خواہشات وبال جان


کیا کبھی ہم نے سوچا کہ ہماری معاشرتی زندگی اتنی پیچیدہ کیوں ہوتی جا رہی ہے۔ کبھی ہم نے غور کیا کہ آخر روز بروز ہم تنگ دست اور اللہ پاک کی فراخ زمین ہمارے لیے کیسے تنگ ہو رہی ہے۔ گندم سے لے کر ضروریات زندگی کی ہر چیز آخر ہماری پہنچ میں کیوں نہیں رہی۔

ہمارے معمولات زندگی میں چیزوں کی ضرورت سے زیادہ کھپت ہماری مناسب زندگی میں بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ اسی لیے مارکیٹوں میں سستی سے سستی اشیاء اس قدر مہنگی ہیں کہ خریدار لینے کے لیے سوچ ہی نہیں سکتا۔

ہم خود ہی برانڈ کو پروموٹ کرتے ہیں اور پھر ہم ہی اسے مہنگے داموں خریدتے ہیں۔ ایسے حالات میں عوام بے بسی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں اور پھر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اس لیے کبھی اپنی شفیق سی آنکھوں سے دیکھیں اور کانوں سے سنیں اور دماغ سے سوچیں کہ روزانہ وہ کیا کیا کام ہیں جو ہم نہ کریں تب بھی ہماری زندگی میں کمی یا تنزلی پیدا نہیں ہو گی۔

مثال کے طور پر ہمارے ملک میں صرف موٹر سائیکل سواروں کو ہی لے لیجیے ، جو روزانہ ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں، گلیوں، بازاروں میں نکلتے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے لوگ ہوں  گے جو ضرورت کی بنیاد پر نکلتے ہوں اور کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو گھومنے پھرنے اور لوگوں کو دکھانے کے لے نکلتے ہیں۔ یہ بات میں اسی معاشرے کی کر رہا ہوں جس کا میں خود حصہ ہوں۔

اب اگر ایک دن کے لیے موٹرسائیکل سواروں کو روڈ پر نکلنے نہ دیا جائے۔ تو ذرا سوچیں کہ اس اقدام سے کتنے فوائد حاصل ہوں گے۔ ایک تو ہزاروں لیٹر پٹرول بچ جائے گا اور ماحولیاتی زندگی کو یہ ایک دن کہاں سے کہاں لے جائے گا۔ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ روزانہ اس سواری سے لوگ گرتے ہیں اور اپنی جانوں اور جسم کے انتہائی اہم حصوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ایک دن میں کتنے لوگوں کی جان محفوظ ہو گی۔

ذرا سوچیں! ہمیں زندگی کو ایک ماحول دوست کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ ہماری ایک احتیاط کی وجہ سے کتنے مسائل ہیں جو دنوں میں حل ہو سکتے ہیں۔ موضوع پر اگر بات کرتا رہوں گا تو بات کبھی ختم نہ ہو پائے گی۔

ہمیں دیکھنا چاہیے کہ جب ہم بازاروں اور مارکیٹوں میں جاتے ہیں ، وہاں جو سامان ہم خریدتے ہیں۔ کیا وہ ضرورت سے زیادہ تو نہیں؟ اگر ہم ایک چیز زیادہ خریدتے ہیں تو ہم سے جو نیچے ہیں (جس طبقے کا میں خود حصہ ہوں) ان پر اس ایک چیز کا کیا اثر ہو گا۔ یہ ہم نے اپنی ذات سے سوال کرنا ہے۔ ہمیں ہماری زندگی کی خواہشات کو کم اور فضول قسم کی رسومات کو ختم کرنا ہو گا۔ تب ہی پورے معاشرے کی صحت مند زندگی رواں رہ سکے گی۔

وگرنہ آئے دن اسی طرح چوری چکاری، قتل، ظلم و تشدد ہوتا رہے گا اور ہماری عزت محفوظ ہو گی نہ ہماری زندگی۔ اسی لیے ہمیں آنے والے دنوں میں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس میں ہمارا معاشرہ اور ہماری زندگی محفوظ اور خوشحال ہو اور ہم اپنے بزرگوں کی دی ہوئی قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ملک ، دین اور اسلام کی ترقی کے لیے دن رات محنت کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments