پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے!


\"\"بے نظیر بھٹو۔ دنیا کی سب سے کم عمر خاتون وزیرِاعظم۔ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم۔۔۔ ایک خوش گفتار، خوش لباس، باشعور، تعلیم یافتہ خاتون ۔۔۔ جنہیں صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پرایک ایسا لیڈر مانا جاتا تھا جو واقعی اس خطے کی سیاست میں اہم کردار ادا کر سکتا ہو۔ جسے اپنے عہد کے بحرانوں کا نہ صرف ادراک ہو بلکہ ان مسائل سے نبردآزما ہونے کا وژن بھی ہو۔ جن کی حیثیت مغربی دنیا اور عالمِ اسلام کے مابین ایک پل کی سی تھی۔ جنہوں نے ہر مسئلے کا حل سب سے پہلے ڈائیلاگ سے اخذ کرنے کی کوشش کی۔ جسے دہشتگردی کا عفریت 2007 کے جاتے دسمبر میں ہم سے چھین کر لے گیا۔۔۔۔

تجھ کو کس  پھول کا کفن ہم دیں

تو جدا ایسے موسموں میں ہوئی

جب درختوں کے ہاتھ خالی تھے۔۔۔

یہ خطے کے مسائل کا ادراک ہی تھا جس کا تجزئیہ بی بی نے اپنی کتاب میں کیا، لکھتی ہیں:\"\"

’’انتہا پسندی، عسکریت پسندی، دہشتگردی اور آمریت ایک دوسرے کا پیٹ بھرتے ہیں اور یہ چاروں عوامل غربت، مایوسی اور عدم مساوات کے ماحول میں پھولتے پھلتے ہیں۔ ان چاروں عوامل کا مایوسی اور غربت سے باہم مربوط تعلق عالمی امن اور قومی استحکام کے لئے واضح خطرہ ہے۔ اس زنجیر کو صرف معاشی اور علمی ترقی کے ذریعے ہی توڑا جا سکتا ہے۔ اس کا براہِ راست طریقہ یہ ہو گا کہ خلیجی ریاستیں باقی دنیائے اسلام کی معاشی اور علمی ترقی کو’’جمپ اسٹارٹ‘‘ کریں۔ بہ الفاظِ دیگر ’’تیل‘‘ غربت، مایوسی، آمریت اور انتہاپسندی کی زنجیر توڑ سکتا ہے، جو اکثر پھیل کربین الاقوامی دہشت گردی کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔‘‘

بے نظیر بھٹو کا شمار بلاشبہ ان خوش قسمت بچوں میں ہوتا ہے جن کو باپ کی وراثت میں سے سبھی کچھ ملا۔ دولت، ذہانت، سیاسی بصیرت، فہم، قائدانہ صلاحیت اور ’’شہادت‘‘۔۔۔۔۔

ان کی شخصیت میں انکی تربیت اور اعلیٰ تعلیم نے مزید نکھار پیدا کیا۔ گھر اور دوستوں میں پنکی کے نام سے پکاری جانے والی یہ بچی بہت چھوٹی عمر میں ایک مسلمان خاتون لیڈر کے طور پر ابھری۔ جس نے اپنی مختصر مگر پُراثر زندگی میں قیدوبند کی صعوبتیں، جلاوطنی، سیاست کے اتارچڑھاو اور زندگی کے بےشمار تغیرات دیکھے۔

1977 کے مارشل لاء کے بعد ماں کی سرپرستی میں نظربندی جھیلتے ہوئے جمہوریت کے استحکام کے لئےاسی عزم و استقلال کے ساتھ تحریک چلاتی رہی جو شاید گھٹی میں پڑا تھا۔\"\"

1984 سے 1988 تک کا عرصہ جلاوطنی میں لندن میں گزارا اور وہاں بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں جای رکھیں۔ در حقیقت یہ جلاوطنی ہی تھی جس نے بی بی کے اندر کے لیڈر کو جِلا بخشی اور انکی قائدانہ صلاحیتوں کو مزید نکھارا۔

1985 میں یورپین پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کے دوران پاکستان میں آمریت کے نتیجے میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھائی. 1988 میں پاکستان واپسی، عوام کا شاندار استقبال، دو مرتبہ وزیراعظم بننا، اسٹیبلشمنٹ کا گھیرا تنگ کرنا، ملک سے باہر چلے جانا، 2006 میں میثاقِ جمہوریت جیسا تاریخی معاہدہ (جسے آج کل کے سیاسی بصیرت سے محروم لیڈر جمہوری مک مکاء کا نام دیتے ہیں) اور پھر 2007 میں بےیقینی سے بھرپور فضا میں وطن واپسی۔۔ ایک بار پھر تاریخی استقبال مگراستقبالی قافلے پر بم دھماکہ اور انتہا کو چھوتی ہوئی دہشت گردی کی فضا بھی اس کے ارادے کو متزلزل نہ کر سکے۔ اور پھر 27 دسمبر 2007 لیاقت باغ کا وہ تاریخی جلسہ۔ ایک بھرپور کامیاب جلسے کے بعد واپس لوٹتے لوٹتے گاڑی سے نکل کر کارکنوں کے جوشیلے نعروں کا جواب دیتے دیتے لقمئہ اجل بن جانا….مجھے آج بھی وہ برفیلی دسمبر کی شام یاد ہے اس بری خبر کو سن کرمجھے ایسا لگا تھا جیسے میرا دل ڈوب رہا ہو۔ بی بی کا حق کے لئے بہادری سے آواز اٹھانا دوسروں کے لئے امید کی ایک ایسی کرن کی مانند تھا جو جینے کی نوید سناتی ہو۔\"\"

بے نظیر بھٹو جدوجہد سے بھرپور ورثہ چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہویئں۔ ان کی جدوجہد رہتی دنیا تک مسلم دنیا کی خواتین کے لئے فتح کا استعارہ ہے۔ انتہا پسندی کے خلاف ان کا دوٹوک نظریہ طبلِ جنگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جمہوریت کے استحکام کے لئے ان کی قربانیاں اور جدوجہد ایسی دیرپا میراث ہے جس کا احترام ان کے مخالفین کے دل میں بھی پایا جاتا ہے۔ ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے پاکستان بھر میں مختلف سرکاری عمارتوں کو ان کے نام سے منسوب کیا گیا ہے اس کے علاوہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مختلف درس گاہوں میں شعبہ جات کو ان کے نام سے منسوب کیا جانا ایک بڑا اعزاز ہے۔ پاکستان کی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی ان کی بہت بڑی مداح ہیں اور ان کے نقشِ قدم پر چل کے ملک کو ترقی سے ہمکنار کرنے کا عزم رکھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments