گاجر اور چھڑی کی حکومتی پالیسی


سینیٹ انتخابات تقاضا کرتے ہیں کہ انتخابی اصلاحات پر توجہ دی جائے۔ پارلیمان کے لئے تمام جماعتوں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ پارلیمنٹ کو سپریم ادارہ بنانے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ سب سے پہلے تو سیاسی جماعتوں میں شخصیت پرستی کے عنصر کے وجہ سے فرد واحد کے فیصلے کو تسلیم کرنے کی روش کو اب ختم ہونا چاہیے۔ جمہوریت پسندوں کو حقیقی نظام لانے کے لئے ابتدائی تیاریوں کی گہری معنویت کو سمجھنا ہو گا، حزب اختلاف اپنے مطالبات تسلیم کرانے، یا حکومت کا اپنی ضد پر اڑ جانا اب ایک حساس معاملہ بن چکا۔

دونوں فریقوں کو پنجاب میں سینیٹ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی طرح ملک کے وسیع تر مفاد میں ان غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے، جس کی وجہ سے عوامی مسائل کا پائیدار حل نہیں نکل سکا۔ یہی وقت ہے کہ ہمارے حکمران اب کمال تدبر سے عوام و حزب اختلاف کو تبدیل شدہ حقائق سے آگاہ کریں۔

پنجاب میں جب سینیٹ سیٹ کے لئے بدترین سیاسی مخالفین اپنے بیاینے سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں اور علاقائی صورتحال کا ادراک کیا جاسکتا ہے تو ملکی منظر نامہ اس امر کا متقاضی بھی ہے کہ اندیشوں، مفروضوں، توقعات اور پیدا شدہ الجھنوں کو ختم کرنے میں مزید مثبت پیش رفت کی جائے ، حزب اقتدار و اختلاف ملکی استحکام کو بنیادی حقائق سے مشروط رکھتے ہوئے پاکستان کی سلامتی اور قومی مختاری کو یقینی بنانے کی کوشش میں پہل کریں۔

خوش کن بات یہ کہ سیاست میں حقیقی معنوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا، ہر جماعت کو اپنے سیاسی بیاینے کے ساتھ ملک و قوم کو درپیش خطرات، داخلی تبدیلیوں اور جمہوری انتخابات کے نتائج، دیگر ملکی مسائل اور عصری حقائق کے حوالے سے سمجھنا ہو گا کہ درپیش حالات و مضمرات ایک چیلنج سے کم نہیں، مسائل پہاڑ کی طرح کھڑے ہیں، اداروں کی بے توقیری، امن و امان کو مستحکم بنانے اور سیاسی معاملات میں شکست و ریخت ایسے مسائل ہیں، جن کو حل کرنے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر حکومت کو عوام کی بھی حمایت اور مدد درکار ہو گی، عوام کو درپیش خدشات اور تحفظات سے قطع نظر تمام سیاسی جماعتوں کو فیصلہ کن اور دو ٹوک انداز میں قومی امنگوں کی عکاسی کرنا ہو گی۔

سینیٹ انتخابات کے بعد ملکی صورتحال میں خوش گوار مائنڈ سیٹ کی بھی ضرورت ہے اور سیاسی جماعتوں کو برداشت کے کلچر کو فروغ دینا ہو گا۔ جمہوریت پسندوں کو مایوس اس صورت میں ہونا چاہیے جب بحران سے نکلنے کی کوئی راہ نہ ہو ۔خدشات کے خاتمے کے لئے جتنی سودمند کوششیں دور حاضرہ میں کی جا سکتی ہیں، وہ کسی نظام (اسلام کے علاوہ) میں نہیں۔

عالمی بدامنی، کورونا وبا، ملکی معاشی مسائل اور اقتصادی بحرانوں سے ایک ایسی با اختیار اور عوامی حکومت ہی صحیح معنوں میں نبردآزما ہو سکتی ہے جسے عصری حقائق کا گہرا ادراک ہو، جو تاریخ اور شعور سے سبق حاصل کرے۔ جسے فری ہینڈ ملا ہو، جو کسی ڈکٹیشن کی محتاج نہ ہو، جس کی پشت پر بالادست ادارے ہوں، ایسی حکومت اور ایسا ریاستی نظام عوام کے مشکلات کو حل کرنے کی اہل کہلایا جاتا ہے، اگر تمام ادارے ایک صفحے پر ہونے کے باوجود اصلاحات نہ لا سکیں تو پھر اپنے گریبانوں میں جھانکنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔

سینیٹ انتخابات کے بعد حکومت کو زیادہ تدبر و زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے پرجوش انداز میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے، کسی بھی جانب سے، کسی بھی ادارے یا سیاسی جماعت کے خلاف دباؤ کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا ۔ وطن عزیز کو بدترین دہشت گردی کا ایسا سامنا رہا جو کبھی اس قوم کا مقدر نہیں بنی تھی، سرحدی علاقوں میں نہتے عوام اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی وارداتیں ظاہر کرتی ہیں کہ مملکت کو مزید محفوظ بنانے کے لئے اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

جمہوریت کو کسی نہ کسی جواز کو وجہ بنا کر مصلوب کیا جاتا رہا ہے، عدلیہ کی آزادی سمیت سیاسی جماعتوں کو دیوار سے لگانے کی روش سے سب آگاہ ہیں، داخلی خلفشار، دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بے سمت جنگ کو ختم کرنے کی خواہش عوام کو مایوس نہیں ہونے دیتی۔ حالات کے جبر سے تنگ آنے کے بجائے عوام نظام کی حقیقی تبدیلی کی پہلی اینٹ رکھنے کے متمنی اب بھی ہیں۔ اب ملک کی مین سٹریم جماعتوں کی اخلاقی، آئینی اور قانونی ذمہ داری اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ ملک وقوم کی کشتی کو بحرانوں سے نکال کر دم لیں، نان ایشوز پر سیاسی چاند ماری ختم کریں۔

قوم غربت اور مہنگائی کا دو طرفہ عذاب بھگت رہی ہے۔ جو لوگ قومی خزانے اور مضبوط معیشت دینے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے، اب بھی اپنی جعل سازیوں پر نادم نہیں۔ چنانچہ وقت ہے کہ دلیرانہ فیصلے کیے جائیں، فروعی مفادات کو ایک جانب رکھ دیا جائے، یہ فیصلے کسی بند کمرے میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ میں ہونے چاہیں، کسی دباؤ میں آنے کی ضرورت نہیں، بلکہ ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ قوم کی تقدیر کے فیصلے پارلیمنٹ میں تمام سیاسی اسٹیک ہولڈر سے مشاورت کے ساتھ کیے جائیں۔

سینیٹ انتخابات بالخصوص پنجاب میں بلامقابلہ تمام امیدواروں کی کامیابی نئے زمینی حقائق کا اظہار ہے، ملک میں جمہوری قوتوں کو نظر انداز کر کے غیر جمہوری قوتوں کی حمایت کا تجربہ کبھی کامیاب نہیں رہا، بلکہ اس سے بدگمانی اور نفرت میں بے حد اضافہ ہوا۔ خطے کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں اب یہ ممکن نہیں کہ امن پسندی اور عالمی امن کے قیام کی امکانی کوششوں میں خود اپنے ملک کو کسی نئے میدان جنگ میں داخل کر دیں۔

حقیقت پسندی کا ثبوت دینا ہو گا، حکومت اشتراک عمل میں اخلاص نیت سے آگے بڑھے، اس کی گاجر اور چھڑی کی پالیسی زمین بوس ہو چکی ہے، اس تناظر میں سینیٹ انتخابات کا جو فیصلہ بھی آیا ہے، اس کے بعد آئینی و انتخابی اصلاحات کے لئے تمام جماعتیں ایک دوسرے سے ہر ممکن تعاون کریں۔ حزب اختلاف کو اب یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ سینیٹ انتخابات کے بعد ان کے جمہوری فرائض میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ حکمراں جماعت کو بھی اپنی پوزیشن پر غور کرنے کی ضرورت ہے، وزیراعظم کے ساتھ کوئی ناتجربہ ٹیم نہیں کہ وہ مسائل و اس کے حل سے واقف نہ ہو، بس ضرورت اس امر کی ہے وہ فیصلہ کیا جائے جو سب کے حق میں بہتر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments