انتظار حسین : شخص اور شہر


\"\"

انتظار حسین نے حکیم اجمل خان کی سوانح حیات لکھنے کی پیشکش بڑے تذبذب کے عالم میں اور بڑے تامل کے ساتھ قبول کی تھی۔ سید ابوالخیر مودودی سمیت متعدد قابلِ احترام شخصیتوں کے پُرزور اصرار پر اُنھوں نے یہ کہتے ہوئے یہ ذمہ داری قبول کی تھی کہ ’’یہ کام تو کسی مؤرخ اور محقق کے کرنے کا تھا۔ تاریخ اور تحقیق میرا میدان نہیں ہے1۔ ‘‘ کتاب پڑھتے وقت قاری االلہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ یہ کتاب کسی مؤرخ اور محقق کی بجائے ایک تخلیق کار نے لکھی ہے۔ انتظار حسین کے تخلیقی اندازِ نظرنے اِس تحقیق کو حکیم اجمل خان کی سرگزشت کے ساتھ ساتھ ہماری قومی سرگزشت کا ایک زرّیں باب بھی بنا دیا ہے۔ اس باب میں اُنھوں نے تاریخی مواد کو بھی خوب کھنگالا ہے اور خاندانِ شریفی کی بڑی بوڑھیوں کے مشاہدات اور تاثرات کو بھی مشعلِ راہ بنایا ہے۔ اِن بڑی بوڑھیوں نے :

’’حکیم صاحب کے اٹھنے بیٹھنے کھانے پینے کے بارے میں، عزیز و اقربا کے ساتھ سلوک کے بارے میں باتیں بتائیں۔ اصل میں میں تو اس طریقہ سے سوچ رہا تھا کہ حکیم اجمل خان صرف وہ تو نہیں تھے جو شریفی مسند پر بیٹھے مطب کر رہے تھے نہ صرف اتنے تھے جتنے خلافت تحریک میں اور کانگرس اور مسلم لیگ کے جلسوں میں نظر آتے تھے یا جامعہ ملّیہ اور اور طبیہ کالج میں دیکھے جاتے تھے۔ اپنی نجی زندگی میں گھر کے اندر خاندان کے بیچ اس شخص کا طور کیا تھا، اس کا تو پتہ چلنا چاہیے۔ وہ باتیں بظاہر چھوٹی موٹی اور بے وقعت سہی مگر اصلی آدمی کا پتہ بسا اوقات ایسی باتوں سے بھی چلتا ہے 2۔ ‘‘

انتظار حسین اپنی اِس کتاب کے پیش لفظ کی آخری سطروں میں حکیم اجمل خان کوہندی مسلمانوں کے تہذیبی چلن کی نمائندہ شخصیت قراردیتے وقت بتاتے ہیں کہ:

’’تہذیبی شہر اپنے عمل میں کسی کسی موڑ پر پہنچ کر ایسی شخصیت کو جنم دیتے ہیں جس میں وہ شہر اپنے پورے مزاج اپنے پورے تہذیبی چلن کے ساتھ سما جاتا ہے۔ حکیم اجمل خان ایسی ہی تہدیبی شخصیت تھے۔ سمجھ لو کہ اپنی ذات میں وہ چلتی پھرتی دلّی تھے۔ سو خواجہ حسن نظامی نے ٹھیک کہا کہ دلی کی سیر کو آنے والے جب قطب مینار اور لال قلعہ کو دیکھ چکیں تو پھر بلیماراں جا کر حکیم اجمل خان کو بھی دیکھیں۔ اور میرے لیے ساری مشکل یہیں سے پیدا ہوئی۔ پہلے اس تہذیب کو سمجھو، پھر وہ شخصیت سمجھ میں آئے گی۔ یا یوں بھی ہو سکتا ہے کہ اس شخصیت کے واسطے سے آپ اس تہذیب کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ‘‘3

\"\"

انتظار حسین نے اپنے اِس تخلیقی عمل کے دوران حکیم اجمل خان کی شخصیت کو ہند مسلم تہذیب کے آئینے میں بھی منعکس دیکھا ہے اور ہندی مسلمانوں کی تہذیب کو بھی حکیم اجمل خان کے چلن میں کارفرما دیکھا ہے۔ ہرچند حکیم اجمل خاں نے جامعہ ملّیہ اسلامیہ کی سی دانش گاہیں بھی قائم کیں اور ایک مخصوص تہذیبی اندازِ نظر کے ساتھ برصغیر کی سیاست میں بھی سرگرمِ عمل رہے مگراُن کی اصل پہچان شریفی خاندان کے نامور حکیم کی حیثیت تھی۔ اِس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اُن کے طبّی کارناموں کی جانب متوجہ ہوں۔ انتظار حسین اِس باب میں لکھتے ہیں:

’’یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ حکیم اجمل خان حکیم تھے، ڈاکٹر نہیں تھے۔ ڈاکٹر ہمارے ہاں مغرب سے آیا اور اس وقت آیا جب وہاں صنعتی زندگی فروغ پا رہی تھی۔ صنعتی عمل Dehumanization کا عمل ہے۔ اس عمل میں انسانی سرگرمیوں اور مشغلوں سے انسانی حرارت خارج ہوتی چلی جاتی ہے اور ایک میکانکیت آتی چلی جاتی ہے۔ پیشوں کے ساتھ جب یہ عمل گذرا تو ان سے انسانی رنگ خارج ہو گیا۔ وہ محض اور صرف پیشے رہ گئے انسانی حرارت سے عاری، تاجرانہ رنگ میں رچے ہوئے، یونانی طب نے اس تہذیب میں نشوونما کی تھی جس میں انسانی رشتے مقدم حیثیت رکھتے تھے۔ اس کی وجہ سے پیشے محض پیشے نہیں رہے تھے بلکہ ہر پیشہ ایک تہذیبی ادارہ بن گیا تھا۔ ہند اسلامی تہذیب میں مختلف پیشوں کی بالعموم یہی صورت تھی۔ اس تہذیب میں طبابت محض ایک پیشہ نہیں تھی، بلکہ انسانی درد مندی کا بھی ایک رنگ اس میں شامل تھا۔ اس پیشہ میں خاندان شریفی اپنی مخصوص روایات کے ساتھ داخل ہوا۔ خاندان شریفی اصلاً اہل درد کا خاندان تھا۔ اس خاندان کے مورث اعلیٰ حضرت خواجہ عبید االلہ احرار تھے کہ اہل االلہ میں سے تھے۔ اولاد نسلوں تک اپنے جد کے مسلک پر قائم رہی۔ رفتہ رفتہ طبابت کا پیشہ اختیار کیا مگر اپنی جدی روایت کے تحت یہاں بھی خدمت خلق کے مقصد کو اپنائے رکھا۔ اس خاندان نے آگے چل کر نامی گرامی طبیب پیدا کیا مگر صورت بالعموم یہی رہی کہ ایک پاؤں مطب میں تھا تو دوسرا پاؤں خانقاہ میں۔ ‘‘4

خواجہ عبید االلہ احرارکا شمار تصوف کے نقشبندی مسلک کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ مطب اور خانقاہ کا یہ رشتہ کارِ دل اور کارِ دُنیا کا اٹوٹ رشتہ ہے۔ ایسا رشتہ جو دنیاوی کاموں کو بھی عبادت کا تقدس بخش دیتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ آدمی خانقاہ سے مطب بھی خلقِ خدا کے درد وغم میں شرکت کی عبادت کو جاتا ہے۔ انتظار حسین نے مشرقی طب کے اِن روحانی محرکات و عوامل پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ مغرب کی مشینی زندگی سے برآمد ہونے والی ایلوپیتھی کا موازنہ کر کے ہمیں اپنی قدیم اقدار و روایات کی انسان دوست اور زندگی افروز روایات کی جانب یوں متوجہ کیا ہے کہ ہم حکیم اجمل خان کی وفات کو ایک فرد نہیں ایک تہذیب کا غروب سمجھنے لگتے ہیں۔ اب ہمیں ایک نئی تہذیب میں زندہ رہنا تھا جہاں طب عبادت کی بجائے تجارت ہو کررہ گئی تھی۔

انتظار حسین نے حکیم اجمل خاں کی شخصیت و کردار کے نمایاں ترین رُخ پیش کرتے وقت تعلیم کے فروغ میں اُن کی مساعی کی تحسین کا حق بھی ادا کیا ہے اور ہمیں اُن کی سیاسی زندگی کے پیچ و تاب اور سوز و ساز سے بھی آشنا کیا ہے۔ سیاسی زندگی کے باب میں انھوں نے تحقیق کا حق ادا کرتے وقت پاکستان کے تاریخ دانوں اور محققوں کے سامنے تحقیق کا ایک نیا معیار بھی پیش کیا ہے۔ خلافت تحریک پر برصغیر میں بھی بہت دادِ تحقیق دی گئی ہے اور مغربی دُنیا میں بھی مگر تحریکِ خلافت کے دورِ آخر میں ہندو مسلم اتحاد کے ٹوٹ کر رہ جانے پر ایسا مدلل اور مؤثر استدلال پیشتر ازیں پیش نہیں کیا گیا۔ انتظار حسین نے اس ضمن میں سی آر داس کے نام لالہ لاج پت رائے کے ایک خط اور رابندر ناتھ ٹیگور کے ایک بیان کا حوالہ دیا ہے۔ یہ خط اور یہ بیان، ہردو، خلافت تحریک سے ’’ہندؤں کے سوئے ہوئے اندیشوں اور وسوسوں ‘‘ کے جاگ اُٹھنے کے ترجمان ہیں۔ لالہ لاج پت رائے اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ:

\"\"

’’ایک مسئلہ اور ہے جو پچھلے تھوڑے عرصے سے مجھے بہت پریشان کر رہا ہے اور میں آپ سے بھی درخواست کروں گا کہ ذرا اس پر سنجیدگی سے سوچ بچار کیجئے، یہ ہے ہندو مسلم ایکتا کا مسئلہ۔ پچھلے چھ مہینوں میں، میں نے زیادہ وقت مسلمانوں کی تاریخ اور اسلامی فقہ پر صرف کیا ہے اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ ایکتا نہ تو ممکن ہے نہ مناسب ہے۔ مان لیا کہ مسلمان نیتا تحریک ترک موالات کے سلسلہ میں بہت پرخلوص ہیں، مگر میرا خیال یہ ہے کہ ان کا مذہب ان کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے کلکتہ میں آپ کو سنایا تھا کہ حکیم اجمل خاں اور ڈاکٹر کچلو سے میری کیا باتیں ہوئی تھیں۔ ہندوستان میں حکیم صاحب سے بڑھ کر نفیس مسلمان کوئی نہیں ہے، لیکن کیا کوئی مسلمان قرآن سے تجاوز کرسکتا ہے۔ اسلامی فقہ کا جو میں نے مطالعہ کیا ہے رام کرے وہ غلط ہو اور اگر یہ ثابت ہو جائے کہ میں نے اسلامی فقہ کو غلط سمجھا ہے تو مجھے بہت سکون ہوگا لیکن اگر میں نے صحیح سمجھا ہے تو اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انگریزوں کے خلاف ہم بے شک متحد ہو جائیں مگر ہندوستان میں جمہوری انداز سے حکومت چلانے کے معاملہ میں ہمارا اتحاد برقرار نہیں رہ سکتا۔ پھر اس کا علاج کیا ہے؟ میں ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں سے خوفزدہ نہیں ہوں لیکن اگر ان سات کروڑ کے ساتھ افغانستان، وسطی ایشیا، عرب، عراق اور ترکی کے مسلح لشکر بھی شامل ہو جائیں تو پھر ان کا مقابلہ مشکل ہوگا۔ ‘‘5

کتاب کے آخری باب میں انتظار حسین ایک مرتبہ پھر تحریکِ خلافت کے آخر آخر میں ہندو مسلم اتحاد کے ہندومسلم عنادمیں بدل کر رہ جانے کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اُن کے تنقیدی تجزیے کے مطابق اِس عناد کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں سے ہندؤں کا نفسیاتی خوف ہے:

’’عجب ہوا کہ ہندو خود اس اتحاد سے ڈر گئے۔ اُن کے اس نئے ڈر کا ایک تاریخی پس منظر تھا۔ آخر یہ تحریک خلافت کے نام پر چلی تھی جس کا مرکز ترکی تھا۔ ساتھ ہی مسلمان رہنماؤں نے یہ منصوبے باندھنے شروع کر دیے تھے کہ افغانستان اور ترکی مدد آزادی کی تحریک کے لیے حاصل کی جائے۔ اُن کے اِن ارادوں نے ہندوؤں کے اندر سوئے ہوئے اِس تاریخی تجربے کو زندہ کردیا کہ اِن علاقوں سے اولوالعزم جنگجو نکلتے تھے اور ہندوستان پر حملہ آور ہوتے تھے۔ بس اِس یاد کے ساتھ اُن کے اندر وسوسے اور اندیشے پیدا ہوتے چلے گئے۔ ‘‘6

ہندؤں کے انہی اندیشہ ہائے دور و دراز نے مہاتما گاندھی کے دل و دماغ پر بھی اپنا تسلط جما لیا۔ چنانچہ انھوں نے ضلع گورکھ پور کے ایک قصبے میں ایک معمولی سے واقعہ کو بہانہ بنا کر تحریکِ خلافت کے التوا کا اعلان کر دیا:

’’گاندھی جی کا اعلان پورے ہندوستان پر بجلی بن کر گرا۔ طوفان جو انگریز کے خلاف اٹھنا تھا، گاندھی جی کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوا۔ کیا کانگریس اور کیا خلافت کمیٹی دونوں حلقوں میں گاندھی جی ہدف ملامت بنے۔ جو رہنما جیلوں میں بیٹھے تھے انھوں نے یہ خبر سنی تو سر پیٹ لیا کہ گاندھی جی نے کیا کیا۔ ‘‘7

اِس سانحہء عظیم سے حکیم اجمل خاں کے ہند اسلامی تہذیب کی حیاتِ نو کے خواب بھی چکنا چور ہو کر رہ گئے تھے اور وہ شکستِ خواب سے پیدا ہونے والی مایوسی اور بے دلی کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ نتیجہ یہ کہ تحریک کے منتشر ہوتے ہوتے وہ بھی اِس دنیا کو ترک کر کے عدم آباد چل دیے تھے۔ ہندی مسلمانوں کی اجتماعی ہستی کی تندرستی اور توانائی سے ہندو قیادت کے اِس خوف نے مسلمان قیادت میں ایک نئی آگہی کو جنم دیا۔ اِسی آگہی نے جداگانہ مسلمان قومیت کا تصور پیدا کیا۔ اس تصور نے تحریکِ پاکستان کوجنم دیا اور یوں جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر پاکستان کاقیام عمل میں آیا۔ انتظار حسین نے اپنے تحقیقی انہماک اور اپنے تنقیدی تجسس کی بدولت تاریخ کے بہاؤ کی سمت و رفتار کواپنی تخلیقی بصیرت سے یوں پیش کیا ہے کہ ان کہی بھی کہی ہوئی باتوں سے کہیں زیادہ کہتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس انداز کی فصاحت و بلاغت انتظار حسین کا وصفِ خاص تھا۔

اس کتاب نے نیاز احمد صاحب کو اتنا متاثر کیا کہ انھوں نے اُن سے ’’دِلّی تھا جس کا نام‘‘کے عنوان سے ایک اور کتاب لکھنے کی فرمائش کر دی۔ اُنھوں نے اپنی اِس فرمائش کے پورا ہونے سے بہت پہلے کتاب کی اشاعت کا اعلان بھی کر دیا۔ سو، انتظار حسین نے مارے باندھے یہ فرمائش بھی پوری کر دی۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں میں نے ’’مارے باندھے ‘‘کی بات غلط کہہ دی۔ انتظار حسین بے شک دوستوں کی فرمائش پر کوئی کام کیوں نہ کریں، کام فرمائشی نہیں تخلیقی شان اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ’’ دلّی تھا جس کا نام‘‘ہر اعتبار سے’’ اجملِ اعظم ‘‘کی توسیع ہے۔ اِس کتاب میں ہم اندرپرستھ سے دلّی، دلی سے شاہ جہان آباد اور شاہ جہان آباد سے نئی دہلی کی ترقی و تنزل کے مختلف مراحل سے گذرتے ہیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دلّی کا ذکر آئے اور انتظار حسین کو امیر خسرو یاد نہ آئیں۔ اب وہ اُنھیں نئے اور پرانے میں آمیزش اور آویزش کی تقریب سے یاد آئے ہیں :

’’تو اب مقامی اور بیرونی رنگ گھل مل کر ایک نئی وحدت میں ڈھل چکے ہیں۔ ایک نیا معاشرہ کی نمود ہے۔ ایک نئی تہذیب ظہور کر رہی ہے۔ دربار کی اپنی شان و شوکت۔ خانقاہوں کا اپنا وقار۔ گلی کوچوں کی اپنی گہما گہمی۔ بازاروں کا اپنا بھیڑ بھڑکا۔ اور ایک شاعر ہے جس کا ایک قدم دربار میں ہے، دوسرا قدم خانقاہ میں۔ پھر شہر کے گلی کوچے اور بازار بھی اس کے قدموں کی زد میں ہیں۔ دربار میں اور دربار سے دور شیراز تک اس کی فارسی شاعری کا طوطی بولتا ہے۔ اس زور پر طوطی ہند کا خطاب پایا ہے۔ مگر گلیوں بازاروں میں وہ دوسری ہی زبان میں رواں نظر آتا ہے۔ ‘‘8
امیر خسرو نے دربارِ معلی کی فارسی زبان کے ساتھ ساتھ گلی بازار میں مروّج عوامی زبان میں جہاں عام آدمی کی اخلاقی اور روحانی تربیت کی خاطر’’ خالقِ باری ‘‘لکھی وہاں عوام کی تفریحِ طبع کے لیے عوامی زبان میں اتنا کچھ اور ایسا کچھ لکھا جو عام آدمی اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے لوک گیت کے سے انداز میں پڑھنے لگا اور یوں رفتہ رفتہ ایک نئی عوامی زبان نے جنم لیا جس میں آگے چل کر اُردو کا نام پایا۔ دستر خوان سے کھیل کے میدان تک اورمیلوں ٹھیلوں، موسمی تہواروں، لوک رسموں اور مقبولِ عام فنون، پسندیدہ رنگ، خوشبوئیں اورذائقے۔ ’’یہ سارا نقشہ دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ تہذیب غالب طور پر حواسِ خمسہ کی تہذیب تھی۔ پانچوں حواس کی تسکین کے لیے کیا کیا سامان فراہم کیے گئے تھے اور کس طرح وہ زندگی کے لوازمات میں شامل ہو گئے۔ ہاں مگر حواس خمسہ کی تسکین اس کا منتہا نہیں تھی۔ حواسِ خمسہ کا اقرار کر کے وہ اس سے آگے جاتی نظر آتی ہے۔ خوشبو حسیاتی تجربوں سے گذر کر روحانی تجربوں میں راہ پاتی ہے اور عقیدت کی خوشبو بن جاتی ہے9۔ ‘‘ عقیدت کی یہ خوشبوانتظار حسین کو بائیس خواجہ کی چوکھٹ تک لے جاتی ہے:

\"\"

’’حواس خمسہ کی تسکین اور آسودگی کے سب سامان اپنی جگہ مگر اس سارے معاملہ کی ایک جہت اور بھی تھی۔ جو حواس خمسہ سے ماورا تھی۔ اور یوں یہ تہذیب معلوم سے نامعلوم کی طرف اور موجود سے ماورا کی طرف سفر کرتی نظر آتی تھی۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ آخر یہ شہر خالی بادشاہوں کی راجدھانی تو نہیں تھا۔ اسے بائیس خواجہ کی چوکھٹ ہونے کا مرتبہ بھی تو حاصل تھاتصوف اس کی فضا میں رچا بسا چلا آ رہا تھا۔ ۔ بائیس خواجہ کی چوکھٹ۔ کیسے کیسے ولی نے آ کر یہاں ڈیرا کیا۔ اور مرجع خلق بن گیا۔ خواجہ بختیار کاکی، حضرت نظام الدین اولیاءؒ، حضرت شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلویؒ۔ زمانہ ہوا یہ بزرگ آسودہء خاک ہوئے۔ مگر ان کے مزاروں نے وہ رونق پکڑی تھی کہ مزار سے بڑھ کر ادارے بن گئے تھے۔ ‘‘10

امرا، علماء، شعراء، حکماء، ایک سے ایک بڑھ کر مگر سب سے بڑھ کر صوفیائے کرام دہلی کی تہذیب کا جلی عنوان تھا۔ انتظار حسین نے اس عنوان سے دہلی کی تہذیبی زندگی کی ثروت مندی کو خوب اُجاگر کیا ہے۔ انتظار حسین نے تہذیبی زندگی کے اِن تمام سرچشمہ ہائے فیضان سے بڑھ کر خانقاہ کو مرکزی اہمیت دی ہے:

’’اور ہاں ان روایتوں، اِن اداروں کو بھی تو دیکھو جنہیں اس نئی تہذیب نے جنم دیا۔ سب سے بڑھ کر خانقاہیں۔ محمد بن تغلق کے زمانے میں یہاں دو ہزار خانقاہیں تھیں۔ اِن خانقاہوں کی اپنی ایک تہذیب تھی۔ دربار کا سایہ اِس پر نہیں پڑا تھا۔ نہ راسخ العقیدہ علماء کے اندازِ فکر میں یہاں راہ پائی تھی۔ وہ اہلِ شریعت، یہ اہلِ طریقت۔ مذہبی اور تہذیبی تعصبات سے کوسوں دُور ہندوستان مسلمان، امیر غریب، جو اس دربار میں آنا چاہتا ہے آئے اور فیض اٹھائے۔ فارسی جاننے اور بولنے کی قید نہیں۔ یہاں تو ہندوی کا چلن تھا۔ فنونِ لطیفہ سے کوئی بیر نہیں تھا۔ موسیقی سماع کی صورت اختیار کر کے یہاں خوب رچ بس گئی تھی۔ اِن خانقاہوں میں جس خانقاہ نے رفتہ رفتہ مرکزی حیثیت اختیار کر لی وہ شیخ نظام الدین اولیاء کی خانقاہ تھی11۔ ‘‘

انتظار حسین نے جہاں صوفیاء کے فیضان کی تحسین کا حق ادا کیا ہے وہاں وہ علماء کی تحسین کا حق ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ انھوں نے اپنی اِس کتاب میں مدرسہء رحیمیہ کا ذکر تک نہیں کیا۔ یہ وہ دارالعلوم تھا جس میں شاہ عبدالرحیم، شاہ ولی االلہ اور شاہ عبدالعزیز کی سی عہد آفریں ہستیاں عہد در عہد اسلامیانِ ہند کی علمی اور تہذیبی حیاتِ نو کے جذبے سے سرگرمِ عمل رہی تھیں۔ اورنگ زیب عالم گیر کے دور میں حضرت شاہ ولی االلہ کے والدِ گرامی شاہ عبدالرحیم نے یہ مدرسہ قائم کیا تھا اور شاہ عبدالعزیزکے دور تک یہ عظیم تعلیمی ادارہ اشرافیہ کی بجائے عوام کی تربیت کا فریضہ سرانجام دیتا چلا آیا تھا۔ اسی درس گاہ کے تربیت یافتہ مسلمان تہذیبی اور حربی، ہر دو میدانوں میں انگریز سامراج کے خلاف اوّلیں تحریکِ مزاحمت میں شامل ہو کر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے اور یہیں سے شاہ عبدالعزیز کا وہ فتوی شائع ہوا تھا جس میں انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تحصیل کو جائز اور ضروری قرار دیا گیا تھا مگر ایسٹ انڈیا کمپنی کی سامراجی حکمتِ عملی کی سرتوڑ مزاحمت لازم قرار دی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب سن ستاون میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی پر دوبارہ قبضہ کیا تھا تو اُنھوں نے سب سے پہلے مدرسہء رحیمیہ کی عمارت کو تباہ و برباد کرنے کے بعد زمین اِس شرط پر لالہ بشن داس کو فروخت کر دی تھی کہ وہ یہاں بازار بنائے گا۔ انتظار حسین اپنی اِس کتاب میں علمائے حق کو سرے سے فراموش کر گئے۔ اِس فروگذاشت سے دلّی کی ہستی جن علمی ہنگاموں سے عبارت تھی قاری اُس سے محروم ہو گیا۔ غالب کے خطوط کے آئینے میں دلّی کی ہستی کا عکس موجود ہے مگر غالب کے سے رندانِ بادہ مست اور مولانا فضل حق خیرآبادی کے سے علمائے دین کے مابین مہر و محبت کے ذاتی روابط اور علمی لین دین سے دلّی کا جو رُخ سامنے آ سکتا تھا اُس سے قارئین محروم ہو کر رہ گئے۔ اقبال کے لفظوں میں : ع، ’تھی رِند سے زاہد کی ملاقات پرانی‘۔ رواداری اور وسیع النظری کے اِن تہذیبی شعائر کے زیرِ اثر، اُس زمانے کی دلّی میں رِند اور زاہد ایک دوسرے کا سر قلم کرنے کی بجائے بڑی محبت کے ساتھ ایک دوسرے سے اکتسابِ فیض کے خُوگر تھے۔ علماء اور شعراء کے مابین محبت اور رفاقت کے یہ اٹوٹ رشتے تب بھی معاشرے کی ثروت مندی کے ضامن تھے اور اب بھی اِن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ آخری مغل تاجدار کے سنگین حالات سے فرار کا خیال کریں تو رِند اور زاہد کی یہ ملاقاتیں اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر لیتی ہیں۔ ’’کتنے مشغلے کتنی بازیاں‘‘کے عنوان سے انتظار حسین نے پتنگ بازی، کبوتر بازی، بٹیر بازی، مرغ بازی، شطرنج بازی، چوسر بازی، نبوٹ بازی، پٹے بازی کی تہذیبی معنویت کی درج ذیل الفاظ میں مصوری کی ہے:

’’ادھر دن ذرا ڈھلا اور ادھر پتنگ بازوں نے جھرجھری لی۔ نامی گرامی استاد پتنگ باز ڈور کے بڑے بڑے پنڈے، ہچکے، چرخیاں، پتنگ، کنکوئے لے کر نکلے اور چلے لال قلعہ کے شمار میں سلیم گڑھ کی طرف۔ ادھر سے بادشاہ بہادر شاہ ظفر تخت رواں پر سوار ہو کر یہاں آن پہنچے۔ ایک طرف سے شاہی پتنگ باز مرزا یاور بخت کی سرکردگی میں شروع ہوئے۔ دوسری طرف سے معین الملک نظارت خاں شاہی ناظر کی ٹولی نے پتنگ کو ٹھمکی دی۔ ایک پتنگ، دوسری پتنگ، تیسری پتنگ۔ دیکھتے دیکھتے سارا آسمان پتنگوں سے بھر گیا۔ اور لیجیے پیچ شروع ہو گئے۔ دونوں طرف سے استادوں نے ڈھیل دینی شروع کر دی۔ پتنگیں جیسے آسمان سے جا لگی ہوں اور ڈور نے پیٹا اس قدر چھوڑا کہ ڈور جیسے زمین کو چھونے لگی ہو۔ مگر سواروں نے کہ اسی کام کے لیے تعینات ہوئے تھے اپنی انکڑے دار لکڑی سے ڈور کو اوپر اٹھایا اور سہارا دیا۔ اور لیجیے ایک پتنگ کٹ گئی۔ اور اس کے ساتھ ’وہ کاٹا‘ کا شور اٹھا۔ استاد کی وضعداری دیکھو کہ اس نے ڈور کھینچنے کی بجائے اسے ہتھے سے توڑ دیا۔ جہاں پتنگ گئی وہاں ڈور بھی جائے۔ بادشاہ سلامت کو بھی جھرجھری آئی۔ تخت رواں سے اتر کر اشارہ کیا۔ شاہی پتنگ باز نے اشارے کو سمجھا۔ آگے بڑھ کر مچھلی کے چھلکوں والے دستانے پہنائے اور قد آدم تکل حضور میں پیش کی۔ تکل ٹھمکی کے ساتھ اوپر اٹھی، اٹھتی چلی گئی اور دیکھتے دیکھتے تارا بن گئی12۔ ‘‘

ایک ایسے زمانے میں جب آخری مغل تاجدار کی سب سے بڑی مصروفیت پتنگ بازی تھی علمائے حق نے اشرافیہ سے مایوس ہو کر اپنی تمام اُمیدیں عوام سے وابستہ کر لی تھیں۔ مدرسہء رحیمیہ کی سی درسگاہیں عوام کی دینی اور ملّی غیرت کو پروان چڑھانے میں مصروف تھیں۔ انتظار حسین نے اپنی اِس کتاب کے ایک باب بعنوان ’’گیارہ مئی کے بعد‘‘ میں نئے پرانے تحقیقی مواد کی چھان پھٹک سے سن ستاون کی عوامی بغاوت کو ایک فوری اُبال کی بجائے ایک باقاعدہ سوچی سمجھی تحریک قرار دیا ہے۔ انتظار حسین صرف ظہیر دہلوی کی ’’داستانِ غدر‘‘پر اکتفا کرنے کی بجائے تازہ ترین تحقیقی موادکو کام میں لائے ہیں۔ اِس مواد میں انڈیا آفس لندن کی وہ دستاویزات بھی شامل ہیں جو سلیم الدین قریشی نے بڑی دقتِ نظر کے ساتھ دریافت کیں اور اپنی کتاب ”Cry for Freedom“ میں شائع کیں۔ سر رچرڈ ٹمپل اور لندن ٹائمز کے نامہ نگار رسل کے مشاہدات اِس پر مستزاد ہیں۔ اِس تحقیقی مواد کے تجزیہ و تحسین سے انتظار حسین نے ثابت کیا ہے کہ برطانوی استبداد کے خلاف سن ستاون میں عوامی بغاوت کو آخری مغل تاجدار اور اُس کی معاون اشرافیہ کی بزدلی نے ناکام بنا کر رکھ دیا تھا۔ یوں عالم میں انتخاب شہردہلی کی زندگی جن ہنگاموں سے عبارت تھی وہ موت کی نیند سُلا دیے گئے تھے۔ اِن کے مرنے سے مر گئی دلّی۔ بعد ازاں فرنگیوں نے بصد تامل نئی دلّی بسانے کی ٹھان لی تھی۔ اِس نئی دلّی میں قدیم و جدید کے سائنسی امتزاج سے مسلمانوں کی حیاتِ نو کے اہتمام میں مصروف دِلّی کالج تک کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بنسری۔ نتیجہ یہ کہ مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا محمد حسین آزاد کی سی ہستیوں نے لاہور کا رُخ کیا!
٭٭٭

حواشی
1۔ اجمل اعظم، انتظار حسین، لاہور، 1999ء، صفحہ7۔
2۔ ایضاً، صفحہ9۔
3۔ ایضاً، صفحہ 13۔
4۔ ایضاً، صفحہ 245۔
5۔ ایضاً، صفحات 176۔ 175۔ بحوالہ انڈین مسلمز، از، رام گوپال۔
6۔ ایضاً، صفحہ 256۔
7۔ ایضاً، صفحہ 168۔
8۔ دلی تھا جس کا نام، انتظار حسین، 2003ء، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، صفحات 17۔ 16
9۔ ایضاً، صفحہ 99۔
10۔ ایضاً، صفحات 102۔ 101۔
11۔ ایضاً، صفحات 18، 19۔
12۔ ایضاً، صفحات 84، 85۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments