عمران خان کا فیصلہ دانشمندانہ ہے یا عاجلانہ؟


عمران خان نے بروز جمعرات 4 فروری 2021 شام 6 بجکر 45 منٹ ہر ٹی وی ناظرین سے خطاب کیا۔ ویسے تو ان کے خطاب سے قبل جو اعلان ہوا تھا ، اس کے مطابق انھیں ٹی وی ناظرین سے نہیں، قوم سے خطاب کرنا تھا لیکن ممکن ہے کہ قوم کو مخاطب کرنے کا ان کا ارادہ یا تو اچانک بدل گیا ہو یا ارادے بدل دینے والوں نے بدل دیا ہو۔

جب کوئی حکمران قوم سے خطاب کرتا ہے تو اس کے آداب کافی مختلف ہوا کرتے ہیں، قومی ترانے اول و آخر بجائے جاتے ہیں، خطاب سے قبل تلاوت کی جاتی ہے، ترجمہ سنایا جاتا ہے اور جو تقریر ہوتی ہے اس میں قوم کے لئے مسائل اور ان کے حل کے لئے منصوبہ بندیوں کا ذکر کیا جاتا ہے ، لیکن آج کے خطاب میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا بلکہ ان کے خطاب کا انداز ماضی کے چوہدری نثار کا سا تھا کہ وہ جب بھی کوئی پریس کانفرنس کرتے، یوں لگتا جیسے محلے کی کوئی خاتون گھر گھر جا کر ہمیشہ اپنی بہو بیٹیوں کی برائیاں کرتی رہتی ہو اور ایسی مظلومانہ زندگی گزار رہی ہو جس کے بڑھاپے کے سارے سہارے چھین لئے گئے ہوں اور جوان اولاد اس کا بڑھاپا خراب کرنے کے درپے ہو۔

جس انداز کا عمران خان کا خطاب تھا وہ انداز ان کی پریس کانفرنسوں سے ذرہ برابر بھی محتلف نہیں تھا بلکہ ان کے خطاب کا ایک ایک لفظ نشر مکرر ہی لگتا تھا ، اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ 126 دنوں کے دھرنے اور پھر 33 مہینوں کے اقتدار میں بھی انہیں  ایسا سکون میسر نہ آ سکا کہ وہ اپنے اسلوب بیان میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی لا سکیں۔

میں اپنے پورے یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ آج کے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے کوئی ایک بات بھی ایسی بیان نہیں کی جو سچائی سے خالی ہو۔ وہ درست فرماتے ہیں کہ سینیٹ کے انتخابات میں بھاری پیمانے پر پیسہ چلتا ہے۔ یہ کہنا بھی درست ہے کہ ایسا 40 سال سے ہوتا چلا آیا ہے۔ یہ بھی درست کہ ان کے مخالفین نے پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلیوں کو خریدا۔ یہ بھی درست کہ کہ ایسے ضمیر فروش (بقول ان کے ) ایک دو نہیں، قومی اسمبلی کے 16 ممبران ہیں۔

ان کا یہ دعویٰ بھی یقیناً درست ہو گا کہ وہ خریدنے اور بکنے والوں سے واقف ہیں۔ ان کا ساتھ الیکشن کمیشن نے بھی نہیں دیا اور کوئی ایسا بار کوڈ بھی لگانے کے لئے تیار نہیں ہوا جس سے ضمیر فروشوں کا پتہ لگایا جا سکے۔ ان کی یہ بات بھی کیسے غلط ہو سکتی ہے کہ وہ کافی عرصے سے ایسا کیے جانے کی نشاندہی کرتے چلے آئے ہیں۔ یہ بھی درست کہ وہ دوران مقدمہ بہت ساری ویڈیوز بھی بطور ثبوت پیش کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی صحیح کہ وہ اس قسم کی ہر روایت کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے تھے اور یہ بھی غلط نہیں کہ وہ ان ساری وجوہات کی وجہ سے چاہتے تھے کہ خفیہ رائے شماری کی بجائے کھلی رائے دی جائے۔

یہ ساری باتیں اپنی جگہ 100 فیصد درست سہی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنے اب تک کے عرصہ اقتدار میں کسی بھی قسم کی پیش رفت کیوں نہ کر سکے۔ ان سارے افراد کو، جو ماضی میں یا حال میں ووٹوں کی خرید و فروخت میں ملوث رہے ہیں، ان کو قرار واقعی سزا کیوں نہ دلوا سکے۔ اپنے رویے میں مفاہمانہ انداز اختیار کر کے ایسی فضاء کیوں نہ بنا سکے کہ کسی بھی قانون میں ترمیم کے لئے دو تہائی کی حمایت حاصل کر سکیں۔

ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر پیسوں کا لالچ دے کر ان کے ارکان اسمبلی کے ضمیر خریدے گئے تو کیا وہ ارکان اسمبلی پی ٹی آئی کے نہیں تھے؟ جہاں خریدنے والوں کا جرم ناقابل معافی ہے وہیں بک جانے والے بھی اتنے ہی قابل تعزیر نہیں۔ ایک ایسی پارٹی جس کا مشن ہی کرپشن کی ہر قسم کو ختم کرنا تھا، اس کے ممبران کا چند سکوں کی خاطر بک جانا کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ کالی بھیڑیں خود ان ہی کے ریوڑ کے اندر پائی جاتی ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ سینیٹ میں حفیظ شیخ کی ہار نے عمران خان کو اس بری طرح ہلا کر رکھ دیا کہ وہ خود ہی اپنی حمایت یا مخالفت کے لئے ووٹ لینے کو تیار ہو گئے اور یہ بھول گئے کہ اگر حفیظ شیخ کو 5 ووٹ کم ملے ہیں تو پی ٹی آئی کی خاتون کو اپوزیشن کی خاتون سے 14 ووٹ زیادہ حاصل ہوئے ہیں۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ مخالفت وزیراعظم یا پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ حفیظ شیخ سے رہی ہو۔ اگر ممبران قومی اسمبلی پی ٹی آئی سے برگشتہ ہوتے تو پھر نون لیگ کی خاتون نشست پر بھی لازماً پی ٹی آئی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا۔

سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے اعتماد کے لئے اوپن رائے دہی ہو گی۔ اب پورا منظر یا تو 180 چہروں کا  ”صاحب“ کے حق میں ہاتھ بلند کیے کھڑے ہونے والوں کا ہوگا یا بات 164 تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گی۔ اگر بلند ہاتھ صاحب کے حق میں 180 ہوئے تو کیا وزیر اعظم کے لئے 16 ”ضمیر فروشوں“ کی حمایت جائز سمجھی جائے گی؟ بات 164 تک ہی محدود ہو کر رہ گئی تو کیا رہی سہی عزت خاک میں نہیں مل جائے گی؟ ہر دو صورت میں اعتماد کے ووٹ کے لئے صاحب کا پیش ہونا سوائے ”عزت افزائی“ کے اور کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ اس وقت تک انتظار کر لیا جاتا کہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن کی جانب سے سامنے آتی اور اس دوران اتنا وقت مل جاتا کہ معاملات درست کر لئے جاتے۔

بہر حال اب تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے ، اس لئے ہفتے کے دن تک کا انتظار ہی کیا جا سکتا ہے لیکن یہ طے ہے کہ از خود اعتماد کا ووٹ لینے کا موجودہ فیصلہ عاجلانہ اور غیر دانش مندانہ سا لگتا ہے۔ دیکھیں ہفتے کا دن کیا خبریں لے کر آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments