پاکستانی ہندوؤں کی دل آزاری کرنے والا اسلامک اسکالر



ایک اسکالر ہیں اور وہ بھی اسلامک، ڈاکٹر اور اینکر بھی بہت بڑے ہیں، کمال قسم کے آدمی ہیں،ٹی وی اسکرین پر وہ تحفے بانٹتے ہیں بلکہ صرف بانٹتے نہیں پھینکتے بھی ہیں، آم بھی کھلاتے ہیں، غالب فلم بھی دیکھتے ہیں، بہت بڑی پارٹی کے بہت بڑے ایم این اے ہیں، بھئی کمال کے ٹرول ہیں، ایسی پوسٹ کرتے ہیں کہ بڑوں بڑوں کی جل بھن جاتی ہے، بلکہ ایک پوسٹ سے لاکھوں لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا ٹیلنٹ بھی رکھتے ہیں۔ مگر وہ اخلاق سے عاری ہیں اور احساس سے خالی ہیں۔

موصوف انتہائی ٹیلنٹڈ ہیں اور اتنے ٹیلنڈ ہیں کہ لاکھوں، کروڑوں لوگوں کا ایک تصویر سے دل دکھا دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں حضرت نے ایک سیاسی خاتون رہنما کو ٹرول کرنے کے لئے ایک تصویر کا سہارا لیا جو ایک ہندو دیوی کی تصویر تھی۔ تصویر تو پوسٹ ہو گئی، وائرل ہو گئی، انجان لوگوں نے اس کو مذاق سمجھا اور اس جگت پر واہ واہ کی مگر اس پوسٹ سے لاکھوں پاکستانی ہندوؤں کی دل آزاری ہوئی، بات بڑھی اور جب بڑے دل اور زندہ ضمیر رکھنے والوں نے اس حرکت پر آواز اٹھائی تو ڈاکٹر صاحب نے ایک پوسٹ کے ذریعے یہ فرمایا کہ ارے جناب مجھ سے غلطی ہوئی ہے ، دل آزاری پر معذرت کرتا ہوں اور فقط یہ دو بے روح روایتی سطریں لکھ کر ڈاکٹر صاحب خود بخود بری الذمہ قرار پائے۔

سوال پیدا یہ ہوتا ہے اگر اس قسم کی دل آزاری کسی دوسرے مذہبی گروہ کے کسی فرد سے کی ہوتی تو کیا اس کو دو سطریں لکھنے پر معاف کر دیا جاتا؟ کیا ہم جیسے پکے مسلمان اس جسارت پر کسی کو معاف کرتے یا پھر۔۔۔۔! ہندو دیوی تو جانے دیجیے اگر کوئی مذہبی گروہ کسی دوسرے گروہ کے مولوی کے بارے میں کچھ کہہ دے تو کیا وہ برداشت کیا جائے گا؟ دیوی چھوڑیے، مولوی مفتی چھوڑیے، کسی مخالف گروہ کے بندے کو چھوڑیے ہم تو اپنے سیاسی لیڈرز کے اس قدر عاشق ہیں کہ اگر کوئی ہمارے لیڈر کو ایسا ویسا بولے تو ہم زبان کھینچنے کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن کیا یہ والی آزادی یا یہ والی رعایت صرف اکثریتی گروہ کو ہی حاصل ہے۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہندو کمیونٹی لاکھوں کی تعداد میں آباد ہے ، اسی ملک پاکستانی کی نیشنل اسمبلی کا ایک ایم این اے بغیر سوچے سمجھے لاکھوں محب وطن پاکستانیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے اور پھر مذمت پر بڑی ڈھٹائی سے دو لفظی معذرت کر لیتا ہے۔ یہ حرکت کوئی گلی کا لڑکا کرتا تو سمجھ آتا کہ ناسمجھ ہو گا جو یہ غلطی کی۔ مگر یہ حرکت کرنے والا اسلامک اسکالر بھی کہلاتا ہے ۔ اسی اسلام میں دوسرے مذاہب کے احترام کا درس دیا گیا ہے ، لیکن حیرت کی بات ہے کہ اسلامک اسکالر کی پرنور آنکھیں یہ درس پڑھ نہ پائیں۔

موصوف سیاسی مخالف خاتون کا مذاق اڑاتے اڑاتے کتنے انسانوں کے دل دکھا گئے ، لیکن ان کو پھر بھی احساس نہ ہوا، ہاں البتہ جب دباؤ بڑھا تو سوری لکھ ڈالا۔ عجب انداز شرمندگی ہے جو دباؤ میں ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی وقتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کو اب تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ مذاق الگ چیز ہے اور دل آزاری الگ چیز۔ ادھر ہمارا یہ حال ہے تو اگر بھارت میں کوئی ہندو مسلمانوں کے عقیدے کے خلاف کوئی بات کرے گا تو ہم کس منہ سے اس کی مذمت کریں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments