پی ڈی ایم مائنس پی ڈی ایم


حکومت مخالف سیاسی کھیل کا رُخ ڈی کی دوسری جانب ہو چکا ہے۔۔۔ اب کی بار گیند حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہی گھوم رہی ہے اور حکومت بظاہر اپنی ڈی میں دفاعی پوزیشن سے ہٹ گئی ہے۔

لیکن اپوزیشن کے درمیان اچانک شروع ہونے والے کھیل کی وجوہات کیا ہیں؟

مریم کا تلخ لہجہ اور پیپلز پارٹی پر اشاریوں کنایوں سے حملے اور پھر بلاول کے تابڑ توڑ جواب۔۔۔ شاید پہلی بار پنڈی کے شیخ رشید کے لانگ مارچ نہ ہونے اور پی ڈی ایم ٹوٹنے کے دعوے درست ثابت ہوئے۔

ہوا کیا کہ پیپلز پارٹی کی مالا جپتی ن لیگ مخالف ہو گئی اور حکومتی ڈی کے قریب پہنچی اپوزیشن دفاعی پوزیشن پر کھڑی ہو گئی۔ پیپلز پارٹی بدگمانی کا شکار ہو گئی جبکہ پی پی پی کے لئے ن لیگ کی بدگمانیاں مزید بڑھ گئیں۔

تحریک عدم اعتماد کی تیاریوں میں مصروف اپوزیشن جماعتیں الگ الگ صفحے پر الگ الگ تحریر کے ساتھ لڑنے لگیں مگر کس کی تحریر کس صفحے پر کس کے لئے ہے شاید سیاسی جماعتیں اس سے بے خبر ہیں یا جاننا نہیں چاہتیں؟

ایک طرف پیپلز پارٹی ششدر کہ ن لیگ نے اچانک استعفوں کو لانگ مارچ کے ساتھ مشروط کیوں کیا تو دوسری جانب ن لیگ زرداری صاحب کے میاں صاحب کو دیے جانے والے ’طعنوں‘ پر مضطرب۔۔۔ معافی تلافی کے باوجود مریم نواز کے لانگ مارچ کے لئے کسی ’تیسرے‘ کے نہ ہونے اور میاں صاحب کے خلاف کچھ کہنے والوں کی زبانیں کھینچ لینے کے بیانات نے پیپلز پارٹی اور کسی حد تک مولانا کو بھی پی ڈی ایم کے مستقبل سے مایوس کر دیا ہے۔

پیپلز پارٹی پر ڈیل کے الزام جبکہ نواز شریف اور مریم کے لئے دروازے بند ہونے کی بازگشت نے (عوام) تبدیلی کے خواہشمندوں سے تبدیلی کی ذرا سی اُمید بھی چھین لی ہے۔

سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پر استعفوں کا دباؤ بڑھانے والی ن لیگ اور جے یو آئی ایف آخر استعفے کب دے رہے ہیں؟ اور اگر استعفے نہیں دینے تھے تو پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں پیپلز پارٹی کے کندھے پر بندوق کیوں رکھی گئی؟

زرداری صاحب نے میاں صاحب کی واپسی کی بات کیوں کی؟ کیا یہی وہ بات تھی کہ جس بات پر بات بگڑ گئی؟

پیپلز پارٹی کی دلیل ہے کہ استعفوں سے فائدہ نہیں نقصان ہو گا، ن لیگ کا موقف ہے کہ سسٹم میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ اب سوال یہ ہے کہ ن لیگ اور مولانا اگر استعفے دے بھی دیتے ہیں تو فائدہ کس کو ہو گا؟

استعفوں کی صورت تحریک انصاف ن لیگ کی سابقہ پالیسی پر عمل کرے گی یا محدود تعداد میں استعفے منظور کر کے ضمنی انتخابات کا انعقاد کرا لے گی۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کو دقّت آئے گی اور نتیجہ ڈسکہ جیسا ہو سکتا ہے۔

تاہم نواز شریف عام اور شفاف انتخابات تک استعفوں کی پالیسی پر عمل پیراہونے کااشارہ دے چکے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں جنگ سڑکوں پر ہو گی اور اس تصادم کا فائدہ کس کو ہو گا؟ کیا مقتدر قوتیں اس صورت حال میں عام انتخابات کا کہہ سکتی ہیں؟ تحریک انصاف ایسی صورت میں اسمبلیاں برخواست کر سکتی ہے؟

دوسری جانب پیپلزپارٹی پنجاب میں تحریک عدم اعتماد پر زور دیتی دکھائی دیتی ہے۔ بلاول اور حمزہ شہباز اس معاملے پر کسی حد تک ہم آہنگ ہیں البتہ ن لیگ میں مریم نواز کی پوزیشن پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے اور نوازشریف پنجاب کی حکومت کو گرانا محض وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔

شہباز اور حمزہ سمیت ن لیگ کے کئی ایک اراکین اسمبلی استعفوں کے حق میں نہیں اور نہ ہی ن لیگ استعفوں کے حتمی فیصلے پر جاتی دکھائی دے رہی ہے۔۔۔ پھر اس اتحاد کو امتحان میں کیوں ڈالا گیا؟

حزب اختلاف کا اتحاد آخری دموں پر ہے۔ پیپلز پارٹی پارلیمان کے اندر رہ کر لڑنا چاہتی ہے لیکن ن لیگ کے بغیر یہ ممکن نہیں، ن لیگ سڑکوں پر لڑنا چاہتی ہے لیکن یہ پیپلز پارٹی کے بغیر ممکن نہیں۔۔۔ سوال پھر وہی کہ اس لڑائی میں ہو گی گم۔۔۔ کس کی چونچ اور کس کی دُم؟

مریم نواز اور بلاول بھٹو دونوں لفظی گولہ باری اور بظاہر معمولی باتوں کا شکار ہوئے ہیں۔ مریم نواز نے کم وقت میں اہم مقام بنایا ہے اور بلاول نے اپنی سیاسی دور اندیشی سے اپنا لوہا منوایا ہے مگر دونوں کا تجربہ کم ہے۔۔۔ ایسے میں مولانا کو سربراہ ہوتے ہوئے اہم کردار ادا کرنا تھا مگر وہ خود ہی روٹھ بیٹھے۔

اپوزیشن کی صفوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو معاملہ فہمی سے آگے بڑھے؟

حکومت اور مقتدر حلقے اپوزیشن کے اس کھیل سے قطعی محظوظ نہیں ہو رہے کیونکہ کاروبار مملکت چلانا مشکل ہو رہا ہے۔ بجٹ سر پر ہے۔۔۔ جو بقول ماہرین معاشیات آئی ایم ایف کا بجٹ ہے، آئے روز بجلی اور روزمرہ کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔

اوپر سے کورونا کے شدید ہوتے وار معیشت کے لئے اہم امتحان بن چکے ہیں۔ حکومت ایک ایسے بحران کا شکار ہے جس کا علاج کسی طبیب کے پاس ہے اور نہ ہی کسی موکل کے پاس۔

حکومت میں شامل کئی اراکین ہوا کا رُخ بھانپ رہے ہیں، موسمی پرندے انتخابات سے قبل پرواز بھرنے کو تیار ہیں۔ گیلانی حفیظ شیخ ٹاکرے نے حکومتی کیمپ میں کاری ضرب لگائی ہے۔ ن لیگ کی ٹکٹ بھاری یا زرداری؟۔۔۔ یہ پرندے انتخابات کو قریب دیکھ رہے ہیں اور حکومتی کارکردگی سے مایوس ہیں۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے آپس کے میچ کا نقصان بھی تحریک انصاف کو ہی ہو گا۔ پنجاب میں داخل ہوتی پیپلز پارٹی ن لیگ کے لئے ہی نہیں بلکہ خود پی ٹی آئی کے لئے بھی نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ البتہ اس سارے ماحول میں تحریک انصاف تحریک لبیک کی بڑھتی سیاسی قوت کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔

سینٹ میں قائد حزب اختلاف کی دوڑ بھی دلچسپ ہے۔ اپوزیشن کے درمیان عددی جنگ برابر ہونے کی صورت چئیرمین سینٹ اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جبکہ چئیرمین سینٹ کا انتخاب بھی اعلی عدالت میں چیلنج ہو چکا ہے۔

گیلانی صاحب کی بذریعہ عدالت کامیابی کی صورت ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں اپوزیشن لیڈر کا تنازعہ بھی حل ہو جائے گا اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی سینٹ کی حد تک ایک ہی ڈی میں کھیلیں گے۔

آئندہ انتخابات سے قبل کی صف بندیوں میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی آپس کی روایتی لڑائی دونوں کی انتخابی سیاست کے لئے ضروری ہوتی چلی جا رہی ہے۔۔۔ کھیل بہرحال اب کی بار پورے میدان سے سمٹ کر ایک ہی ڈی میں داخل ہو چکا ہے جہاں سب تنہا گول کرنا چاہتے ہیں اور ریفری ’ایمپائر‘ کسی کو بھی ریڈ کارڈ دکھا سکتا ہے۔

پی ڈی ایم میں سب کچھ ہے مگر پی ڈی ایم ہی نہیں رہی، یعنی پی ڈی ایم مائنس پی ڈی ایم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).