الیکشن کمیشن: کیا یہ دل کی آواز تھی؟



چوہدری غصے سے پھنکار رہا تھا کہ کیا وہ مجھ سے بھی زیادہ ایمان دار ہے۔

سر تھانیدار تو ایک طرف رہا وہ جو نیا سکول ٹیچر آیا ہے ، وہ بھی یہی کہتا پھرتا ہے کہ میں نے وہی بیان دینا ہے جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

ان کی یہ جرأت کہ ہمارے علاقے میں رہتے ہوئے ہماری مخالفت کریں۔
یہ جو دو ٹکے کا ٹیچر ہے اس نے کیا دیکھا ہے۔

جناب گڈریا رات یہاں سے گزر رہا تھا جب ہمارے آدمیوں نے اس پر لاٹھیوں سے حملہ کر کے اس کی ٹانگیں توڑ دیں تو اس وقت یہ ٹیچر بھی یہیں سے گزر رہا تھا۔

چوہدری غرایا کہ ان کو معلوم نہیں کہ وہ چوری کرنے ہمارے باڑے میں آیا تھا اور ہماری بھیڑیں چرانا چاہتا تھا اور جب کتوں نے اس پر حملہ کیا تو وہ چھت پر چڑھ کر چھلانگ لگاتے ہوئے ٹانگیں تڑوا بیٹھا۔ حالانکہ ایس پی صاحب نے بھی تھانیدار کو صحیح تفتیش کرنے کا کہا ہے اگر یہ دونوں باز نہ آئے تو پھر یہ یہاں نہیں رہیں گے اورہم نے ان دونوں کی ٹانگیں تڑوا دینی ہیں۔

یہ ہر گاؤں ہر شہر اور ہر ملک کی کیفیت ہے کہ جس کے پاس طاقت ہے، وہ اس کے نشے میں چور ہے۔

یہی سینیٹ میں ہوا ۔ سینیٹ مدتوں سے بدنامی کا بوجھ سر پر لیے کھڑا ہے کہ سینیٹ کا رکن بننے کے لئے لوگ پیسے اور دولت کا سہارا لیتے ہیں اور اراکین ووٹ خرید کر ایوان بالا کی رونق بنتے ہیں۔ اس سلسلے میں خطیر رقم کا لین دین ہوتا ہے ۔ عمران خان نے بھی اس کا ایک حل تلاش کیا ہے کہ وہ لوگ جن کے پاس اندھا دھند دولت ہے ، ان سے کروڑوں وصول کیے جاتے ہیں۔ پھر سینیٹ کا ٹکٹ دے کر جس طرح بھی بن سکے گا ، ان کو کامیابی کا زینہ سر کرا دیا جاتا ہے۔

اب جب خان صاحب کو محسوس ہوا کہ ان کے رویے کی وجہ سے اور پیسے کی وجہ سے ان کی پارٹی کے ارکان بک جائیں گے تو انہوں نے اس ضمیر فروشی کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کی کہ یہ جو سیکرٹ بیلٹ کا طریقہ کار ہے ، اس کو بدل کر اوپن بیلٹ کے ذریعے ووٹنگ کرائی جائے۔ جبکہ انہوں نے آئین کی اسی شق کے مطابق اپنی سابقہ تمام مہمات سر کی تھیں۔

اب چاہیے تو یہ تھا کہ جب سے وہ وزیراعظم بنے تھے ، اس کے لیے آئین میں ترمیم لانے کا ڈول ڈالتے لیکن انہوں نے اس پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہونے کی بجائے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کر دیا اور سپریم کورٹ کی رائے لینے کی کوشش کی کہ سینیٹ کے الیکشن سیکریٹ کی بجائے اوپن بیلٹ سے کرائے جائیں اور جلد بازی میں ایک آمر کے رویے کے مطابق کہ اس کی خواہش پر فوری عمل کیوں نہیں ہو رہا،  فوراً صدر صاحب سے صدارتی آرڈیننس بھی جاری کرا دیا۔ پھر جس طرح سپریم کورٹ میں کیس چلا عدالت اور الیکشن کمشنر میں مکالمہ ہوا اور جس طرح کا الیکشن کمشنر پر دباؤ پڑا اور جس ثابت قدمی اور جرأت کے ساتھ اس نے آئین و قانون کا پابند رہنے کا اظہار کیا وہ قابل ستائش ہے۔

آخرکار سپریم کورٹ کا ایسا فیصلہ آیا جس سے اگرچہ قانون دانوں نے اختلاف کیا لیکن اس سے حکومت اور اپوزیشن دونوں شاد ہو گئے ، حکومت کی خواہش سپریم کورٹ کا فیصلہ کہ سینیٹ انتخابات آئین و قانون کے مطابق ہوں گے ، آئین میں ترمیم پارلیمنٹ کا کام ہے ، شفاف انتخابات کے لیے کمیشن جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرے اور سیکریٹ بیلٹ ہمیشہ کے لئے نہیں ہیں۔ لیکن سینیٹ کے انتخابات کے بعد حکومت کو جو ناکامی ہوئی اور وزیراعظم جس طرح سیخ پا ہوئے اور الیکشن کمیشن کی کوتاہیوں کی نشاندہی کی تو الیکشن کمیشن نے اس کا جواب دیا کہ یہ ایک آئینی ادارہ ہے ہم کسی کی خوشنودی کے لئے کام نہیں کرتے نہ کسی دباؤ میں کام کرتے ہیں۔ ہمیں آئین و قانون کے مطابق کام کرنے دیں تو مجھے یہ دیکھ کر انڈیا کے ایک الیکشن کی یاد آتی ہے۔

اندرا گاندھی نے جب 1975 میں ملک میں ایمرجنسی لگائی تو انہیں مختلف لوگوں نے مشورہ دیا کہ اب الیکشن کروانے کی ضرورت نہیں لیکن اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لگانے کے دو سال بعد انتخابات کرانے کا عندیہ دے دیا ۔ انتخابات ہوئے لیکن حیران کن بات یہ تھی کہ ان میں نہرو خاندان کو شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، ایسا خاندان جس کا تحریک آزادی میں نمایاں نام تھا اور جو انڈیا کو آزادی دلانے میں پیش پیش تھا۔ آج اس کو شکست فاش کا سامنا تھا۔

1977 میں انتخابات کا انعقاد ہوا تو تمام ریاستوں میں کانگریس کو منہ کی کھانا پڑی ، عوام نے اندرا گاندھی کے ان مظالم اور زیادتیوں کا بدلہ لے لیا تھا جن میں ان کے بنیادی حقوق کو سلب کر لیا گیا تھا۔ 1971 میں اکثریت نشستیں حاصل کرنے والی پارٹی کو 350 سیٹوں کے مقابلے میں صرف 153 سیٹیں ملیں۔

لوگ انتخابات کے نتائج سن کر حیران تھے لیکن اس دوران اندرا گاندھی کے حلقے بریلی کا ڈپٹی کمشنر ونود ملہوترا انتہائی طور پر پریشان تھا کہ اس کے حلقے میں اندرا گاندھی کے ووٹوں کی گنتی انتہائی کم تھی اور وہ ہار رہی تھیں،  ریڈیو اور ٹی وی کی نشریات بھی بند تھیں ، ڈپٹی کمشنر جو اس حلقے کا ریٹرنگ افسر تھا، تذبذب کی حالت میں تھا کہ وہ کیسے وزیراعظم کی شکست کا اعلان کرے۔ ملک کی دوسری ریاستوں میں کیا نتائج آ رہے ہیں۔ ٹی وی اور ریڈیو کی بندش کی وجہ سے اس کو علم نہیں ہو رہا تھا کہ کانگریس کی انتخابی پوزیشن کیا ہے۔ اور ادھر اندرا گاندھی کا پولنگ ایجنٹ تین بار گنتی کرا چکا تھا،  اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اندرا گاندھی بھی شکست کھا چکی ہے۔

ڈپٹی کمشنر کی پریشانی کا یہ عالم تھا کہ اس سے فیصلہ نہیں ہو رہا تھا کہ اس صورتحال میں کیا کرے۔ آیا کہ وہ فوراً اعلان کر دے یا نتیجے کو وقتی طور پر روک لے ۔ اس طرح کی پریشان حالی میں ان باتوں میں انسان کسی قریبی دوست سے مشورہ کرتا ہے یا اپنی فیملی سے ، وہ اپنے گھر گیا تو بیوی سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا جو اس وقت اپنے چھوٹے بچے کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اس نے بیوی سے اپنے اندیشے اور پریشانی کا اظہار کیا کہ حالات اس طرح ہیں کہ اگر میں اندرا گاندھی کی ہار کا اعلان کرتا ہوں تو مجھے اندرا کے غضب ناک رویے سے کوئی نہیں بچا سکے گا اور میرے لئے مشکلات کا طوفان کھڑا ہو جائے گا اور امید واثق ہے کہ وہ ضمنی انتخابات میں جیت کر حکومت بنا کر دوبارہ آ جائے گی۔  اس کی بیوی اسی طرح بچے سے کھیلتی رہی اور بے اعتنائی سے کہا وہی کرو جو سچ ہے ناجائز نہیں کرنا۔

”ہم برتن مانجھ لیں گے مگر بے ایمانی نہیں کریں گے“

اس معرکے میں ڈسکہ کے اور سینیٹ کے انتخابات میں الیکش کمیشن کا جو رویہ تھا وہ قابل تحسین تھا ۔ اس نے جس طرح اس نازک مرحلے پر آئین و قانون کی پابندی کی اور جس جرأت سے اس پر عمل درآمد کیا، اس نے حیرت زدہ کر دیا ۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا یہ ڈھیل ہے یا دباؤ کم ہوا ہے یا ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں ہے۔  خدا کرے اشارہ اوپر سے نہ آیا ہو اور یہ آواز گھر سے اٹھی ہو اور یہ دل کی آواز ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments