آئیے اس سال کچھ نہ کرنے کا عہد کریں


\"\"

یہ سال بھی ختم ہو گیا۔ پچھلا بھی ہوا تھا، اگلا بھی ہو گا۔ ایک سال ختم ہوا یعنی تین سو پینسٹھ دن ختم ہوئے۔ کیا ضروری ہے کہ نئے سال کے شروع میں پچھلے برس کا جائزہ لیا جائے، یا کچھ ایسی قرارداد پیش کی جائے کہ نئے سال فلاں فلاں کام ضرور کرنے ہیں۔

ہر اگلا سانس پچھلے سانس کے مقابلے میں ایک نیا وقت ہوتا ہے۔ کون سوچتا ہے کہ اگلے سانس کے ساتھ میں نے یہ نیا ارادہ باندھنا ہے۔ تو یہ تین سو پینسٹھ دن بھی انہیں سانسوں کے آنے جانے کا مجموعی وقت سمجھ لیجیے۔ جن دوستوں کی زندگی کیلکیولیٹڈ ہو وہ ایسے حساب کرتے اچھے لگتے ہیں۔ آج یہ کام کرنا ہے، کل وہ کرنا ہے، پرسوں فلاں جگہ جانا ہے، اس سے اگلے دن فلاں صاحب کو ملنا ہے، نیا سال ہے تو حساب لگائیں گے اور باقاعدہ ٹینشن میں آ جائیں گے۔ شب برات پر مانگی جانے والی دعاؤں کی طرح باقاعدہ حساب کتاب ہو گا۔ کیا برا کیا، کیا اچھا کیا، مزید کیا کیا کرنا ہے۔ کوئی کتابوں کی فہرست بنائے گا کہ یہ پڑھنی ہیں، کوئی ٹارگٹ سیٹ کرے گا کہ نوکری میں یہ حاصل کرنا ہے، کنوارے سوچیں گے اس برس تو شادی کرنی ہی کرنی ہے، شادی شدہ سوچیں گے اب کے بار پچھلی غلطیاں نہیں کرنی، بوڑھے سوچیں گے کوئی نیک کام کرنا ہے، جوان سوچیں گے کہ اگر کچھ ایسا کیا جو سوچ رہے ہیں تو یہ بوڑھے کیا سوچیں گے۔ زندگی چلتی رہے گی۔

کیا ایک برس ایسے نہیں گزارا جا سکتا جس میں ہم گھڑی کی قید سے آزاد ہوں؟ آنکھ الارم سے نہ کھلے، کھانا مقررہ وقت پر نہ کھایا جائے، کہیں جانا ہو تو سوئیوں کی گردش کو مت دیکھا جائے، کہیں سے آنا ہو تو صرف اپنے دل کی بات سنی جائے؟ دن کو سویا جائے، رات کو جاگا جائے، شام میں ناشتہ ہو، صبح صرف چائے پی کر گزارہ کیا جائے۔ صرف ایک برس ایسا ہو جس میں کچھ نہ کرنے کا عزم کیا جائے۔ مثال کے طور پر نئے سال کا ایک آئیڈیل عہد نامہ دیکھیے؛

میں۔ اپنے آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اس سال میں کوئی کام نہیں کروں گا۔ مجھے کوئی کتاب پہلے سے سوچ کر نہیں پڑھنی۔ میرے ہاتھ جو کاغذ آئے گا میں اسے پڑھ لوں گا۔ میں سگریٹ حساب سے نہیں پیوں گا۔ میں اپنی مرضی سے سوؤں گا، اپنی مرضی سے جاگوں گا۔ اس سال گھڑی پہننا چھوڑ دوں گا۔ میں اپنا موبائل فون مستقل بند کرنے جا رہا ہوں، دوستوں سے رابطے کے لیے ایک نیا نمبر لوں گا اور جسے دل چاہے گا صرف اسے فون کروں گا، اس کے بعد اپنا نمبر پھر سے بدل لوں گا۔ جب دل چاہے گا فلمیں دیکھوں گا، جب دل کرے گا ٹی وی دیکھوں گا، باقی وقت میں گانے سنوں گا اور کتابیں پڑھوں گا۔ کوئی بھی ایسا کام جس میں کسی مالی فائدے کی امید ہو وہ صرف اتنا کروں گا جس میں اوپر لکھے گئے باقی کام آرام سے ہو سکیں۔ اگر کوئی مجھے دو بجے کہیں بلائے گا تو میں معذرت کر لوں گا، ہاں اگر کوئی کہے گا کہ بھئی جب دل چاہے آ جاؤ تو میں چلا جاؤں گا، اس وقت، جب دل چاہے گا۔ حجامت بنوانے سے اس سال مجھے معاف سمجھا جائے، اگر موڈ ہو گا تو جا کر بنوا لوں گا ورنہ کسی کے کہنے میں نہیں آؤں گا۔ روز کپڑے بدلنے کی بجائے ایک ہی نیلی جینز اور دو سفید قمیصوں میں پوری گرمیاں گزاروں گا، ہاں، نہاؤں گا روز، میلے پن کے سمجھوتے نہیں ہونے والے۔ میں روز گھر سے نکلنے کے بجائے ہفتے میں دو تین دن نکلوں گا، اور وہ بھی جب بہت بوریت ہو گی تب سوچا جائے گا۔ میں کسی ایسی سڑک پر نہیں جاؤں گا جہاں ٹریفک زیادہ ہوتا ہو یا وہ کھدی ہوئی ہو۔ لاہور کی مال روڈ اور ملتان روڈ پر جانے سے مجھے اگلے دو سال کے لیے قاصر جانئیے۔ میں اپنے آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس سال بالکل آرام سے زندگی گزاروں گا۔ کسی کے بہکاوے میں آ کر اوور ایمبیشس ہونے کی کوشش نہیں کروں گا۔ زندگی میں جو کچھ مجھے حاصل ہے اسی پر شدید مطمئن رہنے کی کوشش کروں گا اور نہ رہ سکا تو بھی اپنے آپ کو سمجھاتا رہوں گا۔ اگر یہ سال مجھے گھڑی سے نجات دلا دیتا ہے تو باقی عمر وہ ہو گی جسے تمام عمر گزارنے کا میں سوچتا چلا آیا ہوں۔ “

زندگی ایک بار ملتی ہے۔ چارلز بکوفیسکی نے کہا تھا کہ ایک بار وہ چیز ڈھونڈ لیجیے جو آپ کو پسند ہو، پھر اس سے خوب لطف اندوز ہوں، چاہے آپ مر جائیں۔ مرنا مرانا خیر دور کی بات ہے لیکن اس سال اگر صرف تھوڑا سا آرام طلب ہو لیا جائے تو حرج ہی کیا ہے۔ وہ بچے جو پڑھائی کے چکر میں مرے جا رہے ہیں انہیں اطلاع ہو کہ اگر آپ فیل بھی ہوں گے تو وہ بیل ہرگز نہیں ہلے گا جس نے دنیا کو اپنے سینگوں پر اٹھایا ہوا ہے۔ وہ عاشق جو دسمبر کی دھند میں سرد آہیں بھرتے پائے جا رہے ہیں انہیں خبر ہو کہ آپ کے محلے میں اس وقت کم و بیش پچاس دیگر لوگ بھی یہی کر رہے ہیں، انہیں ڈھونڈئیے اور مل کر روئیے، اکیلے پن سے دسراہٹ بہتر ہوتی ہے۔ وہ نوجوان جو نوکری چلے جانے کی فکر میں ہیں انہیں مژدہ ہو کہ یہ سال بھی آپ اسی باریک دھاگے سے لٹکے ہوئے گزار لیں گے اور جب نوکری جانی ہو گی تب آپ کی فکریں اسے روک نہیں سکیں گی۔ وہ ادیب / شاعر جو اس برس کوئی نئی کتاب لانے کی دوڑ دھوپ کر رہے ہیں نامعتبر ذرائع انہیں بتاتے ہیں کہ اس بار بھی کتاب بغل میں دبا کر خود ہی بانٹنی پڑے گی اور اگر بکنے والی ہوئی تو پہلا ایڈیشن آپ کا پبلشر بیس سال تک بیچتا رہے گا۔ اور وہ لوگ جو پانچ پانچ بچوں کے بعد بھی سچا پیار تلاش کر رہے ہیں انہیں مبارک ہو کہ یہ برس بھی اسی قدر نامبارک ہو گا جیسے پچھلے کئی سال کاٹے گئے ہیں۔

اے نئے سال ہم بستر میں لیٹے لیٹے اطمینان سے تمہیں خوش آمدید کہیں گے۔ تمہاری پہلی صبح دیکھنے کو مرے نہیں جا رہے، یکم جنوری کو ہم اپنی مرضی سے اٹھیں گے۔ اس برہمن کو ڈھونڈ کر اس کی چتا دوبارہ جلائیں گے جس نے کہا تھا کہ دو ہزار سولہ اچھا ہو گا۔ دو ہزار سولہ کو اگر تصویروں میں بھی دیکھیے تو شاید مشکل سے دو تصویریں ہوں جو خوش گوار کہی جا سکیں ورنہ ایلان کردی کی تصویریں، شامی باپوں کی تصویریں، ایمبولینسوں میں بیٹھے بم دھماکوں سے سہمے بچوں کی تصویریں، مرے ہوئے نوجوان وکیلوں کی تصویریں، ویگنوں پر لدے تابوتوں کی تصویریں، چترال سے اڑ کر بکھرنے والے جہاز کی تصویریں، اور نہ جانے کون کون سی تصویر دماغ میں گھومنا شروع ہو جائے گی۔ ان سب نے بھی تو سوچا ہو گا کہ نیا سال کیسے گزاریں گے؟

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments