بنگالی بابا اور دیار غیر کی موت


رضا اختر۔

\"\"اس دسمبر میں بچپن کی شناسا آواز اب ایک وہم کی طرح سنائی دینے لگی ہے جس کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں لیکن نہ جانے جیسے جاڑے کی راتوں نے ان کا احساس بڑھا دیا ہو۔

دھند میں سلگتی سگریٹ کے آخری کش میں کھانستی ہوئی آواز، جس میں سردی نے کپکپاہٹ پیدا کر دی ہو یا دالان کی سیڑھیاں چڑھتے وقت کچھ سوالوں کی آواز۔

میں اکثر دوستوں کے ساتھ چائے کے ہوٹل پر گرم چائے کی چسکیاں لیتے خوش گپیوں میں دیر کر دیتا اور جب رات گئے گھر لوٹتا تو ایسی ہی آوازیں آتی۔

ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ بہت عرصہ پہلے کبھی ان آوازوں میں کھانسنے کی ملاوٹ نہ ہو لیکن تب کا مجھے یاد نہیں۔ شاید وہ باتیں میری لاشعوری میں چلی گئی ہیں۔

اوئے کون اے؟ رجا اے؟ ہاں جی بابا بنگالی رضا ہی ہوں۔ کیا حال ہیں آپ کے۔ طبعیت کیسی ہے؟

ٹھیک اے، سکر اے بابا۔ ہمیشہ کی طرح اپنے مخصوص بنگالی لہجے میں ان کے یہ دو بول سننے کو ملتے۔

محلے میں سب انہیں بنگالی بابا کہتے تھے۔ وہ مشرقی پاکستان کے باسی تھے۔ ان کا خاندانی نام معیاری عطر اور پرفیومز کے سب سے بااعتماد ڈیلر کے طور پر جانا جاتا تھا۔ گھر میں پانچ بھائی اور تین بہنیں تھیں۔

تین چچا اور والد کا مشترکہ کام کراچی میں ایمپریس مارکیٹ سے صدر کی دکانوں تک خالص عطر پہنچانا تھا اور بس یہی اس خاندان کی زندگی۔

\"\"میں بچپن سے جوانی تک ان کا نام بابا بنگالی ہی سنتا آ رہا تھا۔ آخر بے چین ہو کر ایک دن پوچھ ہی لیا کہ بابا آپ کا اصل نام کیا ہے؟ بولے ابوالکلام۔ اس دن میں نے کس کس کو نہیں بتایا کہ بھئی ان کا اصل نام ابوالکلام ہے۔ مجھے تو آج پتا چلا۔

لیکن مشرقی پاکستان کا ابوالکلام یہاں کیسے۔ وہ تو بنگلہ دیش بن گیا۔ جہاں الگ ویزہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں تو میں بیس سالوں سے یہیں دیکھ رہا ہوں۔

یہ سوال بھی ہمیشہ میرے دماغ میں رہتا لیکن کئی دفعہ ان سے یہ سوال پوچھنے کے باوجود جواب نہ ملا۔

بالاآخر کوئی دو سال پہلے انہوں نے یہ راز مجھ پر کھولا۔ \”ماں سے لڑ کر نکلا تھا۔ گھر سے، ٹرین پکڑ کر کراچی آگیا۔ سال وہیں گم رہا۔ اسٹیشن پر سو گیا دن میں شہر گھوم لیا۔ لڑکپن تھا تب۔ سوچا گھر والے خود ہی ڈھونڈ لیں گے اگر مجھ سے پیار کرتے ہیں تو\”۔۔۔!!!

\”سال گزر گیا۔ لوگوں نے بتایا کہ جنگ لگ گئی ہے۔ اسٹیشن پر ایک بابا ملے جو اپنے علاقے کے لگے۔ انہیں اپنے بارے میں بتایا وہ بولے بیٹا اب تمھارا گھر بہت دور رہ گیا ہے۔

مجھے نہیں یاد پتہ نہیں میں یہ بات سن کر رویا تھا یا خاموش ہو گیا تھا\”۔ بابا بنگالی نے ذہن پر زور دیتے ہوئے گیلی آنکھوں سے کچھ سوچا۔

\”چھوٹا تھا ناں بہت۔ پھر میں اسی بابا کے پاس رہنے لگ گیا کراچی میں۔ کبھی درباروں پر چلا جاتا، کبھی درباروں کی زیارت میں شامل ہونے والے قافلوں میں جا گھستا اور کئی کئی ماہ کبھی شاہ عبدالطیف بھٹائی کے دربار پر گزرتے تو کبھی شہباز قلندر دربار پر۔\” میں بڑے انہماک سے انہیں سن رہا تھا۔

\”پھر پاکپتن آگیا۔ دربار بابا فرید الدین پر۔ بس تب سے یہی جگہ راس آئی اور بابا فرید نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مجھے اپنا مہمان بنا لیا۔\”

\”تو بہن، بھائی اور دیس پردیس کا کیا بابا؟ اماں، ابا اور وہ گلیاں جہاں بپچن گزرا سب کیسے چھوڑ چھاڑ دیا\”۔ میں نے سوال کیا۔

\”کہاں چھوڑا؟ میں نے چھوڑا؟ وہ نہیں ہے اب وہاں میرا گھر جہاں پہلے تھا\”۔ بابا بولے۔

\"\"اتنا کہہ کر وہ چپ کر جاتے اور ان کے چہرے کا رنگ بتا رہا ہوتا کہ وہ مزید اس موضوع پر بات نہیں کریں گے۔

کہیں کہیں مجھے لگتا کہ ابوالکلام میں چھپا ایک معصوم بچہ ابھی تک بضد ہے کہ اس کے چاہنے والے اسے خود ڈھونڈتے لیکن شاید وہ اس بات سے غافل ہے کہ ان بیچاروں نے تو بہت ڈھونڈا ہو گا لیکن وقت نے مہلت ہی نہ دی اور سب بہا لے گیا۔

یا شاید ان کی اماں سے لڑائی کی وجہ ہی کچھ ایسی سنگین ہو کہ انہوں نے واپسی کی کشتیاں ہی جلا دی ہوں۔۔۔۔! لیکن میں کوئی بھی رائے قائم کرنے میں ناکام تھا۔

میرا گھر ایک بند گلی کے آخر میں ہے اور اسی گھر کے سامنے بابا بنگالی کا مکان ہے جس کے دروازے پر اکثر بیٹھے وہ سگریٹ کے کش لگا رہے ہوتے۔

عہد جوانی میں پاکپتن آکر انہوں نے آرٹیفیشل جیولری کا کام شروع کیا۔ کراچی سے مال لاتے اور یہاں آٹھ آنے میں بیچ دیتے۔ خاصی جمع پونجی جوڑ رکھی تھی جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی گئی۔

بڑھاپا آن پہنچا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب انہیں دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہونا پڑا۔ میں اکثر انہیں جیب خرچ دینے کی کوشش کرتا تو نہ لیتے لیکن پھر بے حد اصرار پر رکھ لیتے۔ مجھے پتہ تھا کہ وہ تندور سے روٹی لا کر پانی سے کھا لیں گے لیکن کسی کا دروازہ نہیں کھٹکھٹائیں گے۔

ایک دن میں نے پیسے دیے تو کہتے \”مجھے اب خوراک کی ضرورت نہیں۔ بس یہ پیسے اپنے پاس سنبھال رکھو اور میرے گھر کا دروازہ کھول کر مجھے دیکھتے رہنا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں اب زیادہ دن نہیں جی سکوں گا۔\” ایک طویل اداسی ان کے چہرے پر ہوتی۔

\"\"\”ان پیسوں سے میرے کفن دفن کا انتظام کر دینا۔\” وہ اکثر سفارش کرتے۔

میں نے کہا کہ بابا اللہ صحت دے آپ کو۔ آپ ٹھیک ہو جاؤ گے اور جواب میں مجھے صرف ایک \”ہوں\” سننے کو ملتا۔

نومبر کا آغاز تھا اور چند ہی دن ٹھنڈی ہوائیں چلی۔ ایک دن مجھے گھر کے دروازے پر ملے۔ میں نے حال چال پوچھا تو بولے۔ طبیعت نہیں ٹھیک۔ میں نے کہا بابا دوائی لے آنا تھی۔ کہا کہ لے کر آیا ہوں اور خاموشی سے چل دیے۔

صبح چھوٹے بھائی نے بتایا کہ بابا بنگالی رات کے کسی پچھلے پہر وفات پا گئے ہیں۔

رات کے کسی پہر، خالی گھر میں۔ کسی اپنے کے بغیر موت کو گلے لگانا، جب دنیا محو خواب ہو۔ اک سانحہ ہے۔

ان کے کفن دفن کا انتظام کیا گیا اور گھر کے باہر ایک شمع جلا دی گئی پھر رات کے کسی پہر شمع بھی بجھ گئی اور بس۔۔۔۔

اب رات کو گھر دیر سے لوٹوں تو آواز آتی ہے اوئے کون؟ لیکن کہا ناں وہی وہم اور بس اسی وہم میں ایک تیز ہوا کا جھونکا پاس سے گزر جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments