ڈسکہ کا انتخابی معرکہ اور پی ٹی آئی کو سیاسی دھچکہ


پاکستان کی سیاست میں انتخابی شفافیت ہمیشہ سے ایک اہم اور متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ عمومی طور پر سیاسی جماعتیں انتخابات میں شکست کو قبول کرنے کی بجائے اپنی شکست کو پس پردہ قوتوں کی سازش یا انتخابی دھاندلی سے جوڑ کر اپنا بیانیہ پیش کرتی ہیں۔ اس لیے جب انتخابات کے بعد انتخابی شکست کی بازگشت سننے کو ملتی ہے تو عمومی خیال یہ ہی ہوتا ہے کہ اس سیاسی شور کا کچھ نہیں بنے گا اور انتخابی نظام میں موجود خرابیاں ہمارے انتخابی نظام کو شفاف نہیں بناسکیں گی۔

ڈسکہ این اے 75 کا ضمنی انتخاب دو بڑی سیاسی قوتوں یعنی مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کے درمیان تھا۔ پہلے سے یہ بات واضح تھی کہ یہ مقابلہ نہ صرف سخت ہوگا بلکہ انتخابی مہم میں شدت بھی موجود ہوگی۔ لیکن ڈسکہ کے انتخابی معرکہ اور اسے جڑے نتائج کی صورت میں جو کچھ ہوا اسے ہماری سیاسی بدقسمتی ہی کہا جاسکتا ہے۔

الیکشن کمیشن جس کے بارے میں عمومی رائے یہ ہی ہے کہ وہ ایک خود مختاراور شفاف یا آزاد ادارہ نہیں بلکہ حکمران طبقات کی سیاسی طاقت کا شکار رہتا ہے۔ لیکن اس بار ڈسکہ کے انتخابی معرکہ میں جو انتخابی دھاندلی کا بڑا شوراور پریزاڈنگ افیسرز کے اغوا یا غائب ہونے کی جو خبریں سب نے سنی اس نے پورے انتخابی نظام کو ہی مشکوک بنا دیا۔ اسی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے اس کا بڑا نوٹس لیا۔ الیکشن کمیشن کے پاس تین ہی آپشن تھے۔

اول وہ کہتی کہ انتخابی نظام میں جو بڑی دھاندلی کی شکایت ملی اس کے کوئی شواہد نہیں ملے اور تحریک انصاف کی جیت کا اعلان کیا جاتا۔ دوئم جن بیس پولنگ اسٹیشن کی بنیاد پر انتخابی نتائج کی تبدیلی کی بات کی جا رہی تھی تو اسی بنیاد پر ان بیس پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ ری پول کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ سوئم پورے انتخابی نظام کو مشکوک سمجھا جاتا ہے اور اس بنیاد پر پورے حلقہ میں د وبارہ انتخاب کا اعلان کیاجاتا۔ الیکشن کمیشن تیسرا آپشن اختیار کر کے پورے حلقہ میں دوبارہ 18 مارچ کو انتخاب کروانے کا اعلان کیا ہے۔

اسی طرح ایکشن کمیشن نے ایک قدم آگے بڑھ کر کمشنر، ریجنل پولیس افسر گوجرانولہ کو علاقہ بدر، ڈی سی او، ڈی پی او سیالکوٹ، اسٹنٹ کمشنر سمیت دو دی ایس پیز کو بھی معطل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح انتخابی غفلت کی بنیاد پر چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو بھی چار مارچ کو طلب کیا ہے کہ وہ کمیشن کے سامنے پیش ہوں۔ الیکشن کمیشن کے بقول پریذائیڈنگ افسروں کے خلاف بھی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے بقول ڈسکہ کا الیکشن منصفانہ، ایماندرانہ اور شفاف نہیں تھا اور امن و آمان ناقص، انتخابی نتائج مشکوک، ووٹروں کو آزادانہ ماحول فراہم نہیں کیا گیا۔

یقیناً یہ الیکشن کمیشن کا ایک بڑا فیصلہ ہے اور ماضی میں اس طرح کے فیصلوں کی کوئی بڑی نظیر نہیں ملتی۔ یہ فیصلہ خود الیکشن کمیشن کے لیے مستقبل میں مشکلات بھی پیدا کر سکتا ہے کیونکہ جو ٹرینڈ سیٹ کیا گیا ہے اس کی بنیاد پر ہر انتخاب کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ ہارنے والا امیدوار اسی بنیاد پر اپنے انتخاب کو چیلنج کرسکے گا۔

الیکشن کمیشن کے اس بڑ ے فیصلے سے جہاں مسلم لیگ نون کو بڑا سیاسی ریلیف ملا ہے اور ان کے موقف کو سچ تسلیم کیا گیا ہے یا اسے پذیرائی ملی ہے تو وہیں پی ٹی آئی کو یقینی طور پر الیکشن کمیشن کے پورے حلقہ میں ری پول کروانے پر بڑا سیاسی دھچکے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کیونکہ ان کو لگتا تھا کہ الیکشن کمیشن اگر کوئی بڑا فیصلہ کرے گا تو وہ بیس پولنگ اسٹیشن میں دوبارہ پولنگ تک ہی محدود رہے گا۔ لیکن الیکشن کمیشن نے حکومتی دباو کی بجائے اپنا فیصلہ خود کر کے اپنی خود مختاری کی جھلک پیش کی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون سمیت بہت سے لوگ الیکشن کمیشن کے اس فیصلہ کو بڑی سیاسی جرات کے طور پر دیکھ بھی رہے ہیں اور ان کی پذیرائی بھی کی جا رہی ہے۔ عمومی خیال یہ تھا کہ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو من و عن تسلیم کر کے آگے بڑھے گی۔ لیکن اب تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان کے بقول الیکشن کمیشن نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ سے کیا ریلیف ملتا ہے مگر پی ٹی آئی کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کی انتخابی مہم کے سربراہ عثمان ڈار اور ان کی ٹیم کی نا اہلی کا بھی بڑا سیاسی نقصان پی ٹی آئی اور ان کی حکومت کو ایک بڑی سیاسی سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

الیکشن کمیشن کی خود مختاری، شفافیت اور آزادی ہمیشہ اہم مسئلہ رہا ہے۔ بہت سے لوگوں نے الیکشن کمیشن کے موجودہ فیصلہ کو اس ادارے کی آزادی اور مستقبل میں ایک بڑی تبدیلی یا انقلاب کے طور پر پیش کیا ہے۔ ان کے بقول یہ ملک میں آزادانہ ا ور منصفانہ انتخاب کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ کاش ایسا ہی ہو، لیکن کیونکہ ہمارے ہاں واقعات کی بنیاد پر جذباتیت کو بہت غلبہ حاصل ہوتا ہے تو اس فیصلہ کی روشنی میں بھی جذباتیت نمایاں طور پر دیکھنے کو ملی ہے۔

حالانکہ اسی ایک ماہ میں اٹھ کے قریب ضمنی انتخابات ہوئے ہیں اور ہر جگہ ہارنے والے نے انتخابی نتائج پر الزامات ہی لگائے ہیں۔ اسی طرح الیکشن کمیشن اگر اپنے ہی فیصلوں یا قانون کو بنیاد بنا کر انتخابات کا جائزہ لے تو اس میں بڑی بے ضابطگیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر الیکشن کمیشن کے مطابق کوئی بھی رکن قومی، صوبائی اسمبلی ممبر، وزیر، مشیر، وزیر اعلی، وزیر اعظم کو انتخابی مہم میں براہ راست حصہ نہیں لے سکتا۔

لیکن اسی ڈسکہ کے انتخابی معرکہ میں حکومت اور حزب اختلاف کے ارکان اسمبلی یا وزیر و مشیر وں کی براہ راست انتخابی عمل میں شرکت پر سوائے نوٹس کے الیکشن کمیشن کچھ نہیں کر سکا۔ اسی طرح جس طرح سے سرعام اسلحہ کا استعمال ہوا اور اسلحہ استعمال کرنے والوں کی ویڈیو فوٹیج بھی موجود ہیں، اسی طرح دونوجوان جان کی بازی بھی ہار گئے، لیکن الیکشن کمیشن اس پر کوئی بڑا نوٹس نہیں لے سکا۔ پیسے کے بے دریغ استعمال کا قانون بھی مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ڈسکہ کے فیصلے سے الیکشن کمیشن آزاد ہو گیا ہے تو یہ درست نہیں بلکہ اس آزادی، خود مختاری اور شفافیت کے لیے ابھی بڑی جنگ باقی ہے۔

انتخابات کی شفافیت کی جنگ محض حکومت اور الیکشن کمیشن نے ہی نہیں لڑنی بلکہ اس میں انتخابات کی شفافیت سے جڑے تمام فریقین کو بھی اپنا اپنا کردارا دا کرنا ہوگا۔ سیاسی جماعتیں جو انفرادی سطح پر خود انتخابات کی شفافیت کو قائم کرنے کی بجائے اس میں جائز طور طریقے اختیار کر کے نتائج کو اپنے حق میں کرتی ہیں ان میں بھی بڑی اصلاحات درکار ہیں۔ ہماری بیوروکریسی کا استعمال، پولیس اور مقامی انتظامیہ یا دھونس، دھاندلی، تشدد، ڈر اور خوف کو پیدا کرنا، پیسوں کا آزادانہ استعمال، بڑی طاقتوں کی سیاسی، انتظامی مداخلت اور انتخابی نتائج پر کی جانے والی رٹوں پر برسوں برس فیصلے نہ ہونا جیسے امور شامل ہیں۔

ماضی میں بدقسمتی سے ہمارے یہاں سیاسی محاذ پر انتخابی اصلاحات کی بنیاد پر سیاسی تماشا ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ لیکن یہ ہی فریقین ان ہی انتخابی اصلاحات کا سرعام مذاق بھی آڑاتے رہے ہیں۔ کیونکہ سیاسی سطح پر ہماری قیادت خود شفافیت کے نظام میں ایک بڑی رکاوٹ کے طو رپر اپنا کھیل پیش کرتی ہے۔ جب ہم حزب اختلاف میں ہوتے ہیں تو ہم کو شفافیت کے سیاسی مڑور بہت اٹھتے ہیں، لیکن جیسے ہی ہم اقتدار کی سیاست کا حصہ بن جاتے ہیں تو وہی غلطیوں کو دہراتے ہیں جو ماضی کی بدنما سیاست کاحصہ ہوتے ہیں۔

اس لیے محض انتظامی، قانونی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ ہمیں سیاسی سطح پر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان بھی انتخابی نظام کی شفافیت کے لیے ایک بڑی سیاسی سرجری درکار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments