سینٹ انتخاب: اعتزاز احسن کا نوحہ


سینٹ ہماری منہ زور اشرافیہ کا کلب ہے جہاں کوئی انتخاب آج تک ایماندارانہ اورشفاف نہیں ہوا۔ فلسفی، قانون دان اور سندھ ساگر کے داستان گو اعتزازاحسن بتاتے ہیں کہ سینیٹ کے قیام سے آج تک ایک بھی الیکشن شفاف نہیں ہوا۔ سینٹ میں پہلے دن سے ہی 25% سنیٹرز صرف دولت کی بنیاد پر آتے ہیں۔ اب اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں اس ایلیٹ کلچر سے جان چھڑانی چاہیے۔ اس میں نرا گھپلا، رشوت، پیسہ چلتا ہے۔ سینٹ کی اب بہت کم سیٹیں رہ گئیں ہیں جس میں پیسہ نہیں چلتا۔

سینٹ کے حمام میں سب ننگے ہو چکے ہیں۔ جو کچھ ہوا نہ ہوتا تو بہتر تھا اوراب عالم یہ ہے کہ سانپ نکل چکا ہے اور سیانے لکیر پیٹے جا رہے ہیں۔

سب سے بڑادھچکا سب پر بھاری آصف زرداری اوران کے فلسفہ سیاست کو لگا ہے کہ سیاست کے کھیل میں مال ودولت کے ڈھیر لگا کر بازی ہمیشہ جیتی جا سکتی ہے اور من پسند نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں

ویسے زرداری سیاست کے بھی کیا کہنے ہیں۔ پیپلز پارٹی کبھی چاروں صوبوں کی زنجیر وفاق کی علامت جماعت تھی، اب کمزور ہو کر سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہو گئی ہے۔ پسپائی کا یہ سفر جماعت اسلامی نے بھی بڑی سرعت سے طے کیا ہے جو کے پی کے دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں پناہ گرین ہو چکی ہے، صرف نون لیگ نے وسطی پنجاب کے شہری اوردیہی علاقوں کے ووٹ بنک میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ سینٹ انتخاب میں سب سے زیادہ مایوسی حضرت مولانا فضل الرحمن کو ہوئی ہے جن کا امیدوار مولانا غفور حیدری 10 ووٹوں کی واضح اکثریت سے ہارا ہے اور اب حضرت مولانا اس شکست کے تناظر میں مریم بی بی اورزرداری سے گلے شکوے کرتے پھر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ووٹروں نے کھل کر غداری کی ہے اورمولانا غفورحیدری کو پیسے لے کر شکست سے دوچار کیا گیا ہے بلاول اور مریم نواز اس پر خاموشی اختیارکیے ہوئے ہیں، صرف پروفیسر ڈاکٹر احسن اقبال نے نیم دلانہ وضاحت کی کوشش ناتمام کی ہے

اب مولانا فضل الرحمن جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے دس غدار ووٹروں کو ڈھونڈنے کے لئے واویلا کر رہے ہیں۔ مشکوک ارکان کا موبائل فون ڈیٹا حاصل کیا جا رہا ہے۔ مولانا، لانگ مارچ سے پہلے پارلیمان سے استعفوں پر دباؤ بڑھا رہے ہیں لیکن نواز شریف اور زرداری اس تجویز پر متفق نہیں ہو رہے حضرت مولانا کو غالباً اسی تنخواہ پر کام کرنا پڑے گا۔

ویسے یہ بھی المیہ ہے کہ چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں 7 ووٹ ضائع کر کے پانسہ پلٹ دینے والوں نے نائب چیئرمین کے انتخاب میں نہایت احتیاط اور ذمہ داری سے حق رائے دہی استعمال کیاہے اورایک ووٹ بھی ضائع نہیں ہونے دیا

لیکن مرزا محمد آفریدی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے 4 کی بجائے 10 سینٹروں کو ”راہ راست“ پر لانے کا کارنامہ کر دکھایا ہے۔ سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والے مرزا محمد آفریدی کے بارے میں نون لیگی قیادت کا دعوی تھا کہ وہ ان کی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہیں اور جناب عمران خان کو ڈپٹی چیئرمین کے لیے ہمارے سینٹرکو نامزد کرنا پڑا انہیں کوئی امیدوار نہیں مل رہا تھا یہ تو بعد از شکست کھسیانی بلی کھمبانوچنے والا معاملہ ہے۔

مہا گرو انور عزیز چودھریؒ فرمایا کرتے تھے ”بادشاہ ست ولیاں دی طاقت رکھدا اے“

یہ حقیقت سب پر بھاری زرداری اور حضرت مولانا شاید بھول چکے تھے۔ رہے یوسف رضا گیلانی تو وہ محافظین ریاست کے غیرجانبدار ہونے پر خوش ہو رہے تھے۔ اصل کھیل تو آخری لمحوں میں جناب نواز شریف نے بگاڑا جنہوں نے مریم نواز کو قتل کی دھمکیاں دینے کا انکشاف کرتے ہوئے اپنی متوقع ایف آئی آر میں وزیراعظم عمران خان اور جنرل قمرجاوید باجوہ کے ساتھ ساتھ ایک نیا نام میجر جنرل عرفان ملک کا شامل کر دیا جن کا نام اس انکشاف سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا۔

طرفہ تماشا کچھ یوں ہوا کہ ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگا کر غائب ہو جانے والے مشاہد حسین سید نے مادام گل بخاری کے ذریعے اس گمنام سپاہی کی تصویر بھی جاری کروا کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔

دوسرا ناٹک سینٹ سے بھاری بھرکم جاسوس کیمروں کی برآمدگی کا ہے جسے بعض ستم ظریف بھولے بسرے ”واٹر گیٹ“ سکینڈل کے ہم پلہ قرار دے رہے ہیں جبکہ دونوں کھوجی مصدق ملک اور مصطفے نواز کھوکر ایک لفافی اینکر کے ساتھ گھنٹوں کوہسار مارکیٹ کے اشرافیہ کی دلچسپی کا مرکز چائے خانوں میں گپ شپ کرتے دیکھے جاتے تھے

فواد چوہدری مزے لیتے ہوئے فرماتے ہیں اپوزیشن نے جتنی توجہ کیمرا ڈھونڈھنے پر لگائی ہے، اس توجہ کا 25 سے 30 فیصد اپنے لوگوں کے ووٹ ڈالنے کا طریقہ بتانے پر لگادیتی تو اب رو نہ رہی ہوتی۔

اسی طرح نصف شب کو تنظیم سازی کے لئے اپنی ہی بیوہ رکن قومی اسمبلی کے گھرجانے کی مہم جوئی کرنے والے طلال چودھری کی بلاول زرداری سے نوک جھونک ہوئی ہے طلال نے پوچھا ”نیوٹرل“ کا مزا تو آ رہا ہوگا جس پر بلاول نے تنظیم سازی والا واقعہ یاد دلا دیا

مایوسی کی دلدل میں گھرے ہوئے نواز شریف نے اپنے سینٹروں کو حوصلہ دینے کے لیے روایتی لاہوری رنگ بازوں کے انداز میں مریم کی زندگی کو لاحق فرضی امکانی خطرات کی فلم چلا دی جس پر نون لیگ کے اندر بھی زیادہ توجہ نہیں دی گئی بلکہ حمزہ شہباز کے سینٹ انتخاب کی وجہ سے منظرعام پر آنے کی وجہ سے مریم بی بی نادیدہ نفسیاتی دباو میں آئی ہوئیں تھیں صرف شیخوپورہ سے جاوید لطیف نے غیرضروری وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرقی پاکستان والا ڈرامہ دہرانے اور پاکستان کو توڑنے کی دھمکی دی ہے اپنی غیرمحتاط زبان دانی کی وجہ سے موصوف ماضی قریب میں تحریک لبیک کے کارکنوں سے اچھی خاصی ’مرمت‘ کرا چکے ہیں۔ رہے یوسف رضاگیلانی تو ان پر انواع و اقسام کے الزامات کی بھرمار رہی ہے

پاکستان سے چرائے جانے والے 6 کروڑ ڈالر سوئٹزرلینڈ سے واپس منگوانے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر خط نہ لکھنے کے جرم میں سزا یاب ہو کر نا اہل ہوئے تھے اورتادم برخواست عدالت قید کی سزاپائی تھی لیکن اس سے بھی بڑاجرم ترک صدر طیب اردگان کی اہلیہ کے سیلاب زدگان کے لئے عطیہ دیے گئے ہار کی چوری کا ہے جووہ نہایت ڈھٹائی سے اپنی اہلیہ کو پہناچکے ہیں اورشاید تاحال واپس جمع نہیں کرایا، خود بابا گیلانی ووٹ ضائع کرنے والی ٹیکنالوجی کا شکار ہوئے جو ان کے لائق فائق بیٹے موسی گیلانی نے ایجاد کی تھی جس کے ذریعے موسی گیلانی نے تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کوووٹ ضائع کرنے کی ترتیب دی تھی جس پر 7 ارکان اسمبلی نے عمل درآمد کر کے دکھایا تھا اورٹھیک 7 دن وہی ٹیکنالوجی چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں دہرائی گئی تو سب پر بھاری زرداری ہلکے ہو کر منظرسے غائب ہو گئے اور ’مرشد پاک‘ بے بسی سے ہاتھ مل رہے ہیں اور ایڑیاں اٹھا اٹھاکر اسی عدلیہ سے توقعات لگارہے ہیں جس کی حکم عدولی کے جرم میں حکومت گنوابیٹھے تھے اورمادر وطن کو 6 کروڑڈالر کا نقصان پہنچایا یہ رقم مبینہ طور پر زرداری صاحب لے گئے تھے۔

کاش وزیراعظم عمران خان کی کھلے بندوں ووٹ (Open Vote) ڈالنے کی صائب تجویز مان لی جاتی تو یہ گھڑمس نہ مچتا لیکن اس وقت مریم بی بی کو قومی اسمبلی میں ووٹ خراب کرا کے انہیں عزت دینے کا بھوت سوار تھا جب ووٹ خراب کرنے کی موسی گیلانی ٹیکنالوجی قومی اسمبلی سے سینٹ میں دوبارہ آزمائی گئی تو اب ووٹ کی عزت پامال ہو گئی اوراس کے خلاف زرداری میڈم مولانا اتحاد عدلیہ کی زنجیر ہلائے گا اور فیصلہ عدالتیں کریں گی۔ جن کے بارے میں سندھ ساگر کے داستان گو فلسفی قانون دان جناب اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ “سینیٹ الیکشن کا فیصلہ سپریم کورٹ بنچ پر منحصر ہے کہ کس بنچ کے پاس یہ کیس لگتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری عدالتیں بھی تقسیم ہیں، جج صاحبان کی آپس میں بات چیت نہیں ہے فریقین ان مخصوص عدالتوں میں جاتے ہیں جہاں ان کو من پسند ’انصاف‘ ملنے کی توقع ہو۔ ایک عدالت ایک پارٹی کو ریلیف دیتی ہے تو دوسری میں دوسرے فریق کو فائدہ ملتا ہے۔ 2006 میں ہونے والے چارٹر آف ڈیموکریسی کے مصنفین میں سے ہوں اورہم نے اسی وقت بہت سوچ سمجھ کر کہا تھا کہ اوپن بیلٹ ہونا چاہیے کیونکہ مالیاتی ہیرپھیر روکنے کا اور کوئی طریقہ نہیں تھا۔”

نیب مریم نواز کی ضمانت منسوخ کرانے کے لئے عدالت سے رجوع کر رہا ہے جس کا سینٹ کے متنازع انتخابات سے گہرا تعلق ہے ویسے مریم بی بی نے یہ ضمانت میاں نواز شریف کی تیمارداری کے لئے کرائی تھی جو خود ’حالت نزع‘ میں ہنگامی طور پر علاج کے لئے بذریعہ قطرائرایمبولنس لندن کے لئے روانہ ہوئے تھے لیکن دوحا پہنچتے پہنچتے بھلے چنگے ہو گئے تھے کہ ”قطری کنکشن“ شریف خاندان کے لئے حیات آفرین امکانات کی نوید ہوتا ہے۔

کہتے ہیں کہ جناب نواز شریف نے مشاہد حسین سید و دیگر مشیروں کے اصرار کے باوجود سٹریچر پر لیٹ کر ایئر ایمبولنس میں سوار ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا کہ رنگ بازی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ لندن میں اپنی نادیدہ بیماری کا علاج کرانے کی بجائے وہ پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف مورچہ لگا کر بیٹھ چکے ہیں

سات دن بعد وہ کون سات سینٹرز تھے جنہوں نے سب سے بھاری اک زرداری کے منترے سے ہوا نکال دی اور ایسی فنکاری سے ”خانہ خراب“ کر کے رکھ دیا کہ کسی کچھ سمجھ نہیں آئی اب ان مجرموں کی تلاش جاری ہے ان کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بے نقاب کیا جائے گا لیکن ان دس سینٹروں کی کسی کو فکر نہیں جنہوں نے ووٹ خراب کرنے کا تکلف کرنے کی بجائے براہ راست مرزا محمد آفریدی کو جتوایا اور یہ اقدام حضرت مولانا کے دل کا روگ بن چکا ہے

اللہ کا شکر ہے کہ سینیٹ الیکشن بارے۔ وزیر اعظم عمران خان اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق متفق ہو چکے ہیں کہ یہ ووٹوں کا نہیں، نوٹوں کا مقابلہ تھا، وزیر اعظم عمران اس متنازعہ انتخاب کو سینٹ کی بکرا منڈی قراردے رہے ہیں، خدا خیر کرے۔

حرف آخر یہ کہ سینٹر یوسف رضا گیلانی کو جتانے کے لئے ووٹ خراب کرنے والے انصافی غدارارکان کی نشان دہی ہو چکی ہے۔ جن کے خلاف کارروائی بہت جلد شروع ہو جائے گی۔

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments