کپتان کی بیٹنگ اور امپائر کا نوبال


کہتے ہیں کہ ایک بار ممبئی انڈیا میں کرکٹ کا چیئریٹی میچ ہو رہا تھا۔ چیئرمیٹی میچ میں اس وقت کے سٹار سنیل گواسکر کو بھی بیٹنگ کے لیے مدعو کیا گیا۔ سنیل گواسکر کے پرستاروں سے کرکٹ اسٹیڈیم کچھاکچھ بھرا ہوا تھا۔ سنیل گواسکر بیٹنگ کے لیے آیا تو باولنگ کسی کلب کے نوجوان کو دی گئی۔ نوجوان نے جب یہ دیکھا کہ سنیل گواسکر کو باولنگ کا موقع مل رہا ہے تو اس نے پوری جان ماری اور پہلی ہی بال میں سنیل گواسکر کی وکٹ اڑا کے رکھ دی۔ ایمپائر نے فوراً کہا نوبال۔ باولرنے دوبارہ سٹارٹ لیا اور پہلے سے بھی زیادہ زور سے بال کرائی اور اس بار بھی سنیل گواسکر کی وکٹ اڑا دی۔ اسیٹیڈیم میں شور مچ گیا کہ سنیل گواسکر ایک نوجوان باولر سے دوسری بار آؤٹ ہو گیا۔ اس بال پر بھی ایمپائر نے ہاتھ کھڑا کیا اور کہا نو بال۔

اب جب باولر تیسری بار بال کرنے کے لیے روانہ ہوا تو میچ کا آرگنائزر دوڑتا ہوا باولر کے قریب آیا اور اس سے کہا کہ آرام سے باولنگ کراو تماشائی تمہاری باولنگ نہیں سنیل گواسکر کی بیٹنگ دیکھنے آئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سنیل گواسکر نے شاندار بلے بازی کی اور گراؤنڈ کے چاروں طرف چوکے اور چھکے لگائے۔ جہاں پر اس طرح کے میچ فکس ہوں وہاں کسی باولر کی محنت کام نہیں آتی اگر کوئی پرفارمنس دکھانے کی کوشش کرے تو اس کی ہر کوشش نوبال کے زمرے میں آتی ہے

ممبئی کے اس چیئریٹی میچ کی کیفیت ہماری سیاست پر بھی طاری ہے۔ 2018 کے عام انتخابات میں ہوم گراؤنڈ پر ہوم کراوڈ کے سامنے ایک خوفناک نفرت انگیز انتخابی مہم کے بعد کپتان کو بیٹنگ کے لیے کریز پر بھیجا گیا۔ تماشائیوں کا جوش وخروش دیدنی اور عروج پرتھا کہ بالآخر وہ دن آ ہی گیا جس کا 22 سال سے انتظار تھا۔ تماشائی پرجوش تھے کہ اب پہلی بار مزہ آئے گا جب کپتان ہر بال کو اسٹیڈیم سے باہر کی راہ دکھائے گا۔ حالات بھی کچھ اس طرح کے تھے کہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کی قیادت یا تو جیل پہنچ چکی تھی یا پھر ذہنی طور پر تیار تھی کہ آج گئے کہ کل گئے۔

ایک تجربہ کار کھلاڑی کو بظاہر کوئی چیلنج درپیش نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تماشائیوں کی آسمان کو چھوتی ہوئی توقعات درست تھیں۔ تاہم اس سارے شورشرابے میں ایک پرانے کھلاڑی نے فلور آف دی ہاؤس کہا کہ ہم کچھ نہیں کریں گے سب کچھ خود ہی ہوگا اور حکومت خود منہ کے بل گرے گی مگر دنیا کی ریت یہی ہے کہ ہارا ہوا کھلاڑی چاہے جتنا بھی تجربہ کار ہو کی کون سنتا ہے۔ سو کسی نے نہیں سنی۔

عنان اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے 8۔ 5 فیصد سست رفتار جی ڈی پی گروتھ کو بہتر کرنے کے لیے کوشش کی گئی اور اس کوشش میں پارٹی کواپنے معاشی ماہر سے ہاتھ دھونے پڑگئے۔ اور پرانی ٹیم کے معاشی ماہر کو لانا پڑگیا۔ مگر ایمپائر نے تجربہ کار کپتان کو آؤٹ نہیں ہونے دیا اور معاشی معاملات پر نوبال کہہ کر جان بچا لی۔ اس کے بعد تماشائیوں کی توقعات مزید بڑھ گئیں اور سب کی توجہ کپتان کی بیٹنگ پر مرکوز ہو گئی۔ سب منتظر کہ کب کوئی چوکا لگتا ہے کب چھکے کی صورت میں بال اسٹیڈیم سے باہر جاتی ہے۔ مگر کپتان بے چارے کو کبھی آٹا اسکینڈل تو کبھی چینی اسکینڈل کے ان سوئنگ یارکر پڑتے رہے ہر بال پر وکٹ گرتی رہی اور ایمپائر ہر بال کو نوبال کہہ کر کپتان کو بیٹنگ کا موقع دیتا رہا۔

اس بری پرفارمنس پر عوام چیخ اٹھے مگر عوام کی آواز کپتان کے حامی تماش بینوں کے شور میں دب گئی۔ ویسے بھی جہاں میچ آرگنائزر اپنا ہو ایمپائر اپنا ہو پچ خاص طور پر بیٹنگ کے لیے تیار کرائی گئی ہو اور کراوڈ بھی اپنا ہوا وہاں پر پرفارمنس کی حیثیت ثانوی رہ جاتی ہے۔ اور یہی کچھ اس فکس میچ میں ہوا۔ جی ڈی پی گروتھ آسمان سے زمین پر آئی، مہنگائی کے طوفان نے غریب عوام کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھین لیا۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ گویا عزت سادات بھی گئی۔ عوام نے دہائی دی مگر ان کی فریاد تماشائیوں کے شور میں دب گئی۔ ایسے میں ضمنی الیکشن کا وقت آیا تو پہلی بار عوام کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملا اور عوام کی حقیقی رائے کو نوبال کہہ کر رد نہیں کیا جاسکتا اوریہی کچھ ہوا ضمنی انتخابات کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ کوئی کپتان کی کوئی وکٹ سلامت نہیں رہی۔

مگر لائے گئے کھلاڑی کی حمایت کم نہیں ہوئی۔ تاہم تماشائیوں کا شور کچھ کم ہونا شروع ہو گیا ہے۔ وقت ہے کہ ریت کی طرح ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ اور آئندہ عام انتخابات کا روز حساب قریب سے قریب تر آتا جا رہا ہے۔ جمہور کی عدالت میں جزا سزا کا عمل بے رحمانہ ہوتا ہے جزا کی صورت میں تخت اور سزا کی صورت میں جیلیں اور جلاوطنیاں ہوتی ہیں۔ جس کھلاڑی نے بھی عوام کی فریاد پر کان نہیں دھرے ان کا انجام بہت تکلیف دہ ہوا ہے۔ اور اس وقت بھی عوام کی تکلیف اور فریاد ایوان اقتدار کی خوابیدہ آرام گاہوں تک نہیں پہنچ رہی لہذا انجام بھی نوشتہ دیوار ہے

اب تو کمنڑی باکس میں کپتان کی بیٹنگ کی تعریف میں سردھننے والے کمنٹیٹرز بھی مختلف تبصرے کر رہے ہیں۔ ایک ٹاک شو میں معروف تجزیہ نگار ریٹائرڈ جنرل غلام مصطفی نے اعتراف کیا کہ انہوں نے بڑی امید سے کپتان کو ووٹ دیا تھا مگر ان کی پرفارمنس سے عوام سخت مایوس ہے اور کوئی معجزہ ہی عوام کا اعتماد بحال کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق سب سیاسی جماعتوں نے مایوس کیا اب عام آدمی پارٹی کی طرح کوئی پارٹی سامنے آئے تو شاید بہتری ہو۔ جنرل صاحب جو فرمائیں سر آنکھوں پر مگر یاد رہے جس دن بال اصلی باولر یعنی جمہور کے ہاتھ لگ گئی اس دن کوئی بال نوبال نہیں ہوگی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments