اسٹیٹ بینک اور ریاستی خود مختاری



اسٹیٹ بینک کو ریاست کا بینک کہا جائے تو غلط نہ ہو گا لیکن حکومت پاکستان نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے حوالے سے ایک قانون متعارف کروایا ہے.

ایک بل پیش کیا گیا ہے جس کے تحت اسٹیٹ بینک کو ریاست کی ماتحتی سے نکال کر کسی مالیاتی ادارے کے ماتحت کیا جائے گا ۔ اس عمل کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خود مختار ی کے ساتھ منسوب کیا جا رہا ہے۔ یہ بات آج سے نہیں بلکہ 2014 سے جب وزیرخزانہ اسحاق ڈار صاحب تھے تب سے چل رہی ہے اور اسحاق ڈار صاحب نے بھی اس کے لیے آئی ایم ایف کو خط لکھے اور بتایا کہ ہم یہ ترمیم لانا چاہ رہے ہیں تاکہ ہم گورنر کے انتخاب کو سیاست سے علیحدہ کر دیں اور اچھی پرفارمنس دکھا سکے اور بھی کچھ اصلاحات اسے ضمن میں شامل تھیں۔

دنیا میں بہت سے ممالک میں سینٹرل بینک خودمختار ہیں۔ لیکن ایک بحث یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک پاکستان کے قانون سے بالاتر ہو گا۔ اس پر قانون کا کوئی اطلاق نہیں ہو گا۔ اسٹیٹ بینک کا بنیادی کام افراط زر کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اب اسٹیٹ بینک کو وزارت خزانہ کی ماتحتی سے نکال کر آئی ایم ایف کی ماتحتی میں دیا جا رہا ہے۔

وزارت خزانہ کے جو نمائندے بورڈز میں بیٹھتے تھے ان کو ہٹا دیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کا بنیادی مقصد مالیاتی اداروں کے قرضے واپس کرنا ہے اور آپ کے پاس جو بھی پیسہ ہو گا اس سے سب سے پہلے قرضوں کی ادائیگی کی جائے گی۔ اور اسٹیٹ بینک کے گورنر کو احتساب کے عمل سے استثناء حاصل ہو گا۔ اب جو اسٹیٹ بینک کا گورنر آئے گا،  وہ چاہے آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک سے آئے ، وہ تین سال کی بجائے پانچ سال عہدے پر رہے گا، وہ اپنی مرضی سے حکومت چلائے گے اور اس کے بتائے ہوئے تین ناموں میں سے ایک کو ڈپٹی گورنر بنایا جائے گا۔

کسی بھی ناگہانی صورت میں ریاست نئے نوٹ نہیں چھپوا سکے گی۔ اس سے پہلے جس طرح فیٹف کے جو بل تھے اگر ان میں کچھ ترامیم کیے بغیر ان کو مان لیا جاتا تو بین الاقوامی تفتیشی ادارے کسی بھی پاکستانی کو اٹھا کر لے جا سکتے تھے لیکن اس میں ترامیم کر کے ممکن بنایا گیا کہ ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ اگر من و عن مان لیا جاتا تو پاکستان کی خودمختاری پر دھبہ لگ سکتا تھا اور اس طرح ہی اگر اب حکومت اپنے ہاتھ باندھنے جا رہی ہے اور اپنی مالی خود مختاری کو ختم کرنے جا رہی ہے تو اسے اسٹیٹ بینک کو کم از کم اس حد تک تو بالکل بھی خودمختار نہیں کرنا چاہیے کہ کسی مشکل وقت میں بھی ریاست اس میں مداخلت نہ کر سکے۔

اب ایسی صورتحال میں اس بل کو پاس ہونے سے روکنے کے لیے اپوزیشن کو استعفوں کی رٹ کو ختم کر کے پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ اسٹیٹ بینک کو پاکستان میں آزاد کرنے کی بجائے پاکستان سے آزاد کرنے سے روکنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments