دعوتوں کا کلچر اور خواتین خانہ


وقت کے ساتھ ساتھ رکھ رکھاؤ اور ماحول میں بھی جدت آ گئی ہے ۔ پہلے جہاں چند مواقعوں پر دعوت ہوتی تھی اور گھر پر ہوتی تھی ، اگر گھر بدلا تو دعوت، بیٹے نے میٹرک پاس کیا تو دعوت ، اب یہ ہوتا ہے کہ دعوت کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں رکھ لی جائے تو اچھا ہے مگر پھر اگر نئے گھر کی دعوت ہے تو وہ تو گھر پر ہی ہو گی ، ایسے میں خاتون خانہ کی کچن کی ذمہ داریوں میں کمی نہیں ہوتی بلکہ اضافہ ہو جاتا ہے۔

پہلے دعوت کا مینیو سوچا جاتا ہے کہ کتنے آئٹم دسترخوان کی زینت بننے ہیں اور پھر آئٹم بھی ایسے ہوں کہ شوہر، بچوں کے ساتھ مہمانوں کو بھی پسند آئیں اور پھر کچھ منفرد بھی ہو تاکہ چار جگہ یہ بات بھی پتا چلے کہ زہرہ کے ہاتھ میں ذائقہ ہے۔

دسترخوان پر مہمانوں کی تواضع کے لیے گو کہ بریانی، قورمہ، کڑاھی، سلاد اور میٹھے میں کھیر اور کسٹرڈ کو زینت بنایا جائے مگر ہائے یہ کولڈ ڈرنکس جنہیں پی کر آدھا پیٹ مہمان بھر لیتے ہیں اور پھر جب کھانا بچتا ہے تو شوہر نامدار کہتے ہیں تمہارے ہاتھ میں ذائقہ ہو تو ہی مہمان کھانا کھائے۔ یہ بات جتنی تکلیف دہ ہوتی ہے ، اس کا اندازہ وہی خاتون لگا سکتی ہے جس نے دن بھر محنت کر کے کھانا پکایا ہو ، ایک تو محنت اور پھر اس پر یہ کاٹ دار جملہ۔

میرا آج دعوت پر لکھنے کا مقصد کسی کو کسی فعل سے روکنا، غلط کہنا یا پھر تنقید کرنا ہر گز نہیں ہے بلکہ خاتون خانہ، شوہر نامدار کے ساتھ ساتھ دیگر گھر والوں سے بھی ایک معمولی سا سوال پوچھنا ہے۔ اگر بھائی بہنوں کے لیے نئے گھر کی دعوت کرنا ضروری ہوتا ہے تو اس کے پیچھے کیا مقاصد ہوتے ہیں؟ یہی کہ بنا کر رکھنی ہے ، چار لوگوں میں اپنی واہ واہ کرانی ہے یا پھر اس کے علاوہ کچھ اور۔

ان بھائی، بہنوں کی دعوت کی جاتی ہے اور یہیں وہ ہوتے ہیں جو قبر میں لٹا کر آتے ہیں تو پھر ایسا کیوں ہے کہ وہاں خرچ کیا جا رہا ہے جہاں سے صرف دنیا میں چند لمحوں کی لفظی خوشیاں حاصل ہو رہی ہے ۔ میں نے مانا کہ کبھی کبھار بھائی، بہن بھی ضرورت مند ہوتے ہیں اور ان کی مدد کرنا اولین فرائض میں شامل ہوتا ہے مگر میرا خیال ہے کہ ان کو دعوت کی جگہ خفیہ مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔

دعوت کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے مگر اگر آپ کی جیب صرف اس ایک دعوت کی اجازت دیتی ہے ۔ پھر گھر پر کام کرنے والی ماسی کو راشن دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا جاتا ہے کہ تمہارے صاحب نے منع کر دیا کیونکہ منع تو صاحب نے ہی کیا ہوتا ہے ، حالانکہ دعوت صاحب کی مرضی اور رضا سے ہوئی ہوتی ہے مگر یہاں ان کا ہاتھ تنگ ہو جاتا ہے۔

ایسے میں پھر یہ کئی گنا بہترنہیں کہ وہ پیسے جو دعوت پر خرچ کیے جا رہے ہیں ، ان سے پہلے غریبوں کی مدد کی جائے؟ ان کے لیے بہترین کھانے کا انتظام کیا جائے ۔ اگر گھر سے باہر ایسا کرنا ناممکن ہے تو کم از کم وہ ماسیاں جو آپ کے گھروں میں کام کر رہی ہیں ، ان کی مدد اپنی استطاعت میں رہتے ہوئے کی جائے کیونکہ سچ سے آنکھیں چھپانے سے کچھ حاصل نہیں۔ یہی وہ اعمال ہیں جو آپ کی وہاں کی بگڑی سنوار دیں گے ۔ کب کس کی ضرورت آپ سے پوری ہو رہی ہے آپ نہیں جانتے ، کب کون آپ کے لیے دعا کر رہا ہے اس سے آپ لاعلم ہے ، اس لیے کوشش کیجیے

اپنا وقت اور پیسہ وہاں لگائیں جہاں سے وقتی خوشی وقتی تعریف موصول نہ ہو بلکہ کچھ دائمی ملے۔

افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ آج ہم رشتے نبھانے میں اس قدر مصروف ہیں کہ وہ سب بھولے جا رہے ہیں جو اصل ہے ، اس لیے میری درخواست ہے کہ خود بھی اور اپنے گھر والوں کو بھی منائیے اور اس بات کی کوشش کیجیے کہ اگر آپ کے پاس بے پناہ دولت ہے تو ضرور لمبی چوڑی دعوت کیجیے کیونکہ یقیناً پھر آپ اتنا ہی مال غریبوں پر بھی خرچ کریں گی اور اپنے مجازی خدا سے بھی کروائیں گی مگر اگر ایسا نہیں ہے تو پھر دنیا نہیں آخرت کو تھامیے اور جو کچھ میسر ہے اس سے غریبوں کی ضروریات پوری کیجیے ، اللہ آپ کو اور نوازے گا اور وہاں کی بھی سنوارے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments