مطالعہ کیسے کیا جائے؟


اپنے نیم میکانی استمراری معمول کے مطابق میں ان دنوں بھی کئی کتابیں  ایک ساتھ پڑھ رہا ہوں۔ دنوں مہینوں سالوں کی قید کچھ خاص معنی نہیں رکھتی لیکن حرص مجھے ہر لمحہ ماپ تول  کی جانب مائل رکھتی ہے۔ کیا روز ایک کتاب؟ ہفتے میں دو، تین یا چار؟ چلو  یہ سہ ماہی ہر ہفتے ایک دو بھی ہو جائیں تو کافی ہیں۔ موسمِ گرما میں  گھرگرہستی سے فراغت ہو گی تو کسر نکال لوں گا۔ کتابوں کی الماری کے سامنے کھڑا سوچتا ہوں کہ اب کیا پڑھوں۔ ضخامت جانچتا ہوں۔ کیا یہ (’’مردم دیدہ‘‘ از چراغ حسن حسرت) ابھی ایک نشست میں ختم ہو جائے گی؟ اٹھا لیتا ہوں۔۔۔کیا ضرورت ہے ابھی ختم کرنے کی۔ ۔۔ یہ ہلکا پھلکا متن تو گاڑی میں رکھ چھوڑتا ہوں۔ یونیورسٹی کے سفر میں ٹریفک بلاک ہوا تو ایک دو خاکے ختم کر لوں گا۔ ابھی یکسوئی میسر ہے۔ شام کی چائے کے ساتھ  یہ ناٹک (’’کرسیاں’’ (The Chairs) از یوجین آئیونیسکو) پڑھ لیتا ہوں۔ دو سال سے خرید رکھا ہے۔ شکر ہے اس کی باری بھی آ ہی گئی۔ رات کے لئے دو کتابیں  سرہانے میز پر علیحدہ رکھی ہیں۔ قاری استمراری کے لئے کسی متن کی عرصے بعد  یا کسی وجہ سے فوراً دہرائی بھی کسی لطف سے کم نہیں۔ یوں اگر آج شب موڈ کی مناسبت سے  پہلے پڑھے ہوئے کامیو کے مضامین (The Myth of Sisyphus and Other Essays) اٹھا ئے ہیں تو کل شب ہاسر آرنلڈ کی چار جلدوں پر مشتمل ’’سوشل ہسٹری آف آرٹ‘‘ کی پہلی جلد کی باری آ جائے گی۔ خالص آرٹ کی راہ پر ہمیشہ سست رفتاری سے ہی سفر کیا ہے سو چھ ماہ میں چاروں جلدیں ختم کرنے کا ارادہ ہے۔ دو روز قبل  شام کو برادرم جمشید اقبال نے پیغام بھیجا کہ فوراً ڈیوڈ بوہم کو پڑھ ڈالوں۔ اسی شام آرڈر کر دیا۔  کل  صبح ہی کتاب (On Dialogue) آن پہنچی۔ کل شام یونیورسٹی میں طلباء کا پرچہ تھا سو کلاس میں ربع اول ختم ہوا،  آج دفتری اوقات میں کچھ  فراغت کی ساعتیں ہاتھ آئیں تو نصفِ اول  تمام ہوا۔ رات کسی وقت آنکھ کھل  گئی اور نیند  نہ آئی تو دو چار صفحات مزید پڑھ لئے جائیں گے۔

بغور دیکھئے تو قاری استمراری کی تمام تر زندگی سلسلۂ زمان کے بیچ میں موجود خلا تلاش کرنے اور اگر موجود نہ ہوں تو انہیں تخلیق کرنے سے عبارت ہے۔ رہ گیا انٹرنیٹ کے جہانِ برق میں موجود متن پر ہاتھ صاف کرنے کا معاملہ تو وہ حسبِ توفیق ہے۔ فون پر  کسی مختصر مضمون کے لئے اے ٹی ایم مشین کی قطار تو کسی طویل عبارت خوانی کے لئے کوئی سڑک پر بند اشارہ، ختم نہ ہوا تو محفوظ کر چھوڑئیے کہ رفع حاجت کے اوقات  تو قطعی  ہیں، علاوہ اس کے وہ خوش قسمت ساعتیں ظنی ہیں جب بیگم  کی دن بھر کی روداد پر ہوں ہاں کرتے ہوئے اچانک ان کے میکے سے فون آ جائے۔ اور ہاں اب تو سردیاں ہیں، گرم پانی  بھی گیزر سے نل تک  تقریباً پانچ منٹ  میں سفر کرتا ہے سو وہ پانچ منٹ نہایت قیمتی ہیں کہ نئی کتابوں پر ایک دو  تبصراتی بلاگ تو تیزی سے پڑھے جا ہی سکتے ہیں۔

قاری استقراری منزل کا تصور باندھے بغیر سفر شروع نہیں کرتا۔ یہاں راہ کا انتخاب  منزل  کے تصور کے بعد اگلا منطقی مرحلہ ہے۔ قاری استمراری کے  منطقی انجام کے بارے کچھ  بھی کہنا بے معنی ہے۔ منزل کا امکانی  تصور بھی اس کے  مسلسل سفر کے لئے موت کی خبر ہے۔ ادب برائے ادب، ادب برائے اصلاح، فلاں نظریہ بمقابلہ فلاں تصور، یہ سب بحثیں صریح مطالعاتی تناظر میں حتمیت سے آزاد ہو جاتی ہیں،  یعنی  خود بخود ضمنی ٹھہرتی ہیں کیوں کہ کسی نہ کسی طرح لذت کو متناہی گردانتی ہیں۔ استمرار راہوں میں تعدد و تنوع  کا تقاضا کرتا ہے، ہر نئی راہ پر کئی منظر منتظر ہیں، ہر منظر مختلف تناظر سے اپنے رنگ بدلتا ہے۔ راہِ ادب ہے تو  ہر کرداراپنا ایک تناظر رکھتا ہے، ناول کسی  پہاڑ کی طرح ہے، افسانہ تیز بہتی چھوٹی سی ندی، غزل کانوں میں رس گھولتا  مدھر جھرنا اور نظم  کسی سرنگ میں دورسے قریب ہوتی کوئی ننھی سی روشنی۔ فلسفہ، سماجیات، سائنس، تاریخ ، غرض ہر راہ پر سفر کے اپنے تقاضے ہیں اور گو  ہر مسافر ہر راہ پر  لمبے سفر کے لئے  زادِ راہ نہیں رکھتا لیکن اپنے اندر سفر کی شدید خواہش ضرور پاتاہے۔ وہ جانتا ہے کہ وہ  فلاں متن کو چھوئے گا، محسوس کرے گا، اور آگے  بڑھ جائے گا، کوئی متن اس کے قدم جکڑ لے گا تو کوئی اسے پاس پھٹکنے بھی نہیں دے گا۔

استمرار صرف اور صرف مسرت، لذت اور تسکین  ہے۔ یہاں یاسیت، حسرت، ندامت اور دکھ  کی کوئی جگہ نہیں۔ منٹو اور شرلاک ہومز کی ساری کہانیاں نہیں پڑھیں تو کیا ہوا، حتی الوسع دونوں جہانوں کی سیر تو کی ہے۔ کیا ہوا جو پرؤسٹ اور موبی ڈِک ایک دہائی سے الماری میں منتظر ہیں، ان کوچُھوا تو ہے، ورق گردانی تو کی ہے، ان کے بارے  میں طویل مضامین تو پڑھ رکھے ہیں۔ کیا ہوا کہ جو ’’تنقیدِ عقلِ محض‘‘، ’’داس کیپٹل‘‘ اور ہیگل کی مظہریات کا مطالعہ اب تک نہ کر سکے، کم از کم  نظریات کے مرتبان میں ہاتھ ڈال کر انگلیاں تو چاٹی ہیں۔ استقرار محبت و الفت ہے، متن کے قریب ہونے کے آرزو ہے، لاحاصل کی حسرت، کبھی نہ پا سکنے کی یاسیت و ندامت ہے۔ لاچاری و انکاری جبلی کمزوری ہے، ان جان زمینوں کا خوف ہے، چندھیائی آنکھوں کو بند کر لینے کی مجبوری ہے، متن کو محبوب مان کر آغوش میں لینے کی بجائے طاقت ور حریف مان کر پنجہ آزمائی سے فرار ہے۔

تو صاحبو سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ یہاں قاری متن کو نہیں بلکہ متن قاری کو چنُتا ہے، گھات لگائے اس لمحے کے انتظار میں رہتا ہے جب وہ قاری  پر نظرِ التفات  ڈالے گا اوراسے فوراً اپنی جانب کھینچ لے گا۔ مطالعے کا سوال بہت پیچیدہ ہے۔ جواب محض اس پیچیدگی کا اظہار۔ فیصلہ آپ پر ہے۔ ہم پر اپنے کُتب خواں قبیلے کا قرض تھا جو آج اتار دیا۔

عاصم بخشی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عاصم بخشی

عاصم بخشی انجینئرنگ کی تعلیم و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ادبی تراجم اور کتب بینی ان کے سنجیدہ مشاغل ہیں۔

aasembakhshi has 79 posts and counting.See all posts by aasembakhshi

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments