مردہ چور (کہانی)۔


ولی پور میں مردہ چوری ہونے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ چھ ماہ میں یہ تیسری مرتبہ تھا۔ چور نے بھی ولی پور کے قبرستان سے ایک مردہ ہر دو مہینے بعد کی ایوریج سیٹ کی ہوئی تھی۔ اور صرف ولی پور ہی نہیں، آس پاس کے علاقوں، مراد آباد، دنیا پور اور قصبہ گنج کے علاقوں سے بھی ایسی ہی وارداتوں کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔ لوگوں نے بڑی کوششیں کیں۔ کہیں دیوار چڑھائی، کسی جگہ بندہ چوکیداری کو بٹھایا، کہیں رکھوالی کے لیے کتے رکھے لیکن مردے چوری ہونے نہ رکے۔

میں شہر کے بڑے ہسپتال کے پتھالوجی ڈیپارٹمنٹ میں لیب اسسٹنٹ ہوں۔ ڈاکٹر وسیم کے ماتحت کام کرتے ہوئے مجھے دو سال ہو گئے ہیں۔ وہ پوسٹ مارٹم سپیشلسٹ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ قتل ہو یا طبعی موت کوئی لاش ان کے یہاں سے خالی ہاتھ نہیں لوٹی آج تک۔ لاش کی کھال اتار کر اس کو دوبارہ سینے میں بھی کمال درجہ کی مہارت رکھتے ہیں۔ انہیں لاشوں کے درمیان رہ کر شاید مجھے وہ فقیر اپنا اپنا سا لگنے لگا تھا جس کو میں اسٹیشن سے گزرتے ہوئے اکثر کھانا دیتے ہوئے شہر نکل جاتا تھا۔ بالکل کسی زندہ لاش جیسی شکل تھی اس کی۔ گاؤں والے اسے ٹیشن سائیں کہتے تھے۔

گاؤں کے چوہدری گلزار علی کے چھوٹے بیٹے مختار علی کے کہنے پر ہی مجھے یہ پوسٹ ملی تھی۔ مختار علی میرے بچپن کا ساتھی ہے۔ اس نے بڑی مشکل سے دس جماعتیں پاس کیں اور اس کے بعد پڑھائی سے دور بھاگ گیا۔ چوہدری گلزار علی نے بھی زیادہ زور نہیں دیا، آخر اتنا بڑا رقبہ سنبھالنے کے لیے اسے اپنے بیٹوں کا ہی تو سہارا تھا۔

ولی پور سے شہر کا راستہ تقریباً چالیس منٹ کا ہے۔

ریلوے اسٹیشن کے ساتھ پٹری کی دوسری طرف ایک کچی پکی سڑک سیدھا شہر کو جاتی ہے۔ یہی میرا روز کا راستہ ہے۔ اس دن میری نائٹ شفٹ تھی چنانچہ میں دوپہر کو گھر سے نکلا۔ اسٹیشن کے راستے میں حنیف چائے والے کا ڈھابہ بھی پڑتا تھا۔ وہاں سے گزرتے ہوئے مجھے چوہدری گلزار علی کا منشی اختر نظر آیا جو گاؤں کے نئے انسپکٹر کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔ منشی دھان پان سا آدمی تھا لیکن بلا کا پھرتیلا۔ پچھلے ایک سال میں اس نے کافی ترقی کی تھی۔ مراد آباد میں کچھ رقبہ بھی خریدا تھا۔ اس کا ایک بیٹا بھی شہر کے ہسپتال کے کالج میں پڑھتا تھا۔ انتہائی نالائق لڑکا لیکن ہر امتحان میں پاس ہو جاتا۔ منشی کو دور سے ہی ہاتھ ہلا کر سلام کرتے ہوئے میں اسٹیشن کی طرف نکل پڑا۔

مسلسل ایک ہفتے کے ناغے کے بعد آج ٹیشن سائیں اپنی جگہ پر موجود تھا۔ میں نے اس کے سامنے کھانا رکھا اور اپنی راہ لی، وہ نہ تو کوئی بات کرتا تھا اور نہ ہی ہلتا تھا۔ میں نے تو اسے کبھی چلتے پھرتے بھی نہیں دیکھا۔ بس ایک زندہ لاش کی مانند کسی درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا رہتا۔ اگر اس کی آنکھیں غور سے دیکھی جائیں تو موت کی وحشت صاف نظر آتی۔

بہت ہی افسوس ناک واقعہ تھا۔ قدرت بھی کبھی کبھی کیسا کام دکھاتی ہے۔ چوہدری مختار علی کی بیوی بانو کتنے ہی عرصے بعد امید سے تھی۔ بھورے شاہ بخاری کے مزار پر منت اتارنے آئی تھی جب خوشی میں چلتی ہوئی کلاشنکوف کی ایک گولی اس کا کام تمام کر گئی۔ آج اس کا سوئم تھا۔ تمام انتظامات میں دیکھ رہا تھا۔ مختار علی تو صدمے سے بے حال تھا۔ شام کو بانو کی قبر پر پھول چڑھانے جانے لگا تو میں بھی اس کے ساتھ ہو لیا۔

مختار علی نے سب کو واپس بھیج دیا۔ قبرستان میں، میں اور وہ اکیلے رہ گئے تھے، مختار علی پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ ہزار دلاسے دینے کے بعد میں نے اس کو واپس جانے کے لیے راضی کیا۔ مختار علی اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا اور اس کے ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی۔ میں نے موٹر سائیکل کا لاک کھولنے کے لیے جیب سے چابی نکالنا چاہی تو جیب خالی تھی۔ میں نے مختار علی سے کہا کہ وہ چلا جائے میں چابی ڈھونڈ کر واپس گھر چلا جاؤں گا۔ مگر وہ اس بات پر مصر رہا کہ ہم یہاں سے اکٹھے نکلیں گے۔ میں چابی ڈھونڈنے کے لیے واپس بانو کی قبر کی طرف چل پڑا۔ مختار علی کا ڈرائیور بھی میرے ساتھ تھا۔

ہم دونوں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں جب ہم نے ذرا فاصلے سے بانو کی قبر کی ڈھیری کی جگہ ایک گڑھا دیکھا جس میں سے تیزی سے مٹی نکل رہی تھی۔ کوئی تیزی سے قبر کھود رہا تھا۔ اتنی تیزی سے کہ ہمارے گاڑی تک جانے اور پھر واپس آنے تک وہ آدھی قبر کھود چکا تھا۔ مختار علی کے ڈرائیور نے ایک گندی گالی دے کر اپنے پستول سے ہوائی فائر کیا تو ادھ کھلی قبر سے ایک ہیولا نکلا اور تیزی سے قبرستان کی بیرونی دیوار کی طرف بھاگنے لگا۔

ڈرائیور نے اس پر فائر کھول دیا۔ وہ ہیولا بھاگتے بھاگتے گر گیا لیکن اٹھ کر پھر اس تیزی سے بھاگا کہ ہم اس تک نہ پہنچ سکے۔ پتہ نہیں انسان تھا یا چھلاوا۔ اتنے میں فائرنگ کی آواز سن کر مختار علی بھی آ گیا تھا۔ اسے ساری صورتحال سمجھنے میں بالکل دیر نہیں لگی۔ گورکن کو بلا کر اس نے قبر اسی وقت پکی کروائی اور فجر تک خود قبرستان میں کھڑے ہو کر پہرا دیا۔ مجھے بھی اس کے ساتھ ہی قبرستان میں رات گزارنی پڑی، آخر میرا دوست تھا۔

شکر ہے کہ میری نائٹ شفٹ چل رہی تھی۔ فجر کے بعد سویا تو دوپہر دو بجے آنکھ کھلی۔ فٹافٹ نہا دھو کر کپڑے بدلے اور ہسپتال کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ شکر ہے آج ٹیشن سائیں اپنی جگہ پر موجود نہیں تھا کیونکہ میں جلدی میں اس کے لیے کھانا بھی نہیں لا سکا تھا۔ ہسپتال پہنچتے ہی پتہ چلا کہ ڈاکٹر وسیم آدھے گھنٹے سے میرا انتظار کر رہے ہیں۔ آج خلاف معمول تین پوسٹ مارٹم کرنے تھے۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو ڈاکٹر وسیم نے مجھے دیکھ کر دیوار پر لگے وال کلاک کو دیکھا۔ میں نے معذرت کی اور رات کا قصہ سناتے ہوئے پہلی لاش کے سر پر سے کپڑا اٹھایا۔ میری بولتی بند ہو گئی۔ منشی اختر کی لاش میرے سامنے پڑی تھی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور الٹے کندھے پر دو گولیوں کے نشان تھے۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 41 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments