ایمپائر کی جیت


12 مارچ 2021 ء کی صبح پارلیمنٹ ہاؤس کی سینیٹ گیلری میں داخل ہوا تو ہال میں سینیٹرز مصطفیٰ نواز کھوکھر اور مصدق ملک سب کو یہ کہہ کر متوجہ کرتے دکھائی دیے کہ انہوں نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لئے نصب پولنگ بوتھ اور اس کے اطراف ( 4 ) خفیہ کیمرے برآمد کرلئے ہیں۔ دونوں سینیٹرز کو صبح پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے سینٹ ہال میں ممکنہ طور پر خفیہ کیمروں کی تنصیب کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔ دونوں سینیٹرز کے احتجاج کے دوران سیکرٹری سینیٹ قاسم صمد خان اپنے دو افسروں کے ہمراہ سینیٹ ہال میں واضح طور پر پریشان نظر آرہے تھے۔

تھوڑی دیر میں صدارتی حکم کی روشنی میں مظفر شاہ نے ایوان کی کارروائی چلانے کے لئے چیئرمین سینیٹ کی مخصوص نشست سنبھالنے کے بعد سیکرٹری سینیٹ کو خفیہ کیمروں کی برآمدگی کے بارے میں تحقیقات کی ہدایت کی اور کہا کہ الیکشن کے لئے نئے بوتھ کی سیکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے تمام پارٹیوں کو اپنے اطمینان کے لئے بوتھ چیک کرنے کی ہدایت بھی کی۔ 48 نئے ارکان سینٹ کی حلف وفاداری کے بعد اجلاس 3 بجے تک ملتوی ہو گیا۔

اجلاس ملتوی ہوا تو میرا نوجوان صحافی ذیشان کمبوہ کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس میں مظفر شاہ سے آمنا سامنا ہو گیا۔ پوچھا کیمروں کی برآمدگی کے معاملے میں سیکرٹری سینیٹ خود ایک ملزم ہیں وہ تحقیقات کیا کریں گے؟ مظفر شاہ بولے وہ قواعد کے تحت سیکرٹری سینیٹ کو ہی کہہ سکتے تھے۔ میں نے پھر پوچھا کہ کیا قواعد اخلاقیات سے متصادم ہوسکتے ہیں؟ جواب آیا کہ میں قواعد سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔

کیمروں کی برآمدگی کے بعد یوسف رضاگیلانی کے بیٹے علی قاسم گیلانی الگ سے متحرک تھے۔ نوجوان علی قاسم گیلانی نے سینیٹر فاروق ایچ نائیک اور پارلیمنٹ میں موجود سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی کے ہمراہ سیکرٹری سینٹ سے ملاقات کی۔ سعید غنی کو پیپلز پارٹی میں الیکشن ماہر کے طور پر جانا جاتا ہے اسی لئے پارٹی قیادت نے انہیں خصوصی طور پر سینٹ الیکشن کے لئے اسلام آباد طلب کر رکھا تھا۔ باہمی مشاورت کے بعد تینوں حضرات سعید غنی کے ہمراہ سیکرٹری سینیٹ کے دفتر چلے گئے جہاں سعید غنی نے سیکرٹری سینیٹ کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ قانون کے مطابق سینیٹ میں شفاف انتخابات کا انعقاد ان کی ذمہ داری ہے لہٰذا خفیہ کیمروں کی تنصیب کی ذمہ داری ان پرہی عائد ہوتی ہے۔

سینیٹ سیکرٹری پریشان ہوئے اور کہا کہ وہ کیمروں کی برآمدگی کے معاملے پرپہلے ہی بڑے شرمندہ ہیں۔ سیکرٹری سینیٹ نے پی پی پی کے ان ذمہ داروں کی درخواست پر انہیں بیلٹ پیپر کی نقل فراہم کردی۔ پی پی پی کے ایک رہنما کے مطابق ملاقات میں سعید غنی نے خاص طور پر پوچھا کہ ووٹ ڈالنے کے لئے نام کے اوپر مہر لگانے سے کوئی فرق تو نہیں پڑتا؟ سیکرٹری سینیٹ نے اثبات میں جواب دیا۔

ملاقات کے بعد سعید غنی اور علی قاسم گیلانی نے اپوزیشن جماعتوں کے ارکان سینیٹ سے ملاقات کی اور انہیں ہر جماعت کے لئے مخصوص طریقے سے بیلٹ پیپر بند کرنے کی ہدایت کی۔ یہ سارا کام خاموشی سے جاری تھا جس کا واحد مقصد یہ تھا کہ پیپلز پارٹی اس بات کو یقینی بنا سکے کہ انہیں اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے پورے ووٹ دیے ہیں۔ ہر جماعت کے لئے بیلٹ پیپر کے فولڈ کرنے کا مخصوص انداز اس بات کا ثبوت تھا کہ اس جماعت کے ارکان یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دے رہے ہیں۔

دونوں نے پی پی پی کے 7 ارکان کو الگ الگ بلا کر خاص طور پر ہدایت کی کہ وہ یوسف رضاگیلانی کے نام کے اوپر مختلف انداز سے مہر لگائیں۔ مقصد یہ تھا کہ انہیں بیلٹ پیپر دیکھ کر اس بات کا اندازہ ہو جائے کہ متعلقہ رکن نے ہی انہیں ووٹ دیا ہے۔ یہ ساری احتیاط اس لئے کی جا رہی تھی کہ پارٹی کے اندر سے ان کے ووٹوں پر کوئی نقب نہ لگا سکے۔ اس روز میری فطری کھوج یہ تھی کہ آئین پاکستان کی رو سے ملک کے سب سے مقدس ادارے، پارلیمنٹ کے اندر نقب لگانے اور کیمرے نصب کرنے والوں کا سراغ لگا سکوں۔

مجھے ایک کرم فرما نے سینٹ نوٹیفکیشن کی نقل دی اور بتایا کہ پارلیمنٹ کی سیکورٹی میں ایک روز قبل ہی میجر ریٹائرڈ وجاہت افضل نامی شخص کو بغیر اشتہار کے تعینات کیا گیا ہے۔ یہ بات حیران کن تھی مگر اس کا دوسرا سرا مل نہیں رہا تھا۔ پتہ چلا کہ اس رات پارلیمنٹ میں کچھ عجیب و غریب لوگ ضرور آئے تھے مگر کوئی کھل کر ان کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ووٹوں کی گنتی کے بعد اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے مظفر شاہ نے رولنگ دی کہ یوسف رضا گیلانی کو ڈالے گئے سات ووٹ درست نہیں۔

یہ وہی سات ووٹ تھے جن پر ہدایات کے عین مطابق یوسف رضا گیلانی کے نام کے اوپر مہر لگائی گئی۔ حیران کن طور پر سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے ووٹوں کی گنتی کے دوران کوئی قابل ذکر اعتراض اٹھایا نہ شور مچایا یوں مظفر شاہ نے صادق سنجرانی کی جیت کا اعلان کر دیا۔ اس شام پارلیمنٹ ہاؤس سے نکلتے ہوئے میں نے ایک حکومتی شخصیت کو طنزاً کہا کہ آپ پھر الیکشن جیت گئے؟ جواب آیا جناب بات یہیں ختم نہیں ہو رہی، اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کا بھی بندوبست کر لیا گیا ہے۔ یہ ساری جیت بھی ایمپائر کی ہوگی اور ہم اس کے ساتھ ہیں۔

مجھے یقین نہ آیا لیکن چار روز بعد جب پی ڈی ایم میں شامل اکثر جماعتوں کے مطالبے کے باوجود پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں سے استعفے دینے سے انکار کیا اور بعد میں لیڈر آف دی اپوزیشن کے بارے میں معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شیری رحمان کی اس عہدے پر نامزدگی کی تو مجھے مذکورہ حکومتی شخصیت کی بات کا یقین آ گیا۔ سچ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کے ساتھ استعفوں کے معاملے پر وہی سلوک کیا ہے جو مشرف دور میں مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں جے یو آئی ف نے متحدہ مجلس عمل کے ساتھ کیا تھا۔ باہمی تقسیم اور انفرادی مفادات کے باعث ایمپائر اس وقت بھی جیتا تھا اور آج بھی جیت گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments