کومالا: کرد عسکریت پسند تنظیم، وطن سے ملک بدر ایرانی نوجوانوں کی عسکری تربیت کیسے کرتی ہے؟


Female Komala recruits train in the mountains of Iraqi Kurdistan

کومالا کی خاتون جنگجوؤں کو تربیت دی جا رہی ہے

ہر سال تقریباً ایک سو سے زیادہ ایرانی کرد ایران کی سرحد کے پہاڑوں کو عبور کر کے عراقی کردستان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں کچھ کی عمر پندرہ سال تک ہوتی ہے۔ ان کا مقصد کومالا میں شمولیت اختیار کرنا ہوتا ہے جو کہ ایک ایرانی کردش شدت پسند تنظیم ہے جس کا تربیتی مرکز عراقی کردستان کے علاقے میں سو کلومیٹر اندر جا کر بنا ہوا ہے۔

اس سفر میں انھیں بارودی سرنگوں، سرحدی گارڈز، اور پہاڑوں پر بیٹھے نشانہ بازوں سے بچ کر نکلنا ہوتا ہے۔ اور اگر وہ اس قدر بدقسمت ہوں کہ ایرانی حکام کے ہاتھ آ جائیں تو قید اور تفتیش یقینی ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سزائے موت کا بھی امکان ہوتا ہے۔

اس سفر میں ان کا ساتھ کومالا کے ایران میں کام کر رہے خفیہ اراکین دیتے ہیں۔ نوجوان کردوں کا خواب یہی ہوتا ہے کہ وہ کومالا پیشمرگا میں داخل ہو جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

کرد آزادی چھوڑ دیں یا پھر بھوکے رہیں: اردوغان

ایران: انقلاب کے بعد اور اب

کرکوک: عراق اور کرد افواج میں شدید جھڑپیں

کرد ریفرنڈم میں داؤ پر کیا لگا ہے؟

تربیتی کیمپ میں وہ عمل سے گزرتے ہیں جسے کہا جاتا ہے فارمیٹنگ جس میں انٹرویوز کیے جاتے ہیں اور باریکی سے نگرانی کی جاتی ہے تاکہ ممکنہ ایرانی جاسوسوں کو روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ ان کا مقصد اس بات کو جانچنا ہے کہ ان نئے اراکین میں وہ صلاحیتیں ہیں کہ وہ پیشمرگا کے لیے درکار ذہنی اور جسمانی دباؤ برداشت کر سکیں۔

Komala leader Hemin trains new recruits

کومالا نے بی بی سی کو سال پر محیط اس عمل تک خصوصی رسائی دی جس میں فارمیٹنگ سے لے کر ان کا فارغ تحصیل ہونا شامل ہے جس میں ان نوجوانوں کو موثر سیاسی کارندوں اور پیشمرگا جنگجؤوں میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلسے میں بی بی سی نے ایک دسستاویزی فلم تیار کی ہے جس کے لیے ہمیں پیشمرگا کے اڈے پر گھومنے پھرنے، فلسمازی کرنے، اور کسی سے بھی بات کرنے کی مکمل آزادی دی گئی۔

اس دستاویزی فلم کا محور چار نوجوان اراکین ہیں جن میں دو مرد اور دو خواتین ہیں۔ اس فلم میں ان پر دباؤ، اور اپنے گھر والوں سے اتنا دور رہنے کی مشکلات کو جانچا گیا ہے۔

1970 کی دہائی میں بائیں بازو کی تحریک کے طور پر ابھرنے والی پیشمرگا نے شاہ کے خلاف بغاوت میں شرکت کی تھی مگر بعد میں انھیں آیت اللہ خومینی نے ملک بدر کر دیا تھا۔ انھوں نے اس تنظیم کے خلاف قتویٰ دے دیا تھا اور اس کے اراکین کو انقلابِ ایران کے مخالفین قرار دے دیا تھا جو کہ اسلام کی ترقی کو روک رہے تھے۔

یہ تنظیم اب ایرانی کردش برادری کے حقوق کے لیے متحرک ہے۔ ایران کے شمال مغربی علاقے میں کرد برادری بہت عرصے سے بستی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے مارکسسٹ عقائد چھوڑ دیے ہیں اور اب یہ جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب وہ سکیولر پلورلسٹ ایران چاہتے ہیں جہاں تمام شہریوں کے حقوق کا تحفظ ہو۔

تاہم کومالا کے اراکین فوجی یونی فارم پہنتے ہیں اور ہیتھاروں سے لیس ہوتے ہیں۔ ان کے لیڈر کا کہنا ہے کہ ہتھیار اور عسکری تربیت صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔

عراقی کردستان میں اپنے اڈے سے کام کر رہی یہ تنظیم اکثر ایران میں اپنے اراکین کو بھیجتے ہیں تاکہ تنظیم کے لیے ایران کے اندر حمایت برقرار رہے۔

یہ ایران میں بھی ایک خفیہ نیٹ ورک چلاتی ہے جو کہ ایک دم چھوٹے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے کر دیتے ہیں تاکہ حکومت مخالفین کی حوصلے افزائی ہو سکے۔

ایرانی حکام کے مطابق کومالا ایک دہشتگرد تنظیم ہے اور وقتاً فوقتاً وہ عراق میں ان کے اڈوں کو رکٹوں سے نشانہ بناتے ہیں۔

Komala member Ajin reads a poem at their base in Iraqi Kurdistan

بی بی سی کی دستاویزی فلم میں کومالا کے نوجوان اراکین بتاتے ہیں کہ ایران میں کردش برادری کی سیاسی اور معاشرتی دباؤ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

’سکولوں میں کردش زبان نہیں پڑھائی جاتی اور نوجوان کردوں کے خیال میں نوکریوں اور تعلیمی مواقع میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ایران میں خواتین کو محدود مواقع دیے جاتے ہیں جبکہ کرد برادری خواتین کے ساتھ مساوی سلوک رکھتی ہے۔

یہ خدشات اور مبینہ ناانصافیوں کو درست کرنے کی خواہش ہی ہے جو ان نوجوانوں کو وہ قربانیاں دینے پر راضی کرتی ہیں جن کا پیشمرگا ان سے مطالبہ کرتی ہے۔

پیشمرگا کا رکن بنانا کوئی آسان کام نہیں۔ فارمیٹنگ کے مرحلے کے بعد نوجوانوں کو انتہائی مشکل عسکری تربیت سے گزرنا پڑتا ہے اور 24 گھنٹوں میں اپنے حصے کی گارڈ ڈئوٹی بھی کرنی پڑتی ہے۔

اور یہ مرحلے نفساتی طور پر بھی کافی کھٹن ہوتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کبھی اپنے خاندان والوں سے دور نہیں رہے ہیں اور انھیں تربیت کے پہلے تین ماہ تک اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے کی بھی کوئی اجازت نہیں ہوتی۔

ان میں سے سارے کامیاب نہیں ہوتے۔ ان میں سے کچھ چھوڑ کر یورپ کا رخ کر لیتے ہیں، کچھ واپس لوٹ جاتے ہیں۔ مگر جو رہ جاتے ہیں اور پیشمرگا کے رکن بنتے ہیں، انھیں امید ہوتی ہے کہ کومالا آخر میں کامیاب رہے گی۔

ایرانی حکومت نے بی بی سی کی جانب سے اپنا موقف دینے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32543 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp