
کرہ ارض پر پھیلے ہوئے وہ داغ دار مناظر جنھیں انسانوں کی مادی خواہشات نے جنم دیا
رچرڈ فشر اور ہاویے ہرشفلڈ - بی بی سی فیوچر
جب ہم کسی قیمتی دھات، کوئلے یا دیگر معدنیات حاصل کرنے کے لیے کھدائی کرتے ہیں تو ہم ایک قدیم اور گزرے ہوئے زمانے کا ایک باب بند کر دیتے ہیں۔
مصنف ایسٹرا ٹیلر کے الفاظ میں یہ اشیا ’ایک جمع شدہ ماضی ہیں‘ جو ہمیں بہتے لاووں، جنگلات اور بھاپ اگلتے چشموں کی لازوال کہانیاں سناتے ہیں۔ لاکھوں برس کی اس تاریخ کو ہم مشینوں اور دھماکہ خیز مواد کے حوالے کر کے چند لمحوں میں ختم کر دیتے ہیں۔
انسانوں کو جب سے یہ معلوم ہوا ہے کہ زمین کے اندر بڑے خزانے موجود ہیں تو انھوں نے ان خزانوں کو ڈھونڈنے کے لیے ہر طرف کھدائی کی ہے۔
کان کنی کی وجہ سے ہمارا جدید طرزِ زندگی ممکن ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں فطرت کو پہنچنے والا نقصان زیادہ تر ہمارے گھروں سے بہت دور ہوتا ہے۔
جب آپ کان کنی کے اثرات کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں تو اپنے زیرِ استعمال اشیا کے بارے میں آپ کی سوچ غیر محسوس طور پر تبدیل ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
کورونا وائرس کے باعث انسانی سرگرمیوں میں کمی اور جنگلی حیات پر اثرات
ریت: جس کے لیے لوگ جان بھی لینے کو تیار ہیں
ایمازون کے جنگلات میں ’بہتے سونے کے دریاؤں‘ کی حقیقت
یہاں تک کے یہ الفاظ بھی آپ تک معدنی اشیا کے ذریعے ہی پہنچ رہے ہیں۔ آپ کے کمپیوٹر یا موبائل فون کی سکرین کے پیچھے جو اشیا لگی ہوئی ہیں وہ ان دھاتوں سے بنی ہیں جو لاکھوں برس سے چٹانوں میں دبی ہوئی تھیں۔
ہم نے جائزہ لیا ہے کہ کان کنی نے کس طرح ہزار ہا طریقوں سے کرہ ارض کا چہرہ بدل دیا ہے۔ زمین کا فضائی جائزہ لینے سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ چاہے وہ دور دور تک پھیلے ہوئے غیر فطری پتلے پتلے تالاب ہوں یا انسانی انگلیوں کے نشانات کی طرح پھیلے ہوئے مناظر ہوں۔
اگر یہ خام دھاتیں اور معدنیات ایک منجمد ماضی ہیں تو مستقبل افسوسناک طور پر زمین کا داغوں سے بھرا چہرہ ہے۔
















تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔

Comments - User is solely responsible for his/her words