صحافی اجے کمار للوانی کا خون بھی رائیگاں جائے گا؟


صحافیوں کے لئے نویں نمبر پر خطرناک ملک قرار دیے جانے والی مملکت میں ایک اور صحافی کو قتل کر دیا گیا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے نجی اردو اخبار سے وابستہ 31 برس کے اجے کمار للوانی کو سکھر میں ایک دکان کے اندر بیٹھے قتل کیا گیا، پولیس تفتیش کاروں کی ٹیم تشکیل دی جا چکی لیکن تادم تحریر ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی، پاکستان صحافت کے حوالے سے دنیا کے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے، بالخصوص علاقائی اخبارات کے عامل کارکنان کو آزادنہ رپورٹنگ کرنے میں کئی طرح کے دباؤ برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ گو کہ ابھی تک واضح تو نہیں کہ صحافی کو کن وجوہ پر زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے یا پھر ماضی میں ملنے والی دھمکیاں وجہ بنیں۔

ماضی پر نظر دوڑائیں تو عیاں ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو جرائم کی نشان دہی کرنے اور پیشہ وارانہ خدمات کی انجام دہی کے دوران قتل کیا گیا، بعض ملزمان کو پولیس نے گرفتار بھی کیا، لیکن بدقسمتی سے صحافیوں کی زندگی سے کھیلنے والے ملزمان کو شواہد کی کمزوری (دانستہ یا غیر دانستہ) و ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے باعث سزائیں نہیں مل سکی۔ کچھ تو کھلے عام صحافیوں کو چیلنج کرتے نظر آئے، لیکن انہیں قانون کے کہٹرے میں لانا جوئے شیر لانے کے مترادف قرار پاتا ہے۔ بڑے میڈیا ہاؤسز بھی اپنے کارکنان کو وہ تحفظ دینے میں ناکام رہتے ہیں جو ان کے لئے شب و روز اپنی زندگی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ یہ دید و شنید ہے کہ دھمکیاں ملنے کے بعد اپنی مدد آپ کے تحت ہی خود حفاظتی انتظامات کرنے پڑتے ہیں۔

علاقائی صحافتی اداروں سے وابستہ افراد کو تو تنخواہیں ہی نہیں ملتی، کسی بھی شخصیت کا بیان یا تصویر لے کر اخبار کے کونے کدرے میں شائع کروا کے اپنے گھر کا راشن چلانا بڑا کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ کہ تمام علاقائی یا بڑے صحافی ایسا نہیں کرتے ہوں گے لیکن میرے مشاہدے میں بیشتر ایسے صحافی ہیں جنہیں رزق کی تلاش کے لئے مجبوراً یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے، ادارے بھی ایک طرح سے مجبور ہوتے ہیں کہ انہیں وہ وسائل مہیا نہیں کر پاتے کہ وہ اپنے ملازمین کی تنخواہوں، طبی سہولیات اور تحفظ کے لئے مناسب اقدامات کر سکیں۔ اجے کمار للوانی بھی کچھ ایسی ہی مجبوریوں کا شکار ہوئے ہوں گے۔

اجے کمار للوانی

بڑھتی مہنگائی و عدم برداشت نے صحافیوں کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے۔ اجے کمار للوانی کی تفتیش کا ممکنہ نتیجہ سب جانتے ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ صرف چھ برسوں 2013 سے 2019 تک 33 صحافیوں کو قتل کر دیا، لیکن کسی ایک مجرم کو بھی سزا نہیں ملی، کچھ ملزمان ابھی تک گرفتار بھی نہیں ہوئے۔ واضح رہے کہ پرتشدد کارروائیوں کا سب سے بڑا نشانہ پرنٹ میڈیا کے صحافی بنتے ہیں۔ ان کے لئے آزادنہ رپورٹنگ میں غیر جانبدارنہ کردار ادا کرنا ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔

ولی خان بابر قتل کیس میں گرفتار ملزمان حیرت انگیز طور پر تمام الزامات سے بری ہو گئے، انصاف منہ دیکھتا رہ گیا کہ کیا یہ واقعی بے قصور تھے یا پھر پولیس کی ناقص تفتیش قصور وار ہے؟ مقتول صحافی اجے کمار للوانی جیسے ان گنت صحافی ہیں جنہیں بیشتر نہیں جانتے، لیکن وہ اخبارات کا پیٹ بھرنے کے لئے خطرات سے گزرتے ہیں، انہیں حکومتی سطح پر تحفظ و اداروں کی جانب سے نظر انداز کیا جانا قابل افسوس ہے۔

اجے کمار للوانی کے قتل کے محرکات کو جلد سامنے لایا جائے، تفتیشی اداروں کو سست روی سے گریز کرتے ہوئے حقیقت کو سامنے لانے میں تاخیر سے گریز کرنا چاہیے، اس سے شواہد کمزور ہو جاتے ہیں اور ملزمان کو براہ راست فائدہ پہنچتا ہے، جب تک ملزمان کو بلا امتیاز نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا، نیز صحافیوں کو تحفظ و سوشل سیکورٹی نہیں دی جائے گی، ریاست کے اس اہم ستون کو گرانے کی کوششیں جاری رہیں گی، اور یہ  ملک و قوم کے حق میں بہتر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments