\’سی پیک\’ کسی فلسفے کا حصہ بن پائے گا؟


\"\"پاکستان کی سیاسی قیادت یا ریاستی قیادت کچھ بھی کہ لیجئے، نے بہرحال بعض ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے لگتا ہے کہ شاید وہ اس ملک کو واقعی کسی خوش حالی کی جانب لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بہت زیادہ ناقدانہ لہجہ اپنائے بغیر، سیاسی جماعتوں کے مابین حالیہ پیش رفت، عسکری قیادت کی تبدیلی، مختلف امور میں اعلیٰ عدالت کی کارروائی اور سی پیک کے تناظر میں نظر آتی حکومتی اور فوجی سنجیدگی کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک شک اور بے یقینی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اِس پیرائے میں مثال اور استدلال ہم یوں پییش کر سکتے ہیں۔ وہ اقدامات جو یہ اشارہ دیتے ہیں کہ ہم نے واقعتاً راہ پکڑ لی ہے پہلے ان کا جائزہ لیتے ہیں اور اسی جائزے میں ہمارا شک یا بے چینی شاید آپ پر بھی آشکار ہوسکے۔ لیکن ہمارا محور سی پیک رہے گا۔

سب سے پہلا اور میری دانست میں بہت حد تک اہم نقطہ یہ ہے کہ ہم ایک سول حکومت کی موجودگی میں سالِ نو میں قدم رکھ رہے ہیں، ذرا یاد کیجیے دسمبر دوہزار پندرہ سے سولہ میں داخل ہوتے وقت ہمارے یقین کو دھرنے کی دھمکی، ایکسٹنشن کی دیمک اور لائن آف کنٹرول پر اشتعال نے ڈگمگا دیا تھا۔ کم ازکم میرے یقین کو تو ضرور۔

دوسرا اشارہ ہے \’ سی پیک\’۔ کہنے کو تو یہ ایک اقتصادی راہداری ہے، ایک پکی سٹرک ہے جس پہ ٹرک چلتے ہوئے آئیں گے اور گوادر کی بندرگاہ تک جائیں گے اور پھر وہاں سے دوسری دنیاؤں میں۔ لیکن کیا یہ \’سی پیک\’ اور اس کے ساتھ منسلک اقتصادی و معاشی بندوبست اس قابل ہوگا کہ ایک پاکستانی شہری جس نے اپنے ذہن و دل میں اپنی ریاست کا جو \’سیکیورٹی منظرنامہ\’ بنایا ہوا ہے اور جس کی آبیاری تقدیس کے پانی سے کی اور پھر اِسے ایمانِ خالص کی دھوپ میں سینچا ہے۔۔ اور اس خاص منظرنامے کی وجہ سے اس نے پچھلے سات عشروں سے اپنی علاقائی حقیقت اور اپنے وراثتی کلچر تک کو قربان کر دیا ہے، کیا \’ سی پیک\’ سے یہ سب تبدیل ہو پائے گا کہ جو شہری مذہب اور قومیت کے اشتراک کا ہی پجاری رہا ہو، اس کے ساتھ ساتھ ہر دم ہر آن اس کو یہ بھی بتایا گیا ہو کہ کوئی ہے جو اس اشتراک میں رخنہ ڈالنے کی سازش رچا رہا ہے۔ میں \’سی پیک\’ کی معاشی توضیح سے کسی اور جانب اسی لیے آ نکلا کہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ قوم ارتقا کے سفر میں جب قیادت کے ہمنوا نہیں ہوتی تو قوم نے عین اس وقت قیادت کی انگلی کاٹی ہے جب وہ اسے چاند دکھا رہی ہوتی ہے۔ اور ستم ظریفی یہ رہی ہے کہ تاریخ نے اس المیے کا ذمہ دار قیادت ہی کو ٹھہرایا ہے۔

 مجھے لمحہِ موجود میں ایسی کوئی نشانی یا علامات نظر نہیں آتیں جو مجھے یہ بتائیں کہ اب کی بار پاکستان واقعی میں بدلنے والا ہے۔ اب کی بار خوش حالی کے خواب کے عین بیچ \’سیکیورٹی\’ اور\’ ریاست کو لاحق خطرات\’ کا جِن ڈرانے نہں آئے گا۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ریاستِ پاکستان کیا واقعی پاکستانی معاشرے کو عالمِ اسلام کا قلعہ، امت مسلمہ کا سپاہی وغیرہ وغیرہ سے نکال کر اقتصادیات، سول لبرٹیز، ہمسائے کا احترام، زندگی جیو اور جینے دو جیسی نئی جہتوں سے آشکار کروانا چاہ رہی ہے۔ تو اس کے لئے متبادل بیانئے کی تشریح کی ذمہ داری بھی ریاست ہی اٹھائے۔ اور ریاست کی نیت کو پرکھنے کی یہی کسوٹی ہوگی۔ اس سے پہلے کہ وہ لوگ، جن کے پاس موجودہ بیانئے کی سر بلندی اور حفاظت کی ذمہ داری ہے، یہ ذمہ داری کا عہد کر لیں کہ وہ اسے بدلنے نہیں دیں گے۔

اس صورت حال میں بے چینی اور پیچیدگی پھر بڑھ جائے گی۔

دوسری طرف پاکستان نے روس کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کو ازسرِنو ترتیب دیا ہے، یہ ایک اہم کوشش ہے لیکن ایک بار پھر۔۔۔ وہی سوال اٹھتا ہے کہ جہاد افغانستان کے غازی ابھی بھی وہی پرانا جام پلانے پر بضد ہیں۔ اگر ریاست نے واقعتاً یہ طے کر لیا ہے تو کیوں یہ اب بھی آنکھیں نمناک کرتے ہوئے جہاد افغانستان اور غزوہ ہند کی تعبیریں اور نشانیاں بیان کرتے ہیں۔ کیا ریاست یہ معاملہ انہی پر چھوڑنا چاہتی ہے یا آگے بڑھ کر خود اسے ترتیب دے گی۔ یہ کنفیوژن بہرحال موجود ہے۔

اسی کی دہائی میں مذہب کو بطورِ ڈھال یا ذریعہ ہم نے استعمال تو کر لیا لیکن یہ ایک نظریے کے طور پر (کسی حد تک )عسکری حلقوں سے نکل کر  سویلین نظام میں اس حد تک سرایت کرچکا ہے کہ میداں حرب سے نکل کر زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں اپنا رنگ جما چکا ہے۔ اس وقت پاکستان کا جو چہرہ دور سے دیکھنے میں نظر آتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک مذہبی انتہا پسند ریاست کا ہے۔ عین اسی نکتے کی نفی کرتے ہوئے کچھ دانشور اور عسکری امور کے ماہر تجزیہ کار پاکستان کے سیکیورٹی منظرنامے کو درست سمت میں لانے کے لیے یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ \”معاملہ جتنا گھمبیر نظر آ رہا ہے،  ویسے ہے نہیں اور ریاست جب چاہے گی اس کو نئی ڈگر پر چلا لے گی\”۔ لیکن اگر اس مفروضے کو مان بھی لیا جائے تو کیا یہ سوال پیدا نہں ہوتا کہ اس پالیسی شفٹ کے دوران جو جبر اور قیمت چکانی پڑے گی۔ وہ کون ادا کرے گا۔ اس پالیسی شفٹ کی قیمت چکانے میں کم وبیش دو سے تین نسلوں کا سکون، ان کی فراست، آسودگی، امن، تخلیق حتیٰ کہ شہری زندگی کے انتہائی عام عوامل تک قربان کرنا پڑیں گے!

لیکن اب کے بار شاید \’سی پیک\’ ایک موقع فراہم کر دے کہ ہم واقعتاً یہ پالیسی اپنائیں کہ ملک کے اندر اور باہر مذہب کے نام پر گٹھ جوڑ نہیں کریں گے۔ اقتصادی ترقی کے فلسفے کو بنیاد بنا کر ملک وقوم کی سمت متعین کرنا ایک وسیع اور مکمل فلسفہ ہے۔ ملائشیا اور موجودہ یورپ اس کی مثالیں ہیں۔ پاکستان اگر حقیقی مععنوں میں اس وسیع فلسفے کو اپنانے جارہا ہےتو اس ریاست کو ایک ماہر، مشاق اور انتہائی پیشہ ور صلاحیت کی حامل سفارت کاری کی ضرورت ہوگی، خون ریزی سے بچنے کے لئے تدبر، فہم، قوتِ فیصلہ، تاریخ سے آشنائی اور انسانی اقدار کے قریب ترین فیصلہ سازی کی قوت سے لیس ریاستی اور حکومتی مشینری درکار ہوگی۔ ورنہ وہ قوم جس کی ساری \”معاشرتی علوم\” کھیوڑہ میں نمک کی کان ہے سے آگے نہیں نکلی اور جو کائنات کی تخلیق کا محور ہونے کی سوچ رکھتی ہے، ایسی قوم مستقل ایک اتش فشاں کے دہانے پر جینا چاہتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments