کرونا بعد از ویکسین: کیا یہ خبر ملکی مفاد میں حساس نہیں تھی؟


ہم نے شروع سے ہی یہ سنا ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی جان لیوا بیماری چھپائے رکھی۔ اس کی وجہ جو ہم جانتے ہیں کہ ان کے سیاسی مخالفین ان کی بگڑتی صحت کا سیاسی فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ مشکل اوقات میں قومی رہنما ایسے فیصلے لیتے ہیں جن کا بڑے پیمانے پر مثبت اثر ہو چاہے ان کی جان ہی کیوں نہ خطروں سے دوچار رہے۔ جس میں نقصان کا خدشہ ہو، ایسی تمام حساس نوعیت کی معلومات کو پنہاں رکھنے میں میں قومی عافیت ہوتی ہے۔ عمومی طور پر حساس معلومات کا تعلق قومی سلامتی سے جوڑا جاتا ہے جو کہ مناسب بھی ہے مگر حساس معلومات اور انسانی مفاد کا دائرہ خاصا وسیع ہے جس میں صحت ایک اہم پہلو ہے۔

عزت مآب وزیراعظم چونکہ ملک کے وزیراعظم ہیں اور زندگی کی ساٹھ دہائیاں گزار چکے ہیں تو کووڈ ویکسین لگوانا ان کا حق بھی تھا اور قومی رہنما ہونے کے ناتے اخلاقی و قومی فریضہ بھی۔ جمعرات کے روز انہوں نے ویکسین لگوا کر وہ تمام عوامی شکایات و شبہات زائل کرنے میں پہلا قدم اٹھایا جن کے باعث عوام تذبذب کا شکار تھے۔

دنیا بھر میں قومی، مذہبی، یا عوامی رہنما، معروف شخصیات جن میں اداکار، فنکار، کھلاڑی، سماجی کارکنان، عوامی فلاح کے لئے سرگرم لوگ شامل ہوتے ہیں ایسے مواقع پر اپنی خدمات یا خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کرتے ہیں تاکہ ان کے چاہنے اور ماننے والوں میں مثبت پیغام جائے۔ ایسے ہی اکیس جنوری کے روز ترک صدر رجب طیب اردوان نے انقرہ کے ایک اسپتال میں کووڈ سے بچاو کی ویکسین لگوائی اور ملک گیر ویکسینیشن کے مرحلے کا افتتاح کیا۔ ان رضاکارانہ سرگرمیوں کا مقصد عوام کے تحفظات دور کر کے ان کو عوامی و فلاحی امور کے لئے راغب کرنا مقصود ہوتا ہے۔

پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ صرف وطن عزیز ہی نہیں دنیا بھر میں پہلے کووڈ اور بعد ازاں ویکسین کو لے کر دیو مالائی رجحانات پائے گئے۔ دنیا بھر کے بیشتر عوامی فلاح کے حفاظتی اصولوں کو رد کرتے ہوئے وطن عزیز میں بھی کووڈ کو مذاق سمجھا گیا ہے۔ اب چونکہ ویکسین سامنے آئی جس کی بابت مضحکہ خیز اور خاصی پریشان کن تفصیلات منظر عام پر سرگزشت ہیں۔ کبھی ویکسین کو دجالی فوج کی ٹیسٹ ٹیوب گردانا، تو کسی نے ہم جنس پرستی میں انسانیت کا تبدل قرار دیا۔ بہت سوں کو خواتین کے چہرے کے بالوں کے بڑھنے کی فکر لاحق ہوئی۔ ایسا نہیں کہ ویکسین انسانیت کی معراج پر کھڑی انسانوں کو کرونا کے نرغے سے نکال کر دم لے رہی ہے۔

بہت سے ممالک میں ویکسین کی جلد از جلد تشکیل اور ترسیل کی خاطر غیر معیاری ویکسین کے نسخوں نے مسائل کھڑے کیے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں چند ویکسین کے نسخے یا یوں کہیے کہ مختلف کمپنیوں کی مختلف ویکسین بنائی گئی ہیں جو کہ کامیاب بھی رہی جو پیچیدگیاں کھڑی ہوئی ان مسائل میں بھی کوئی انسان نہ تو جانور بنا اور کسی عورت کی گہری مونچھیں بھی نہیں امڈی، یہاں تک کہ ابھی تک کسی نے دجال کی فوج کا بھرتی مرکز بھی نہیں کھولا۔ یہاں پر مسئلہ سماجی رویوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہرگز نہیں نہ ہی ان انسانوں کو برا محسوس کروانا جن تک مخصوص سیاسی نوعیت کی کلک فار پینی معلومات پہنچتی ہیں۔

پاکستان میں وزیراعظم نے ویکسین کے مرحلے کا افتتاح نہیں کیا مگر جمعرات کے روز ویکسین کی پہلی خوراک لے کر اس بات کا ثبوت دیا کہ کووڈ سے بچاو کی ویکسین محفوظ بھی ہے اور ضروری بھی۔

دو روز بعد ، اس خبر کا آنا کہ سینو فارم ویکسین لگوانے کے باوجود صاحب وزارت عظمی کو کرونا وائرس تشخیص ہوا ہے کسی طوفاں سے کم نہ تھا۔ یہاں حکومت اور کابینہ کے کسی فرد کو اس بات کی فکر نہیں تھی کہ جناب وزیراعظم کو جان لیوا مرض لاحق ہوا ہے، یقین کریں عوام کو بھی نہیں ہے۔ ہر طرف جس بحث کی ابتدا ہوئی ہے وہ ویکسین کے ذود اثر نہ ہونے اور خطرناک ہونے کی ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں وباوں، ادویات اور حفاظتی تدابیر کو دشمن کی سازش یا قہر الہی کے طور پر سمجھا جاتا ہو، جہاں کووڈ ویکسین کو لے کر سیر ہو کر غلط معلومات کی ترسیل روز کا معمول ہو، جس وبا کے باعث تیرہ ہزار سے زائد شہری جاں کھو چکے ہوں وہاں ویکسین لگوانے کے فوراً بعد حکومت کے سربراہ سے منسلک ایسی خبر کا وزارت صحت سے پھوٹنا کسی وبا کے پھوٹنے سے کم نہ تھا۔

عوامی اور قومی مفاد صرف دفاعی امور تک محدود نہیں ہوا کرتا جس کی حساس معلومات کو پنہاں رکھنا ذمہ دارانہ اور اور عقلمندانہ عمل تصور ہوتا ہے۔ جب دنیا میں ایک وبا نے اٹھارہ لاکھ سے زائد زندگیاں نگل لی ہوں، عالمی معیشت کی ابتری سے لاکھوں انسانوں کی نوکریاں ختم اور معاشرے میں افراتفری کی آگ پھیلی ہو۔ ایسی وبا کہ لوگوں نے پیاروں کو جلایا، پھونک پھونک کر قدم رکھ کر دفنایا ہو، وہاں ایسی حساس معلومات کو چھپانا قومی مفاد اور حب الوطنی کے زمرے میں آتا ہے۔

تعجب ہے کہ حکومت نے فقط ہمدردی اور کچھ شہرت خریدنے کی خاطر ایسا احمقانہ قدم اٹھایا۔ ملک کے قومی مفاد میں وزیراعظم اپنے اصولوں کے برخلاف سیکیورٹی پروٹوکول کے ساتھ سفر کرتے ہیں تو کیا ملک کے وسیع تر حفظ عامہ کے مفاد میں خاموش رہنا مشکل تھا؟ صورتحال کو واضح کرنے کی آرزو میں اب حکومت کتنے ہی ماہرین کو بیچ میں کھڑا کرے، جو بات عوام کے دل و دماغ میں رچ گئی ہے وہ بمشکل اپنی جگہ چھوڑے گی۔

ایک ایسا ملک جس کی بڑی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہو یا سائنسی امور کو سرے سے سمجھنے سے قاصر ہو، جن عوام کو فقط روٹی کمانے میں مصروف رکھا ہو، وہاں حکومتی نمائندگان، ماہرین یا سماجی کارکنان اب کتنی مرضی انگریزی میں کووڈ ویکسین کی اکیس دن کی تکنیک بتاتے رہیں وہ عام شہری کو نہ سمجھ آئے گی اور امکان یہی ہے کہ اس تک پہنچ بھی نہ پائے۔ وزیراعظم کی شہرت کم سہی مگر ذمہ دار حکومتوں، عاقل رہنماؤں اور سمجھدار مشیروں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ شہرت بٹورنے کے لئے احمقانہ فیصلے لیں اور عوامی صحت کو خطرے میں جھونکیں۔

یقیناً جلسوں میں خود کو محمد علی جناح سے تشبیہ دینے اور محمد علی جناح ہونے میں فرق ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments