اسلامی فوجی اتحاد کے اثرات اور خدشات


\"\"خبر ہے کہ جنرل راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بنایا جا رہا ہے۔ اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی سعودی عرب کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں شروع میں 34 ممالک نے شمولیت کا اعلان کیا مگر اب اس کی تعداد 39 ہو چکی ہے۔ بظاہر یہ نیٹو کی طرح کا فوجی اتحاد نظر آتا ہے جس کے مقاصد میں سر فہرست مسلم ممالک میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے۔ امریکہ اور مغربی دنیا نے اس اتحاد کو خوش آمدید کہا ہے۔

اس اتحاد کی ضرورت اور مقاصد پر شروع میں ہی ایک بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور ابھی تک دہشت گردی کی تعریف بھی نہیں کی جا سکی۔ کیا اس اتحاد میں شریک ممالک جیسے ملایشیا، افغانستان اور عراق کشمیری مسلمانوں پر بھارتی فوج کے مظالم رکوانے کے لیے فوجی مداخلت کی حمایت کریں گے؟ کیا یہ اتحاد فلسطینی مسلمانوں کے لیے اسرائیلی فوج سے جنگ کرنے کی جرات کرے گا؟ اگر مستقبل میں امریکہ، روس، چین یا سپر پاور کسی مسلم ملک پر فوج کشی کرے تو کیا یہ اتحاد ایسی صورت حال میں اس مسلم ملک کا ساتھ دے گا؟ افسوس کے ساتھ اس سچ کو ماننا پڑے گا کہ یہ اتحاد ایسی کسی بھی صورت حال میں حرکت میں نہیں آئے گا۔

تو پھر یہ اتحاد کس کے خلاف ہے؟ ذرا رکیں۔۔ اس اتحاد میں ایک اہم مسلم ملک ایران شامل نہیں ہے۔ دنیا کے 5 ممالک ایسے ہیں جن میں ٪50 سے زیادہ آبادی اہل تشیع کی ہے۔ ان میں ایران سمیت 3 ممالک ایسے ہیں جن میں حکمران بھی اہل تشیع ہیں۔ یہ تینوں ممالک اس اتحاد کا حصہ نہیں۔ باقی 2 ممالک جن میں عراق اور بحرین ہیں وہاں آبادی کی اکثریت تو اہل تشیع مگر حکمران اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ 2 ممالک اس اتحاد میں شامل ہیں۔ اس اتحاد کا واحد مقصد جو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں موجود خانہ جنگی کا خاتمہ کیا جائے۔ داعش کے علاوہ اکثریت جماعتیں اہل تشیع سے تعلق رکھتی ہیں۔ بہت سے گروپ ایسے ہیں جو اپنے ملک میں بادشاہی نظام کے خلاف لڑ رہے ہیں جس کی تازہ ترین مثال بحرین کی ہے۔ ایسے میں اس فوجی اتحاد کی کارروائی مسلم دنیا میں مزید فرقہ واریت کو جنم دے گی۔

پاکستانیوں کے لیے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کیا پالیسی اختیار کرنی چاہیے؟ سعودی عرب نے تاریخی طور پر پاکستان کی بہت مدد کی ہے۔ 1965ء کی جنگ سے لے کر 2014ء میں 1 بلین ڈالرز دینے تک سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستانی معیشت کو سہارا دیا ہے۔ ہزاروں پاکستانی سعودی عرب میں روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ دوسری طرف ایران نہ صرف پاکستان کا ہمسایہ ہے بلکہ ایسی جگہ پر واقع ہے جہاں پاکستان کے سی پیک اور گوادر کی شکل میں سینکڑوں بلین ڈالرز کے مفادات موجود ہیں۔۔ ایران اگر پاکستان میں مداخلت نہ بھی کرنا چاہے تو بھی ایران میں عدم استحکام سے پاکستان خود بخود متاثر ہو گا۔ افغانستان میں بدامنی سے خیبر پختونخوا میں جو کچھ ہوا اس کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ذولفقار علی بھٹو جیسا وزیر خارجہ مہیا ہوتا اور پاکستان اس اتحاد سے دور رہ کر بھی دونوں ممالک سے تعلقات خوشگوار رکھتا لیکن اگر حکمرانوں میں اتنی اہلیت نہیں ہے تو پھر ایران کو ترجیح دینی چاہیے کیونکہ دوست اور دشمن کبھی بھی بدلے جا سکتے ہیں مگر ہمسائے نہیں۔ یہ اور بات ہے پاکستان اور بھارت کو آج تک سمجھ نہیں آئی یا وہ سمجھنا نہیں چاہتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments