پوہ، پالا اور پلی


\"\" مہر جیون خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں\”زندگی زہر اور آبگین کا آمیزہ ہی تو ہے، دونوں کا تھوڑا بہت حصہ ہر ذی روح کے مقدر میں ہوتا ہے۔ اہل ثروت کو البتہ شہد اور مفلسوں کو زہر ذرا زیادہ ملتا ہے۔ تنگ دستی ایسی بری بلا ہے کہ یہ اپنے شکار کی جبلی خوبیوں کو گہنا دیتی ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی جسے احساس محرومی دبوچ لے وہ بن کھلے نہ مرجھائے تو کیا کرے۔ نہ بچپن، نہ بانکپن، نہ لڑکپپن، اٹکھیلیاں نہ جوانی والی مستیاں۔۔۔ گردوپیش چھائی ہوئی پرچھائیوں کا ادراک، پل بھر میں لمبی مسافتیں طے کروا دیتا ہے۔ قیامت کا قدم اٹھتا ہے اور وہ ایک دم ادھیڑ عمر میں جا گرتا ہے \”

سردیوں میں والد کے انتقال کے تقریبا ایک سال بعد ہی دادی بھی انتقال کر گئیں۔ سردی، غم اور بے چارگی کا ایک نیا موسم وجود میں آگیا۔ اس کے بعد بھی ہر جاڑا، کوئی نہ کوئی اجاڑا ساتھ لے کر آیا۔  سو سردیوں کا عمومی تصور غمناک سا ہو گیا ہے۔

پلی، مجھ سے چھوٹی بہن کا نام تھا۔  6/5 سال کی اس لڑکی کو معلوم بھی نہیں تھا کہ بے چارگی کے بادل میں وہ کونسی امید کا سورج چمکا تھا کہ میری ماں نے اس کا نام کھیتوں کے دامن میں چنے کے ساتھ اگنے والی جنس سے مستعار لیا تھا۔ ماں بیوگی کی چادر سے گزارے کا کوئی سامان کر رہی تھی کہ پلی کھیلتے کھیلتے چھت سے نیچے گر پڑی۔

ہمیں تو معلوم بھی نہیں تھا مگر میں سکول سے لوٹا تو پتہ چلا کہ پلی گر گئی ہے اور اس کی گردن کا منکا ٹوٹ گیا ہے۔ بچپن کسی بھی واقعے کی شدت سے بالکل ناآشنا ہوا کرتا ہے۔ شام کو اپنی باقی بہنوں کے ساتھ میں بھی پلی کو دیکھنے چلا آیا۔ میو ہسپتال کے ٹھنڈے، خاموش، گریزاں اور نیم تاریک برآمدے کافی خوفناک سے لگے۔ میں نے دور سے پلی کے بے ہوش وجود کو دیکھا اور پھر سے ان برآمدوں میں بسی فینائل کی خوشبو، جالی دار کواڑوں سے پیدا ہوتی آوازوں اور گھٹتے بڑھتے سایوں سے اکیلا کھیلنے میں مشغول ہو گیا۔ رات تھوڑی اور گہری ہوئی تو ہم لوگ واپس آگئے۔ پلی کے ساتھ صرف ماں جی اور میری خالہ ٹھہر گئیں۔ واپسی کے سفر پہ میری بہنیں اس حادثے کی شدت سے خاموش تھیں اور میں ان کی خاموشی کے سبب چپ تھا۔

رات کے کسی پہر، پلی ۔۔۔پوری ہو گئی۔ ہسپتال والوں نے فی الفور مردہ لے جانے کا حکم صادر کر دیا۔ ماں جی اور ماسی کے سوا ۔۔اب ان کے ساتھ کوئی تیسرا نہیں تھا اور حکم حاکم، مرگ مفاجات والا معاملہ تھا۔ لاش کو کندھے پہ اٹھا کر شاہدرہ سے آنے واالی یہ تین عورتیں۔۔اب تین کہانیاں تھیں۔۔ سو برآمدے میں بیٹھ کر سورج نکلنے کا انتظار کرنے لگیں ۔تھوڑی دیر گزری تو وارڈ بوائے نے بھی ان بے توقیر لوگوں کو برآمدے سے بے دخلی کا فیصلہ سنا دیا۔۔۔ ماں جی نے لاش کو کندھے سے لگایا اور ہسپتال کی حدودد سے باہر آ گئیں۔ رات انتہائی تاریک اور سرد تھی۔۔اور انہیں بس اس قدر پتہ تھا کہ شاہدرہ پنڈ کو جانے والی سواری بھاٹی گیٹ سے پہلے کسی صورت میں بھی نہیں ملے گی۔

میو ہسپتال سے پلی کی لاش اٹھا کر بھاٹی گیٹ آتے آتے، ماں جی کے ذہن میں اب پلی کی یادیں نہیں تھیں بلکہ یہ فکر تھی کہ شاید سواری ہی نہ ملے اور یہ اندیشہ کہ اگر سواری مل بھی گئی تو کِیا خبر وہ پلی کے بے جان جسم کو بٹھانے کی اجازت ہی نہ دے۔۔۔ اس وقت مشہور تھا کہ لاش اٹھانے سے گھوڑا سوکھ جاتا ہے۔

دونوں بیوہ بہنیں، پلی کے مردہ جسم کو اٹھائے میو ہسپتال سے لوہاری اور پھر بھاٹی گیٹ پہنچیں۔۔ وہاں شاہدرہ کا ایک رہائشی تانگے والامل گیا۔۔مگر اس نے ایک نئی شرط عاید کر دی کہ میں پھاٹک سے آگے نہیں جاؤں گا۔

ماں جی نے جھوٹ بولا اور لاش کو بیمار بچی کہہ کر بڑی مشکل سے تانگے میں سوار کیا۔ شاہدرہ پھاٹک (جہاں اب سنگیت سینما ہے) پہنچ کر تانگے والے نے جواب دے دیا کہ مزید آگے نہیں جاؤں گا۔۔ لہِذا دونوں بہنوں نے ایک بار پھر، بچی کو اٹھا کر پیدل چلنا شروع کیا۔۔۔کس قیامت کا سفر تھا۔۔ آدھی رات، ٹھنڈ، مقبرہ کی مستقل آسیب زدہ ہمسائیگی، خاموشی۔۔۔ اور اس میں صرف ہوا کی آواز۔۔۔

جنہاں باہجوں اک پل نئیں سی جیوندے

اوہ شکلاں یاد نئیں رہیاں

افضال احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

افضال احمد

افضال احمد گزرے ہوئے کل کے وہ آدمی ہیں جو آج میں زندگی گزارنے کو مجبوری کا لمحہ تصور کرتے ہیں اور آنے والے کل سے خوف زدہ ہیں۔۔ عجیب بات یہ ہے کہ ان کا گزرا ہوا کل بھی کسی آسودگی اور آسائش کا معاملہ نہیں بلکہ رنج اور الم کی واردات ہے۔۔۔لیکن اس سب کے باوجود وہ کل ان کا اپنا ہے۔۔۔صرف اپنا۔

afzaal-ahmad has 4 posts and counting.See all posts by afzaal-ahmad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments