پاکستانی کسان اپنے بچے کو کسان کیوں نہیں بنانا چاہتا؟
گرمیوں کی شدت کے دن تھے۔ گھر سے باہر منہ نکالنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ میں اپنے ددھیال سے ملنے ظفروال چلا گیا۔ لو چلتی، آنکھوں میں لالی اتر آتی۔ یہ وہ لالی تھی جو اکثر کسانوں کی آنکھوں میں رہتی ہے۔ درخت کے سائے میں پناہ مل جائے تو اور بات وگرنہ سر پر چادر رکھے، جسے پنجابی میں بالعموم ”پرنا یا صافہ“ کہا جاتا ہے، یہ کسان سارا دن اسی پرنے کو اپنی ویدر شیلڈ بنا کر دھوپ گرمی کے موسم میں اپنے کام میں مگن رہتا ہے۔ اسے نہ کسی نئے ایس ایم ایس، واٹس ایپ میسج کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی وہ جہاں کے حالات حاضرہ سے باخبر ہوتا ہے۔ امران خان، نواز شریف، پیپل پارٹی۔ اور بس کس پارٹی کی حکومت ہے، مہنگائی بڑھ گئی یا کم ہو گئی۔ اسے بس یہاں تک تجسس رہتا ہے۔ اور یہی اس کا جنرل نالج ہوتا ہے۔
میرا کزن سارا دن اپنی چند ایکڑ زمین میں مصروف رہتا۔ میں نے شام کو پوچھا کہ کون سی فصل بوئی ہے؟ اس نے بتایا کہ سبزی اگائی ہے۔ لوکی اور ٹماٹر ہیں۔ وہ رات بھی وہیں گزارتا تھا۔ ٹیوب ویل کے ایک کمرے کے سامنے چارپائی بچھا لیتا۔ رات کو ہلکی سی آہٹ ہوتی تو اٹھ بیٹھتا۔ کھانس کر اپنی موجودگی کا پتا دیتا، ٹارچ جلا کر آہٹ کی سمت دیکھتا۔ گیدڑ اور جنگلی سہہ ان کے لئے الگ عذاب ہوتیں۔ فصل تباہ کر دیتیں۔ فصل کی گوڈی کرنا، پانی دینا، سپرے کرنا اور پھر سارا دن اسے دیکھتے رہنا۔
مجال ہے اچھی سبزی گھر والوں کو دینا چاہیں۔ البتہ کوئی دوست آ گیا تو اسے کھیتوں سے سب سے اچھی سبزی توڑ کر بطور تحفہ دینا عام روایت اور رواج تھا۔ رشتے داروں کے لئے بھی یہ کھیت سبزی کی دکان تھا۔ ٹماٹر کی فصل توڑنے کا دن تھا۔ فصل تیار تھی۔ اسے منڈی لے جایا جاتا۔ کزن نے پورا دن مزدوروں کے ذریعے ٹماٹر چننے میں گزار دیا۔ شام کو سوزوکی ڈالہ بھر کر ٹماٹر منڈی کے لئے روانہ کر دیے گئے۔ اگلے روز علی الصبح اس کی بولی لگنی تھی۔
بولی کے بعد دوپہر کو وہی کزن بذریعہ بس گھر پہنچا۔ چہرہ اور بھی اترا ہوا تھا۔ دھوپ کی تپش اور جلن نہیں بلکہ یہ اندر کی تلخی تھی۔ ٹماٹر کا ریٹ بہت کم تھا۔ کرایہ نکال کر چند ہزار روپے ملے تھے۔ اتنے کم کہ خرچہ بھی پورا نہ ہو سکا تھا۔ بیج، سپرے، کھاد، ڈیزل اور مزدوروں کے پیسے بقایا تھے۔ وہ اپنے ساتھ لایا تو صرف پریشانی تھی۔ اطمینان نہیں تھا۔
میں ہمیشہ ایک بات پر حیران و پریشان ہوتا ہوں۔ کدو، ٹماٹر، مٹر، گاجر، مولی خریدنے جاؤ تو میٹرو، امتیاز یا دوسرے سپر سٹورز پر یہی سبزی عام آدمی کی قوت خرید میں نہیں ہوتی۔ عام مارکیٹوں و بازاروں میں یہی ٹماٹر اڑھائی سو روپے کلو تک بھی بکتا ہے۔ عام دنوں کبھی بھی یہ تیس چالیس روپے کلو سے کم نہیں ہوتا۔ یہی ٹماٹر منڈی میں کسان سے پانچ سے دس روپے کلو کے حساب سے خریدا جاتا ہے۔ مڈل مین، منڈی، آڑھتی اس کے ریٹ اپنی مرضی سے کنٹرول کرتے ہیں۔ دس منٹ بعد خریدا ہوا ٹرک ہزاروں، لاکھوں منافع میں بیچ دیا جاتا ہے۔ کسان کو کچھ نہیں بچتا۔ یقین مانیں وہ ان فصلوں کو اپنے بچوں کی طرح پالتا ہے۔ اپنے بچے کو بھی اچھا امرود، مالٹا، جامن اور سیب نہیں کھانے دیتا۔ اسے کارٹن، ٹوکری، ڈل یا گاڑی میں سب سے اوپرسجا کر رکھتا ہے۔
طویل عرصہ گزر گیا، جب سے سہل زندگی کے عادی ہوئے، میں کبھی ایک رات بھی اس کے ساتھ ٹیوب ویل پر نہیں رکا ہوں۔ وہاں سانپ اور بچھو ہوتے ہیں۔ وہاں مچھر اور جانور ہوتے ہیں۔ وہاں مٹی اور گرد اڑتی ہے۔ چور میرا فون اور بٹوا بھی چوری کر کے لے جا سکتا ہے۔ بہت سے دیگر خدشات مجھے ایسا نہیں کرنے دیتے ہیں۔ مگر وہ کسان وہیں کئی راتیں گزارتا ہے۔ اس کی پانی کی باری ہوتی ہے تو اسے پوری رات کھالوں سے پانی کی روانی میں حائل پتے اور گھاس پھونس کو ہٹانا ہوتا ہے۔
جونہی کوئی سانپ دیکھتا ہے تو ہاتھ میں تھامی کسی کو الٹا کرتا ہے اور اسے مار دیتا ہے۔ تربوز لگائے ہوں تو انسانوں، گیدڑوں، سہہ، سور اور موسم سے بچانا ہوتا ہے۔ ساری رات جاگ کر بارود بھر بھر کر ”پٹاس“ چلاتا ہے اور دھماکوں سے گیدڑوں کو بھگاتا ہے۔ مگر جب وہ منڈی سے واپس پلٹتا ہے تو ہاتھ ملتا ہے۔ افسردہ ہوتا ہے۔ یہ اس کی محنت سے کیے گئے مذاق کی مانند ہے۔
بھارت میں تین لاکھ کاشت کاروں نے خودکشیاں کیں تو دنیا کانپ اٹھی۔ وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ کسان کی طاقت اور ہمت ہمارے مقابلے بہت زیادہ ہے۔ برداشت تو اسے وراثت میں ملتی ہے۔ سرحدوں کے دونوں اطراف بینک قرضے، فصل کی قیمتوں پر تحفظات اور کسانوں کے مسائل ملتے جلتے ہیں۔ میں زمیندار نہیں مگر میرے ددھیال، تایا چچا سب زمیندار ہیں۔ چھوٹے کاشت کار ہیں۔ سبزی، دالیں، گندم، دھان اگاتے ہیں۔ سارا ملک میرا ہے۔ میں نے گلگت کے چٹیل پہاڑوں میں خوبانی کو سڑکوں پر کچرا بنتے دیکھا ہے۔
میں نے صوابی مردان میں اگی گوبھی کو سوزوکی، شہ زور کے کرائے کی مد میں مالک کاشتکار کو منڈی سے ہٹ جاتے یا بھاگتے بھی دیکھا ہے۔ تربوز کا ٹرک بہت چاؤ سے حافظ آباد سے گلگت لے کر گئے اور پھر اتنی کم قیمت لگی کہ مالک بھاگ گئے، یہ بھی ہوتا ہے۔ گنے کا ریٹ دس سال میں فی من نہ بڑھ سکا۔ شوگر ملز کے سامنے کھڑے ٹرالر سوکھ گئے۔ کسانوں نے گنے کی فصل کو آگ بھی لگائی کیوں کہ اس کی ملوں تک قیمت اور کرایہ ناقابل برداشت تھا۔ ایک مرتبہ میں نے لکھا تھا کہ شیخوپورہ میں مٹر دس روپے کلو تھے جب کہ یہی مٹر راولپنڈی کی سبزی کی دکان پر پینتالیس روپے کلو تھے۔ مانا کہ کرایہ اور کاروباری اخراجات بھی ہیں مگر کسان سے تو یہ پانچ روپے کلو ہی لئے گئے ہوں گے۔
کاشت کار، کسان اپنے بچے کو کسان نہیں بنانا چاہتا۔ ایگرو بیسڈ ملک، زراعت پر انحصار کرنے والا ملک غذائی قلت کا شکار ہے۔ زمین اپنی طاقت کھو بیٹھی ہے یا کھادوں، دواؤں کے استعمال سے کمزور ہو رہی ہے۔ آبادی کا ساٹھ فیصد زراعت سے وابستہ مگر کسان ہمت ہار رہا ہے۔ ہم بہت مزے سے پچاس روپے کلو کے حساب سے حاصل کیے ٹماٹروں ملا سلاد یا کھانے کھاتے ہیں مگر اس کاشت کار کے پیسے بھی پورے نہیں ہوتے۔ لاگت بھی واپس نہیں ملتی۔
میں اور آپ یہ کر سکتے ہیں کہ موسمی سبزیاں خریدیں۔ سٹور کیے گئے پھل اور سبزیاں آڑھتی کو تو فائدہ پہنچاتے ہیں مگر کسان کو اس کا حق نہیں ملتا۔ جب موسمی سبزی لی جائے گی تو کاشت کار کی فصل ان دنوں زیادہ بکے گی۔ کاشت کاروں کو جدید خطوط پر فصلیں اگانے اور ٹریڈنگ سیکھنی چاہیے۔ جس منڈی میں مانگ ہو وہاں فصل بھیجی جائے نہ کہ اس منڈی جہاں ٹرک کا کرایہ بھی پورا نہ ہو۔ چوں کہ میں زرعی ماہر نہیں ہوں، حکومت کو اس معاملے پر کسان، کاشت کار کے مسائل کو اہمیت دینی چاہیے۔ ہمارے کھیت ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ ہمیں گھر تو چاہئیں مگر ہماری آنے والی نسلوں کو کھانے کے لیے روٹی، دال کی بھی ضرورت ہے۔ عارف شفیق نے کہا تھا اور کیا ہی خوب کہا تھا:
جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی
- کھیل جیت اور تشدد - 23/08/2021
- پانی اور رشتے ایک جیسے ہیں - 10/08/2021
- یہ تو ہیجڑے ہیں - 24/06/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).