چترال کے مراد کا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کروں؟


تحریر: ریٹائرڈ کرنل اکرام اللہ خان
ترجمہ: نورالھدیٰ یفتالیٰ

18 فروری 2021 کا دن مراد (مرحوم) اور اس کے اہل خانہ کے لئے کرب کے ساتھ ڈوب گیا۔ اس بدقسمت دن، اسلام آباد میں مراد نام کے ایک نوجوان، جس کی عمر تیس سال کے لگ بھگ تھی ، سے ایک خاتون کی کار سے ٹکرائی۔ خاتون کا تعلق ایک سیاسی اثر و رسوخ والے ایک خاندان سے ہے۔ اس نے مراد کے زخمی جسم کو اٹھانے اور اسے قریبی اسپتال لے جانے کی زحمت بھی نہیں کی۔ اس کے بجائے وہ اسی حالت میں مراد کو چھوڑ کر وہاں سے بھاگ گئی۔

اس واقعے کے آدھے گھنٹے کے بعد شدید زخمی مراد کو نجی ایمبولینس میں مقامی اسپتال لے جایا گیا جہاں اس نے بروقت علاج نہ ہونے پر دم توڑ دیا۔ اگر خاتون نے اسے اٹھا لیا ہوتا اور بروقت اور فوری طور پر قریبی اسپتال لے جایا گیا ہوتا تو ممکنہ طور پر اس کی زندگی بچ جاتی۔ واقعہ کی جگہ سے بھاگ کر، اس خاتون نے ایک اور جرم کیا ہے جو پہلے کے مقابلے میں زیادہ گھناؤنا ہے۔ جاں بحق ہونے والے مراد نے اپنے پیچھے ایک بیوی اور چار بچے چھوڑے ہیں۔

مراد کا تعلق ضلع بالائی چترال کی وادی لاسپور میں واقع ایک چھوٹے سے گاؤں بروک سے تھا جو مشہور شندور پاس کے دامن میں واقع ہے۔ وہ اپنے گھر والوں کا واحد سہارا تھا ، اپنے گھر کی تمام کفالت مراد کے ذمے تھی ۔ وہ گزشتہ بیس برسوں سے اسلام آباد میں ایک نجی ادارے میں کام کر رہا تھا۔

مجرم یعنی خاتون جرم کر کے نہایت خاموشی کے ساتھ اپنے گھر چلی گئی۔ تاہم اس کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ اس خاتون نے صرف ایک فرد کو نہیں مارا بلکہ مراد کو مار کر اس نے ایک پورے خاندان کو برباد کر دیا ہے۔ ایک پورے خاندان کو بے سہارا کر دیا ہے۔ لیکن اس سماج میں کون پروا کرتا ہے؟ یہ زمین غریبوں کی نہیں ہے، اس کی اصل مالک ایلیٹ کلاس ہے۔ اشرافیہ طبقے اور غریب کے مابین ابتدا ہی سے ایک جنگ جاری ہے اور یہ ابد تک جاری رہے گی۔

افسوس ہے کہ ایک دہائی سے ہمارے معاشرے کو اس انداز سے تشکیل دیا گیا ہے کہ وہ اشرافیہ طبقے کی نمائندگی کرتا ہے جس میں عام آدمی کے محفوظ رہنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ قانون اعلیٰ اور طاقت وروں کے مفادات کی نگہداشت کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں قانون کی دو اقسام ہیں، ایک طاقت ور لوگوں کے لئے ہے جبکہ دوسرا معاشرے کے نچلے درجے سے آنے والے افراد کے لئے ہے اور خاص طور پر وہ بے رحمی سے غریبوں اور پسماندہ لوگوں پر لاگو ہوتا ہے۔

ایلیٹ کلاس خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے مجرموں کو بھی وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے، ضمانت دی جاتی ہے اور سیاسی پیروکاروں اور سوشل میڈیا آپریٹرز کے بیڑے کے ساتھ سیاسی جلسے منعقد کرنے کی اجازت مل جاتی ہے اور جب انہیں عدالت کے روبرو پیش ہونے کے لئے طلب کیا جاتا ہے تو وہ خود کو اتنا جرأت مند باور کراتے ہیں کہ متعلقہ اداروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں (میں کسی خاص فرد کی طرف اشارہ نہیں کر رہا)۔

طاقتور اور با اثر عناصر کی طرف سے اس نوعیت کا متکبرانہ اور ناگوار سلوک ہمارے معاشرے میں معمول کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جبکہ غریب تعلق رکھنے والے ملزمان کو معمولی جرم کی وجہ سے بھی جیل میں رہنے کے لئے چھوڑ دیا۔ ہمارے معاشرے کے قانونی اور اخلاقی تانے بانے کو اسی طرح برباد کیا گیا ہے۔

افسوس ناک واقعہ جس میں مراد کو مارا گیا ، اس میں وزیراعظم عمران خان سے خصوصی توجہ کا مطالبہ کیا گیا جو  ”ریاست مدینہ“ کے خطوط پر انصاف کے نظام کے ساتھ ایک حقیقی اسلامی ریاست کے قیام کے دعوے کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں۔ یہاں میں معزز وزیراعظم کو اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشہور قول یاد دلانا چاہوں گا کہ: ” اگر ایک کتا دریائے فرات کے کنارے مر جاتا ہے تو، اس کے لئے عمر ذمہ دار ہو گا‘‘۔ ہمارے وزیراعظم جو اکثر اپنی تقریروں میں اس طرح کے اقوال کا حوالہ دیتے ہیں ، توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان اقوال کا عملی مظاہرہ پیش کریں۔ لیکن افسوس کہ مذکورہ واقعے کو ایک ہفتہ گزر گیا ہے لیکن تاحال مجرم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

میں وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان اور وزیر اعلیٰ کے پی کے دونوں سے گزارش کروں گا کہ وہ اس اندوہ ناک واقعے کا نوٹس لیں اور مجرم کی فوری گرفتاری کا حکم دیں اور اسے انصاف کے کٹہرے میں لائیں، وہ اس معاملے کو صرف حادثاتی واقعہ کے طور پر نہ دیکھیں۔

وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے پی کے سے گزارش ہے کہ وہ جاں بحق افراد کے تباہ حال کنبے کی مالی مدد کریں کیونکہ وہاں یتیم بچوں، بیوہ اور بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کرنے کے لئے کوئی نہیں ہے جو اس وقت بے یار و مددگار رہ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments