سینیٹ کو بکاؤ گھوڑوں کا اصطبل کس نے بنایا؟


کرسی برائے فروخت، صوفہ برائے فروخت، مکان برائے فروخت، گاڑی برائے فروخت کے بعد پیش خدمت ہے ضمیر برائے فروخت، ووٹ برائے فروخت، سینیٹر برائے فروخت، ایم پی اے برائے فروخت، بس نوٹ دو، ووٹ لو۔

ہم ایسے ملک کے رہنے والے ہیں جہاں سب کچھ بکتا ہے۔ کہیں زندگی بکتی ہے تو کہیں موت بکتی ہے، کہیں اچھا بکتا ہے تو کہیں برا بکتا ہے، کہیں عزت بکتی ہے تو کہیں غیرت بکتی ہے، اور کہیں انصاف بکتا ہے تو کہیں ظلم و ستم بکتے ہیں۔ یہ ایسی منڈی ہے جہاں سب کچھ بکے گا ، جو ہے وہ بھی بکے گا اور جو نہیں وہ بھی بکے گا۔

یہاں اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکتی ہیں، یہاں ہوشیاری کے نام پر مکاری بکتی ہے، یہاں تنقید کے نام پہ جہالت بکتی ہے، یہاں انصاف کے نام پہ ناانصافی بکتی ہے۔

سچ کے نام پہ جھوٹ بکتا ہے، یہاں قابلیت کے نام پہ جہالت بکتی ہے، یہاں جیت کے نام پہ ہار بکتی ہے، یہاں آنسو بکتے ہیں یہاں سسکیاں بکتی ہیں اور پیسے کے نام پہ یہاں سب کچھ بکتا ہے۔

مال وہی بکتا ہے جس کا خریدار ہو۔ یہاں ظلم کا خریدار ظالم ہے تو ظلم بکتا ہے۔ یہاں نا انصافی کا خریدار جج ہے تو ناانصافی بکتی ہے۔ یہاں غربت کا خریدار حکمران ہے تو غربت بکتی ہے۔ یہاں دھوکہ اور جھوٹ کا خریدار سیاست دان ہے تو دھوکہ اور جھوٹ بکتا ہے۔ یہاں سیاست بکتی ہے تو خریدار مقتدر ہوتے ہے۔ یہاں مذہب بکتا ہے تو خریدار مولوی ہوتا ہے۔ بہرکیف یہاں سب کچھ بکاؤ مال ہے، سب کچھ بکتا ہے۔

یہاں سب بکتا ہے۔ کبھی غریب روٹی کے لئے بکتا ہے تو کبھی انصاف کے لئے بکتا ہے۔ کبھی عزت بکتی ہے تو کبھی ضمیر بکتا ہے۔ کبھی انصاف بکتا ہے تو کبھی انصاف کرنے والے بکتے ہیں۔ کبھی آئین بکتا ہے تو کبھی قانون بکتا ہے۔

پیسے کے نام پر یہاں سب کچھ بکتا ہے۔

9 فرووری کو ایک وڈیو منظر عام پر آئی ، جس میں کچھ ’شریف لوگ‘ تشریف فرما ہیں اور ان کے سامنے ایک ٹیبل پر نوٹوں کی گڈیاں پڑی ہوئی ہیں۔ ہر کوئی اپنا اپنا حصہ وصول کر رہا ہے، کوئی فروخت ہو رہا ہے تو کوئی خرید کر رہا ہے، گھوڑے بیچنے اور خریدنے کی منڈی گرم ہے۔ بڑی ایمانداری اور نہایت ہی اطمینان سے ضمیر کی بولی لگائی جا رہی ہے، سیاسی نمائندے جو عوام کے ووٹ سے منتخب ہوئے ، وہ عوام کی امیدوں کی قیمت وصول کر رہے ہیں۔

اس وڈیو سے ثابت ہو گیا کہ یہاں سب کچھ بکاؤ مال ہے۔ 2018 کے سینیٹ کے انتخابات کے لیے ایک ایم پی اے کی قیمت تقریباً تین سے پانچ کروڑ روپے لگائی گئی اور اس ساری خرید و فروخت کے لئے تقریباً ایک ارب بیس کروڑ روپے کا بندوبست کیا گیا۔ کوئی روک ٹوک نہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں، کیونکہ یہ دھندہ ہے، یہاں سب کچھ برائے فروخت ہے، بس فقط دام اچھا ہو۔

2018 کے سینیٹ انتخابات کے لئے پاکستان تحریک انصاف کے بیس، پیپلز پارٹی کے سات اور عوامی نیشنل پارٹی کے ایک ایم پی اے نے اپنے ضمیر کا سودا کیا۔ اس وقت خیبرپختونخوا اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے چھ ایم پی ایز تھے، اور ایک سینیٹر منتخب کرانے کے لئے اٹھارہ ایم پی ایز کے ووٹ درکار ہوتے ہیں، لیکن پیپلز پارٹی نے چھ ایم پی ایز کے ذریعے دو سینیٹر منتخب کروا لیے۔ یہ بالکل ایسی ہی انہونی تھی جیسی 2019 میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کی اکثریت ہونے کے باوجود ناکام ہوئی، اور اپوزیشن کے 14 ووٹ ضمیر کی آواز پر حکومت کے حق میں چلے گئے۔

اس وڈیو میں 2018 میں پی ٹی آئی کے وزیر بھی ضمیر فروشوں میں شامل ہیں۔ غریب عوام کے ووٹ لے کر وزیر بننے والے بھی اپنا ووٹ بیچ رہیں ہیں، کیونکہ یہاں سب کچھ برائے فروخت ہے۔

2018 میں ایک یم پی اے نے پریس کانفرنس کے دوران قرآن شریف ہاتھ میں اٹھا کر قسم کھائی تھی کہ اس نے پیسے نہیں لیے، وہ نہیں بکا۔ لیکن وہ صاحب بھی اسی وڈیو میں پیسے وصول کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ یہاں ایمان بھی برائے فروخت ہے۔ ایک خاتون ایم پی اے نے پیسے لینے سے انکار کیا ، اس لئے نہیں کہ اس کا ضمیر جاگ گیا تھا یا اس کے ضمیر نے ملامت کی یا پھر اسے عوام کے ووٹ کا احساس ہو گیا بلکہ اس نے رقم لینے سے انکار اس لیے کیا کیونکہ ریٹ کم لگایا گیا تھا۔ پیسے کے نام پر اخلاقیات کا جنازہ نکالا گیا، یہاں بے ضمیر کی راج نیتی ہے، یہاں سب کچھ برائے فروخت ہے۔

بکنے والے بکے، خریدنے والوں نے خریدا، وڈیو بنانے والوں نے وڈیو بنائی اور وقت کا تعین کر کے اسے منظر عام پر بھی لے آئے، اس ساری ضمیر فروشی کا اکھاڑا بنا اس وقت کے اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اور موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا گھر۔

اب کچھ لوگ یہ منڈی سجنے سے روکنے کے لئے قانون سازی کر رہے ہیں، لیکن لگے ہاتھوں اس منڈی میں خرید و فروخت کا نیا طریقہ بھی لائے ہیں۔ وزیراعظم صاحب نے خرید و فروخت کے ان دنوں میں اپنی پارٹی اور اتحادیوں کے تمام ایم این ایز کو کروڑوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کے نام سے نوازا ہے، تاکہ ان کا کوئی اور خریدار نہ پہنچ جائے، کیونکہ یہاں سب کچھ برائے فروخت ہے۔

اب ایک بار پھر سینیٹ کے انتخابات سے پہلے منڈی سجائی جائے گی، اس منڈی میں بولیاں لگیں گی، ضمیر فروشی ہو گی، کوئی سستے میں بکے گا، کوئی مہنگا بکے گا، بیوپاری پھر سے گھوڑوں کی خرید و فروخت کریں گے، کیونکہ یہاں سب کچھ برائے فروخت ہے۔ کسی شاعر نے بھی کیا خوب کہا ہے:

شاہ بکتے ہیں
فقیر بکتے ہیں
یہاں صغیر اور کبیر بکتے ہیں
کچھ سرعام، کچھ پس دیوار بکتے ہیں
اس شہر میں ضمیر بکتے ہیں
یہاں تہذیب بکتی ہے
یہاں فرمان بکتے ہیں
ذرا تم دام تو بولو
یہاں ایمان بکتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments