پاکستانی عوام کی قسمت: ہوائی قلعے اور سہانے خواب


پاکستان کو ’احمقوں کی جنت‘ سے نکالنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے یونیورسٹیوں کا ایسا نظام استوار کرنے کا قصد کیا ہے جہاں ’ دانشور قیادت‘ پیدا ہوگی۔ تاہم اس دوران چونکہ نہ اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر کام کرنے والی قیادت موجود ہے اور نہ ہی قوم میں وہ عزم و استقلال اور صبر پایا جاتا ہے جو کسی مشکل سے نکلنے کے لئے ضروری ہوتا ہے ، اس لئے طے یہ کیا گیا ہے کہ فی الحال احمقوں کی جنت میں رہتے ہوئے خواب دیکھے جائیں اور عوام کو ان خوابوں کے سہارے خوشگوار دنوں کی امید پر ’مرنے‘ کے لئے آمادہ کیا جائے۔

مالاکنڈ یونیورسٹی کی ایک تقریب میں وزیر اعظم کے خطاب سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی کی ضرورت پر زور دیا لیکن ’القادر ‘ یونیورسٹی کو اسلامی دانش کا عظیم مرکز بنانے کا قصد ظاہر کیا ہے۔ وہ نمل یونیورسٹی کو ’آکسفورڈ‘ بنانا چاہتے ہیں لیکن اس وقت تک عوام کو اس بات پر خدا کا شکر بجا لانے کا مشورہ بھی دیا ہے کہ دوست ملکوں نے بروقت مدد کردی اور پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ ورنہ لوگوں کو اندازہ نہیں کہ پاکستان میں افراط زر کی کیا صورت حال ہونی تھی۔ اتنی مہنگائی ہوجاتی کہ عوام کے ہوش ٹھکانے لگ جاتے۔ ظاہر ہے کہ دیوالیہ ہونے تک پہنچانے میں ان سب سیاست دانوں کا اہم کردار بھی اس تقریر میں واضح کیا گیا ہے جنہوں نے ملک کو لوٹا اور جب ملک مسائل میں ڈوبنے لگا تو اسے تحریک انصاف کے حوالے کرکے خود اپنی دولت سمیٹ کر بیرون ملک بھاگ گئے۔

عمران خان نے موجودہ صورت حال کے تین حل بتائے ہیں۔ اول: یہ سوچ کر صبر کیا جائے کہ حالات اس سے زیادہ خراب نہیں ہیں۔ آج کی تقریر میں وزیر اعظم نے ان حالات کا مختصر ذکر کرکے عوام کو باور کروایا ہے کہ اگر ملک دیوالیہ ہوجاتا تو کس قدر مہنگائی ہوسکتی تھی۔ عمران خان کے الفاظ میں ’پاکستان کے لوگ اس صورت حال اور مشکل کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے‘۔ چونکہ وزیر اعظم بتا رہے ہیں لہذا اس پر یقین کرنے اور انہیں تاحیات وزیر اعظم بنائے رکھنے کے علاوہ عوام کو صبر جیسی نعمت پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔

 دوئم: کسی انسان یا قوم کو کوئی سہولت آسانی سے نہیں ملتی۔ اس کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس تناظر میں وزیر اعظم مشکل کا حوالہ دیتے ہوئے جد و جہد کی بجائے ابتلا اور شدید مسائل کا ذکرکررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ کے نیک بندوں کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں کو شدید آزمائش کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے حالات کی تبدیلی کے لئے طویل انتظار بھی کیا۔ اگر اللہ کے پیغمبر اور نیک بندے صبر و شکر سے حالات کا مقابلہ کرتے رہے تھے تو پاکستانی ان سے کیوں سبق نہیں سیکھ سکتے؟ یہی طریقہ سرفرازی اور اللہ کی خوشنودی کا راستہ ہے۔ یعنی ایک پنتھ دو کاج والا معاملہ ہوگا۔ بس آزمائش شرط ہے۔

سوئم: موجودہ مشکل مالی حالات سے نمٹنے کا البتہ ایک تیسرا اور آسان حل یہ ہے کہ اگر صبر نہیں ہوتا اور اولیا و پیغمبروں کی طرح مشکلات کا سامنا بھی نہیں کیا جاتا تو پھر اس دن کے خواب دیکھے جائیں جب حالات بہتر ہوجائیں گے۔ پاکستان میں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی اور زمین سونا اگلنے گی۔ یہ تصور ہی انسان کو شادمانی عطا کردیتا ہے کہ کبھی اس کا درماندہ ملک بھی خوشحالی اور فلاحی منصوبوں کا مرکز ہوگا۔ عمران خان نے آج کی تقریر میں یہ خواب دکھانے کا بھرپور اہتمام کیا ہے۔ 22 سالہ سیاسی جد و جہد اور اڑھائی سالہ دور حکومت میں عمران خان نے کچھ اور سیکھا ہو یا نہ البتہ وہ یہ ضرور جان گئے ہیں کہ عوام کو سہولتیں دینے کی بجائے انہیں وعدوں سے لبھایا جاسکتا ہے۔آج انہوں نے ایسے متعدد وعدے کئے ہیں۔

وزیر اعظم نے بتایا کہ عوام مہنگائی کا شکوہ کرنے کی بجائے ایک تو یہ سوچ کر مطمئن ہوجائیں کہ اس وقت جتنی مہنگائی ہے، وہ اس سے زیادہ بھی ہوسکتی تھی۔ ایسا تصور ہی انسان کو خوشی اور راحت کا انمول احساس دلوا سکتا ہے۔ پھر انہوں نے بتایا ہے کہ اس کے باوجود اگر صبر نہیں ہوتا تو موجودہ مشکل مالی حالات سے نکلنے کا واحدطریقہ سیاحت کا فروغ ہے۔ جب لاریاں بھر بھر کے سیاح پاکستان کے قصبے قصبے، قریے قریے آنے لگیں گے تو وہاں کے لوگ ان سیاحوں سے ہونے والی آمدنی سے مالا مال ہوجائیں گے۔ پھر انہیں نہ تو مشرق وسطیٰ جاکر محنت کرکے درہم اور ریال کمانے کی ضرورت ہوگی اور نہ حکومت سے سہولتیں دینے کا مطالبہ کرنا پڑے گا۔ سیاحت کی صنعت ان کی سب خواہشوں کو گھر بیٹھے ہی پورا کردے گی۔ تاہم یہ نوٹ کرلیا جائے کہ مسئلہ کا یہ حل ان بے صبر لوگوں کے لئے ہے جنہیں قناعت کی نعمت عطا نہیں ہوئی اور وہ خدا کے نیک بندوں کی طرح مشکلات کا سامنا بھی نہیں کرسکتے۔

سیاحت کے علاوہ موجودہ حکومت کی زیرک قیادت کی نگرانی میں صرف لاہور میں راوی سٹی پراجیکٹ اور سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ جیسے منصوبوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نے انہیں ’دولت پیدا کرنے کے منصوبے‘ قرار دیا ہے جن سے کھربوں روپے حاصل ہوں گے۔ ملک کی بیشتر آبادی چونکہ ان پڑھ اور ’علمی اصطلاحات‘ سے نابلد ہے، اس لئے اگر وزیر اعظم دولت پیدا کرنے کے منصوبوں کی بجائے دولت پیدا کرنے کی مشینوں کے الفاظ استعمال کرتے تو ان کی آواز زیادہ بہتر طریقے سے سمجھی جاسکتی تھی۔ تاہم دولت پیدا کرنے کے ان منصوبوں یا مشینوں سے قومی خزانہ زر مبادلہ سے لبالب بھر جائے گا اور پاکستان کا روپیہ مضبوط ہوجائے گا۔ یہ منصوبے شروع ہوگئے تو عوام کے وارے نیارے ہوں گے۔

چونکہ عمران خان کو پاکستانیوں کی بے پناہ خواہشوں کے علاوہ بے صبری کا احساس بھی ہے لہذا انہوں نے بے بہا دولت پیدا کرنے والے صرف ان دو منصوبوں تک خود کو محدود رکھنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ دیامر بھاشا ڈیم اور موہمند ڈیم مکمل کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں ڈیم مکمل ہونے پر پاکستان میں پانی کی قلت کا خاتمہ ہوجائے گا اور زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح یہ منصوبے بھی قومی دولت پیدا کرنے میں حصہ دار بن جائیں گے۔ مشکلات برداشت کرنے والے عوام کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں والا معاملہ ہوگا۔ پھر عمران خان پوچھیں گے: ’کیوں صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے نا؟‘

ان منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے البتہ وزیر اعظم نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ پاکستانی زراعت میں جدید طریقے اختیار نہیں کئے گئے۔ اب انہوں نے اگلے ہفتے ہی نئی زرعی پالیسی لانے کا اعلان کیا ہے تاکہ فرسودہ طریقے ترک کرکے ملکی زراعت کو جدید تکنیک سے ہم آہنگ کیا جائے۔ اور پاکستانی عوام کی خوشحالی و آسانی کے لئے ایک اور شعبے کو مؤثر و فعال بنایا جاسکے۔ عمران خان نے حاضرین کو بتایا کہ پاکستانیوں کو جدید سائنسی علوم سیکھنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اسی لئے پاکستان دنیا میں برپا ہونے والے ٹیکنالوجی کے انقلاب میں بھرپور حصہ لینے کی تیاری کررہا ہے۔ اسی تیاری کے لئے انہوں نے ’القادر یونیورسٹی‘ جیسے روحانی علمی منصوبے کی داغ بیل رکھی ہے جس کا آغاز اس سال ستمبر سے ہوجائے گا۔ دنیا بھر کے ممتاز مسلمان علما کو اس یونیورسٹی کے بورڈ میں شامل کیا جارہا ہے۔ یہ یونیورسٹی اسلامی اقدار اور تعلیمات سے آگاہ ایسے روشن خیال دانشور پیدا کرے گی جو ترقی و کامرانی کی نئی منزلوں کی طرف پاکستان کی رہنمائی کرسکیں گے۔

عمران خان نے یہ اہتمام اس لئے کیا ہے کیوں کہ وہ پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ کسی قوم کا اخلاق درست کئے بغیر تعلیم و ترقی کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ پہلے نوجوان نسل کا ایمان و اخلاق ٹھیک کیا جائے۔ اس کا ایک فائدہ تو بظاہر یہ ہوگا کہ پاکستان ٹیکنالوجی کےانقلاب میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل ہوجائےگا ۔ پھر یہ ’دانشور قیادت‘ ملک میں دولت پیدا کرنے کے منصوبے بھی کامیابی سے چلائے گی۔ تاہم اس صلاحیت کے لئے روحانی تربیت اور ایمان کے نور کی ضرورت دوچند ہوگی۔ یہی وجہ ہے ’القادر یونیورسٹی‘ کے لئے اعلیٰ ترین اسلامی دماغ جمع کئے جارہے ہیں۔ عمران خان کی مالاکنڈ میں کی گئی تقریر کو سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ ماضی میں چونکہ قوم کا ’اخلاق‘ خراب تھا لہذا ملک کے لیڈر قومی دولت لوٹ کر باہر بھاگ گئے اور قوم کو قرضوں کے بوجھ میں دبا گئے۔ اب انہیں اندازہ بھی نہیں کہ ان کے پاس کتنی دولت ہے اور پاکستان میں عمران خان، ان کے چھوڑے ہوئے قرضے ادا کرنے کے لئے کتنی زیادہ تگ و دو کررہا ہے۔

یہ بھاگ دوڑ کیا کم ہے کہ وزیر اعظم کو ایک ہی تقریر سو مختلف انداز میں کرنا پڑتی ہے۔ بھوکے کو روٹی دے کر مطمئن کرنا آسان ہوتا ہے لیکن کسی کو بھوکا رکھتےہوئے خوش کردینا بہت مشکل کام ہے۔ عمران خان نے ہمیشہ بتایا ہے کہ وہ مشکل کام کا خطرہ مول لینا پسند کرتے ہیں۔ مالاکنڈ یونیورسٹی میں کی گئی تقریر یہ چیلنج قبول کرنے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments