ہوتے ہوئے سننا جو نیا ہو، نا تجربہ کار ہو، کمزور ہو، شرمندہ ہو اور پھر کلاس بھی وہ جو ناحق ہو، بے دلیل ہو، بے موقع اور لگاتار ہو۔ سننے کا لفظ میں نے یوں لکھا کہ بھیّا دیکھنے کی تو ہمت ہی نہیں ہوتی۔

نیر اچھا بچہ ہے، جامعہ کراچی میں ماس کمیونیکیشن کا چھٹا سمسٹر پڑھ رہا ہے، یونیورسٹی سے فارغ ہوکر سیدھا دفتر پہنچتا ہے اور پھر رات گئے تک بطور انٹرنی ہر وہ کام کرتا ہے جو اُس کے ڈپارٹمنٹ ہیڈ ص م صاحب سمیت شعبے کا کوئی بھی مستقل ملازم اُس سے کرنے کے لئے کہتا ہے۔ خبروں کے ترجمے اور وژولز ارینج کرنے جیسے دفتری کاموں کے علاوہ پانی کی بوتل بھر کر لانے، فوڈ ڈیلیوری والے کو گراونڈ فلور پر جا کر نمٹانے، میڈیکل کی رسیدیں اکاؤنٹنٹ کے حوالے کرنے اور بار بار فون کر کے اے سی کم یا زیادہ کرانے جیسے کام بھی نیر کے ذمے ہیں جسے وہ ماتھے پہ بل لائے بغیر بھاگم بھاگ کرتا ہے۔ شاید اس لئے کہ انٹرنشپ کے دوران مستقل نوکری کے لارے لپےّ حقیقت کا روپ دھار جائیں۔

مگر بدھ کے روز ص م صاحب غریب کے ساتھ بہت زیادتی کر گئے۔ غیر ملکی ایجنسیوں کی اشاروں، استعاروں اور اینگلز سے لیس خبریں انگریزی سے اردو ترجمے کے دوران بڑے بڑوں سے غلطیاں کروا بیٹھتی ہیں، نیر تو پھر ابھی نیا بچہ ہے۔ بس مت پوچھئیے، بڑے میاں نے عزت کے تانے بانے ادھیڑ کر رکھ دئیے۔ مسلسل بولتے گئے۔ \” بھائی تم مکئی بیچو نیچے جاکر مکئی، ایک کام ٹھیک سے نہیں کرتے، جانتے ہو یہ خبر اسی طرح چلی جاتی تو کیا ہوتا، ہم سب بے روزگار ہوجاتے۔ پوری کی پوری شفٹ فارغ کر دی جاتی۔ فیشن کروا لو بس ان لوگوں سے۔ ہم اس عمر میں اخبار کے اخبار اکیلے ترجمہ کر لیا کرتے تھے، اور ان سے دو سطری خبر نہیں بنتی\”۔ انہوں نے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا، اس دوران غیر ضروری طور پر کاغذ ادھر سے ادھر رکھتے رہے، جیسے دکھانا چاہ رہے ہوں کہ تنہا ان کے لئے ابھی کتنا کام باقی ہے۔ نیر خاموش تھا، جیسے وہ یہ باتیں پہلے بھی کئی بار سن چکا ہو، ایسی تلخی پہلے بھی سہہ چکا ہو۔ اس کا موبائل سامنے میز پر پڑا ہل رہا تھا۔ وائبریشن بتا رہی تھی کہ کوئی کال آرہی ہے لیکن اس نے موبائل کو تکنے کے باوجود اُس کی جانب ہاتھ نہیں بڑھایا، بس اُسے گھورتا رہ گیا۔

میرے خیال میں دنیا کے آغاز سے اب تک جتنی بھی ایجادات ہوئی ہیں، گزشتہ 50، 60 سالوں کو گھٹا دیا جائے تو ان کی تعداد 20 فیصد رہ جائے گی۔ ہاؤس ہولڈ سوپر فاسٹ کمپیوٹرز، کم ایندھن کھانے والی گاڑیاں، تیز ترین ہوائی جہاز، بلٹ ٹرینز، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو لیں تو یہ بلائیں جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیداوار ہیں۔ وہی جمعہ جمعہ آٹھ دن، جو نیر یا اس جیسے دیگر جونیر صحافی جئیے ہیں۔ اپنے پیروں پر ٹھیک طرح سے کھڑے ہوئے نہیں کہ ایک کے بعد ایک طوفان کا سامنا ہے۔ جیسے کسی نے بے حد رش والے بازار میں آنکھوں پر پٹی باندھ کر چھوڑ دیا ہو۔ نیوز ایڈیٹر نے دیوار پر 25 نیوز چینل گھوڑوں کی طرح لائن سے لگا دئیے ہیں اور ہنٹر لے کر پیچھے کھڑا ہے کہ دوڑو۔ نہ رکنے پاؤ، نہ گرنے پاؤ۔ ورنہ بیٹا تمہاری خیر نہیں،،سست ہوئے تو ریٹنگ گرے گی، اور غلطی کی تو تمہاری ملازمت۔ فیلڈ رپورٹروں کے ساتھ ساتھ ایجنسیز، ویب سائٹس، فیس بک، ٹوئیٹر، واٹس ایپ، سب کے سب خبریں اُگلے جارہے ہیں۔ واقعے، سانحے، انکشافات، وائرل وڈیوز، سانگز، ٹریلرز، سیلفیاں، سوشل میڈیا کمنٹس، اسٹیٹس، ٹوئیٹس۔ ایک سیلاب ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایڈیٹر کے نزدیک ہر وہ خبر اہم ہے جو کسی بھی اسکرین پر نظر آرہی ہے۔ ہر اس پہلو کی کھوج نیر جیسوں کی ذمہ داری ہے جو کسی کے بھی ذہن میں پیدا ہو کر ٹی وی اسپیکروں سے گونج رہا ہے۔

میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ آج سے 20 سال پہلے کی صحافت آسان تھی، لیکن اُس دور کی صحافت میں یقیناً اگلے کو سوچنے سمجھنے اور تحمل سے فیصلے کا موقع مل جاتا ہوگا۔ کام کا پریشر مسلسل بلڈ پریشر کی وجہ نہ بنتا ہوگا۔ کسی کی کارکردگی جانچنے کے لئے ایک دو تین سے دس تک گننے کا وقت لیا جاسکتا ہوگا۔ جو اخبار 24 گھنٹے کے بعد پریس سے نکلتا تھا وہ اب ہر گھنٹے بلیٹین کی صورت میں نکل رہا ہے۔

میری ص م صاحب سے درخواست ہے کہ نیر کی کلاس ضرور ہونی چائیے کہ وہ ابھی سیکھنے کے مرحلے میں ہے، لیکن یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ بہت سے رجحانات صرف اُس کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے نئے ہیں۔ سبھی ایک Transition Period سے گزر رہے ہیں جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ آسان ہوتا چلا جائے گا۔ نیوز روم میں روزانہ کی بنیاد پر ماؤس کے کلکس گنیں جائیں تو بلا شبہ اربوں میں ہوں گے، یعنی اخبارات میں لکھے جانے والے حروف سے ہزاروں گنا زیادہ۔ ہر ایک حرف کی طرح ہر ایک کلک بھی تو کسی نا کسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح خبروں کے ذرائع تعداد بھی بہت زیادہ ہوچکے ہیں۔ کراچی اور جیسے تقریباً ہر بڑے شہر کی سڑکوں پر روز سیکڑوں نئی گاڑیاں آ رہی ہیں۔ رش بڑھ رہا ہے، معلومات بڑھ رہی ہے اور الجھنیں دوگنی ہو رہی ہیں۔ ایسے میں نیر کے لئے سب کچھ ہینڈل کرنا مشکل ہورہا ہے۔

ص م صاحب۔ مہربانی فرمائیے۔ انٹرنیوں پر تھوڑا ہلکا ہاتھ رکھیئے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments