نواز شریف کا جارحانہ موقف، داخلی سیاسی بحران اور قومی سلامتی


لاہور میں یوتھ کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف اور مریم نواز نے ایک بار پھر فوج کے بارے میں تند و تیز اور تلخ لب و لہجہ اختیار کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ ملک میں سیاسی جمہوری ادارں کی بالا دستی کے بغیر ملک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ مریم نواز نے کہا کہ اب جنرل قمر جاوید باجوہ ’اپنا گھر درست کرنے‘ کی وہی بات کررہے ہیں جو نواز شریف نے بطور وزیر اعظم سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان نے بی بی سی اردو کو ایک انٹرویو میں اسی مؤقف کو دوہرایا ہے۔ انہوں نے 2018 میں کشمیر کمیٹی کی تیا رکردہ ایک رپورٹ کے حوالے سے کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’اصل مشکل یہی ہے کہ جب اس طرح کی کوئی بات حکومت یا نواز شریف کہہ دے تو ڈان لیکس بن جاتی ہیں۔ انہیں غدار قرار دیا جاتا ہے۔ یا ہمارے جیسے لوگ کہہ دیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ سویلین لوگ ہیں، یہ ایسی نازک باتیں کہاں سمجھتے ہیں‘۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ دنوں اسلام آباد میں سیکورٹی ڈائیلاگ کے نام سے منعقد ہونے والے ایک سیمنیار میں بھارت کے ساتھ دشمنی ختم کرنے، تجارت و مواصلت بحال کرنے اور جنگ کی بجائے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا ۔ اور کہا تھا کہ یہ اہداف مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے بھارت کو ہی پیش قدمی کرنی چاہئے۔

پاکستان میں آرمی چیف کی طرف سے بھارت کے ساتھ جنگی ماحول و مزاج ختم کرنے کی بات کو اہم قرار دیا جارہا ہے لیکن اسی شدت سے اب یہ سوال بھی سامنے آرہا ہے جب سول قیادت نئی دہلی کے ساتھ دوستی اور ہمسایہ ملکوں کے درمیان معاملات درست کرنے کی کوشش کرتی ہے تو اس پر فوج کی طرف سے کیوںمزاحمت دکھائی جاتی ہے۔ خاص طور سے ’ہاؤس ان آرڈر‘ کرنے والی بات اب موضوع گفتگو ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز نے اپنی تقریروں اور مولانا فضل الرحمان نے اپنے انٹرویو میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ’ کشمیر کمیٹی نے 2018 میں قومی سلامتی اور استحکام کے ضمن میں جس راستے کی نشاندہی کی تھی، اڑھائی برس کے بعد وہ فلسفہ ان کی سمجھ میں آ گیا ہے۔ اب وہ اس راستے پر آئے ہیں تو ہم انہیں مشورہ دیں گے کہ قومی مقاصد کا حصول قومی ترقی میں پوشیدہ ہے۔ لہٰذا ہمیں ترقی پر پوری توجہ مرکوز کر نی چاہیے‘۔

یوتھ کنونشن میں نواز شریف کا خطاب جارحانہ تھا۔ تاہم مولانا فضل الرحمان نے یہ نکتہ زیرکی سے بیان کیا ہے کہ اگر یہ طے کرلیا گیا ہے کہ قومی مفاد کیسے حاصل ہوسکتاہے اور اس پر کوئی بنیادی اختلاف بھی نہیں ہے تو اس معاملہ پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے۔ تاہم اس انٹریو میں مولانا نے بطور خاص یہ واضح نہیں کیا کہ وہ اس قومی ڈائیلاگ کا آغاز کرنے کی ذمہ داری کس کو سونپنا چاہتے ہیں ۔یا سیاسی تصادم کے موجودہ ماحول میں اس مکالمہ اور افہام و تفہیم کا آغاز کیوں کر ہوسکتا ہے۔ البتہ ان کا یہ کہنا تھا کہ ’ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایسے بڑے اہداف نظریاتی اور سیاسی طور پر ایک مضبوط حکومت کے ذریعے ہی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ موجودہ کمزور غیر نظریاتی حکومت میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ایسا بڑا کام کر سکے‘۔

یہ مؤقف دراصل پی ڈی ایم کے سیاسی ایجنڈے کا سرنامہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرنے سے ہی معاملات کسی بہتری کی طرف گامزن ہوسکتے ہیں۔ پاکستان جمہوری تحریک میں پیپلز پارٹی کے ساتھ پیدا ہونے والے اختلاف کے باوجود اب بھی پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں اصولی طور پر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ’متحد‘ ہیں۔ یا کم از کم ان کی اعلان کردہ پوزیشن یہی ہے۔ پیپلز پارٹی ’عدم تصادم‘ کی پالیسی اختیار کرنا چاہتی ہے اور اسمبلیوں سے استعفے دے کر کوئی ایسا سیاسی بحران پیدا نہیں کرنا چاہتی جس کے نتیجے میں جمہوریت کو نقصان پہنچے لیکن اصولی طور پر پیپلز پارٹی بھی عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی بات کرتی ہے ۔ البتہ وہ یہ مقصد عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم کی باقی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ سینیٹ میں اپوزیشن کا چئیرمین منتخب کروانے کی کوشش میں ناکامی کے بعد عمران خان کو عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے علیحدہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔

مولانا فضل الرحمان نے آج جاتی عمرہ میں مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز اور پنجاب میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز سے ملاقات کی تاکہ پاکستان جمہوری تحریک کے اتحاد میں پڑنے والی دراڑ کو پاٹنے کی کوشش کی جاسکے۔ اس ملاقات کے بعد میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز نے سینیٹ میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے ناتے اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر پیپلز پارٹی کے استحقاق کو مسترد کردیا۔ ان دونوں کا کہنا تھا کہ یہ بات اصولی طور پر پہلے ہی طے ہوچکی تھی کہ یوسف رضا گیلانی چئیرمین بننے میں کامیاب ہوں یا ناکام لیکن اپوزیشن لیڈر کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کو ہی ملے گا۔ پارٹی نے یہ مؤقف تبدیل کرنے سے انکار کیا ہے۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ ’اس طے شدہ معاملہ کو اب نہ ہی کھولا جائے تو بہتر ہے‘۔ مریم نواز کے اس دوٹوک اعلان کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اپنا امیدوار واپس نہ لینے کے فیصلہ کے بعد بھی اگر اس عہدہ کے لئے اپنا امیدوار سامنے لاتی ہے تو دونوں پارٹیوں میں بداعتمادی کی فضا میں اضافہ ہوگا۔

اس دوران مسلم لیگی لیڈر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بلاول ہاؤس کراچی میں پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی اور این اے 249 کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ بلاول بھٹو زرداری نے فوری طور سے کوئی وعدہ کرنے کی بجائے پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد کسی نتیجہ تک پہنچنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ انتخاب 29 اپریل کو ہوگا ۔ تحریک انصاف نے اس نشست پر امجد آفریدی کو ٹکٹ دیا ہے اور ان کی کامیابی کے لئے ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ نشست وفاقی وزیر فیصل واوڈا کے استعفیٰ سے خالی ہوئی ہے۔ مریم نواز کی طرف سے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کی پوزیشن سے دست بردار نہ ہونے کے اعلان کے بعد یہ عین ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی این اے 249 میں مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے گریز کرے۔ اس طرح اپوزیشن کی صفوں میں انتشار بڑھے گا۔

وسیع قومی منظر نامہ میں قومی اسمبلی کی ایک نشست یا سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بڑے معاملات نہیں ہیں لیکن ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے اختلاف وسیع تر قومی مکالمہ پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ حکومت یا اسٹبلشمنٹ کو کسی بامقصد سیاسی و سلامتی ڈائیلاگ پر مجبور کرنے کے لئے پہلے اپوزیشن کی دونوں بڑی پارٹیوں کو سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ جیسا کہ مولانا فضل الرحمان نے امید ظاہر کی ہے کہ وہ پیپلز پارٹی کو انگیج رکھنے کی کوشش کریں گے اور اسمبلیوں سے استعفوں کے سوال پر پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے فیصلہ کا انتظار کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں شامل باقی 9 جماعتوں کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرے گی۔

موجودہ سیاسی منظر نامہ میں اس بات کا امکان نہیں کہ پیپلز پارٹی استعفوں پر راضی ہوجائے گی۔ جس لانگ مارچ کو کامیاب کروانے کے لئے استعفوں کا اعلان ضروری سمجھا جارہا تھا، اسے پہلے ہی ملتوی کیا جاچکا ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ اور مولانا فضل الرحمان یہ تاثر دے رہے ہیں کہ رمضان المبارک کے بعد لانگ مارچ یا احتجاج کا سلسلہ پیپلز پارٹی کے بغیر بھی شروع ہوسکتا ہے۔ اپوزیشن اتحاد کی طرف سے پیپلز پارٹی کو نظر انداز کرنے کی یک طرفہ کوشش البتہ کسی بھی احتجاجی سیاسی تحریک کے لئے نقصان دہ ہوگی۔ اس دوران علاقائی امن و سلامتی کے لئے جنرل باجوہ کےنئے بیان اور نواز شریف کے سیاسی مؤقف میں مماثلت کی وجہ سے، یہ امکان بھی موجود ہے کہ اسٹبلشمنٹ بالآخر مسلم لیگ (ن) میں مائنس 1 یا مائنس 2 فارمولا پر اصرار کرنے کی بجائے پارٹی کی سیاسی حیثیت کو قبول کرتے ہوئے کسی قومی مفاہمانہ حکمت عملی کا اشارہ دے۔ اگرچہ نواز شریف اور مریم نواز کے تازہ بیانات کسی مفاہمت کی نشاندہی نہیں کرتے لیکن سیاسی ہتھکنڈوں میں بیشتر اوقات ’جارحیت‘ کا اظہار کسی خاص پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لئے بھی کیا جاتا ہے۔

’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے کی روشنی میں تو یہ کوئی آئیڈیل صورت حال نہیں ہوگی لیکن پاکستان میں حکمران اور اپوزیشن پارٹیاں جس طرح اسٹبلشمنٹ کے ساتھ سیاسی لین دین میں ملوث رہی ہیں، اس کی روشنی میں کسی فوری مثالی حل کا امکان بھی نہیں ہے۔ یہ سب فریقین کے لئے بہتر ہوگا کہ تخت یا تختہ کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے مسائل سے نمٹنے کا کوئی متوازن حل تلاش کیا جائے۔ یہ حل داخلی سیاسی بحران اور سرحدوں پر لاحق خطرہ کی روشنی میں یکساں طور سے ضروری ہے۔ اسٹبلشمنٹ اب تک جتنی سیاسی قوت کی حامل رہی ہے، وہ فوری طور سے اس سے مکمل طور سے دستبردار ہونے پر راضی نہیں ہوگی لیکن کسی مفاہمت کی صورت میں کوئی ایسا راستہ بہر حال تلاش کیا جاسکتا ہے جس میں فوج کے نقطہ نظر کو سننے اور اسے قومی پالیسی میں جگہ دینے کے لئے کوئی مسلمہ قومی فورم تشکیل دیا جاسکے۔ فوج کے لئے بھی یہ مناسب ہوگا کہ اپنی بات منوانے کے لئے زیر اختیار ایجنسیوں کو استعمال کرنے کی بجائے، پالیسی پر اثر انداز ہونے کے لئے اسے کوئی باقاعدہ فورم دستیاب ہو۔ تاہم ایسی صورت میں فوجی قیادت کو بہر حال ملکی سیاسی قیادت اور پارلیمنٹ کو سپیس دینا پڑے گی۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے 18 مارچ کے خطاب میں خوشحال اور پر امن جنوبی ایشیا کا جو تصور پیش کیا ہے، اس کے حصول کا پہلا قدم قومی سیاسی بحران حل کرنے کے لئے کسی متفقہ فارمولے پر اتفاق رائے ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments