پی ٹی آئی کی اپیل مسترد، ڈسکہ میں پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کا حکم برقرار


سپریم کورٹ

پاکستان کے سپریم کورٹ نے ڈسکہ میں ضمنی انتخاب کے بارے میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کی اپیل مسترد کرتے ہوئے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم برقرار رکھا ہے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے یہ درخواست این اے 75 سے حکمراں جماعت کے امیدوار علی اسجد ملہی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف دائر کی تھی۔ الیکشن کمیشن نے اس حلقے میں انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہاں دوبارہ پولنگ کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد علی اسجد ملہی کا کہنا تھا کہ اگرچہ سپریم کورٹ نے ان کی اپیل مسترد کر دی ہے کہ لیکن وہ پراعتماد ہیں کہ ڈسکہ کی عوام اس مرتبہ دگنی برتری سے ن لیگ کو ہرائے گی۔

یہ بھی پڑھیے

ڈسکہ ضمنی الیکشن: آر او نے الیکشن کمیشن کو کیا بتایا؟

وسعت اللہ خان کا کالم: ڈسکے میں جھرلو کا ڈسکو

عاصمہ شیرازی کا کالم: اب کی بار نیوٹرل امپائر؟

سہیل وڑائچ کا کالم: غیر متوقع جیت اور متوقع مشکلات

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 19 فروری کو سیالکوٹ کے حلقہ این اے 75 کے ضمنی انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے کی جانے والی سماعت کے بعد اپنے مختصر فیصلے میں ‘صاف شفاف، منصفانہ انتخاب’ نہ ہونے پر انھیں کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم دیا تھا کہ پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کروائے جائیں۔

الیکشن کمیشن میں مذکورہ حلقے میں ضمنی انتخاب کے دوران مبینہ دھاندلی کے خلاف دائر کردہ درخواست میں مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار نے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کا مطالبہ کیا تھا جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے ان 20 پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی درخواست دی تھی جن کے نتائج روکے گئے تھے۔

اس سے قبل الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں مبینہ طور پر لاپتہ 20 پریذائیڈنگ کی لوکیشن سے متعلق ریکارڈ جمع کروایا تھا۔

الیکشن

الیکشن کمیشن کے حکام نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی یعنی پی ٹی اے کے حکام سے ان پریزائیڈنگ افسران کے زیر استعمال موبائل کی لوکیشن جیو فینسنگ ریکارڈ طلب کیا تھا جو کہ بعد ازاں عدالت میں جمع کروا دیا گیا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جمع کروائی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دس پریذائیڈنگ افسران کی لوکیشن ایک مشکوک جگہ پر ٹریس ہوئی اور ان پریذائیڈنگ افسران نے ریٹرنگ افسر کے آفس پہنچنے کے لیے متبادل لمبا روٹ اختیار کیا جس سے شکوک و شہبات کو تقویت ملتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ اس معاملے کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

الیکشن کمیشن کے حکام نے پی ٹی اے حکام سے ان بیس پریڈائیڈنگ افسران کے زیر استعمال موبائل کی لوکیشن 19 فروری کی رات آٹھ بجے سے 20 فروری دن صبح سات بجے تک کی لوکیشن اور موبائل ریکارڈ طلب کیا تھا۔

اس حلقے میں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی نے مؤقف احتیار کیا کہ ان کی مخالف امیدوار نے صرف پولنگ سٹیشنز پر بےقاعدگیوں کی شکایت کی تھی جبکہ الیکشن کمشن نے پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کروانے کا حکم دے دیا۔

اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ دیہی علاقوں میں ٹرن آوٹ باون فیصد رہا جبکہ شہری علاقوں میں واقع مختلف پولنگ سٹیشنز پر فائرنگ کے نتیجے میں ٹرن آؤٹ 35 فیصد سے کم تھا۔

انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابی عمل میں رکاوٹیں منصوبے کے مطابق ڈالیں گئیں جس پر بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے تھے کہ ’الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کسی منصوبے کی بات نہیں کی۔‘

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ عدالت ان 20 پریزائیڈنگ افسران کے موبائل فون کے ریکارڈ کا جائزہ لیا، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ اپیل میں موبائل ریکارڈ یا ڈیٹا کا کس طرح جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کی امیدوار کے وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جس نے اپنی تحقیقات کیں۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جو حکم جاری کیا وہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے استعمال ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ سول انتظامیہ نے ڈسکہ میں الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کیا اور انتظامیہ کے عدم تعاون کا فائدہ حکومتی امیدوار کو ہوا۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ ’ڈسکہ میں پریزائیڈنگ افسران کو ہی اغوا کر لیا گیا اور پریزائیڈنگ افسران کا غائب ہونا سنگین بات ہے۔‘

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے20 فروری کو جو پریس ریلیز جاری کی تھی وہ سول انتظامیہ کے خلاف ایک چارج شیٹ تھی جس میں چیف سیکرٹری اور پنجاب پولیس کے سربراہ کے پریزائڈنگ افسران کے لاپتہ ہونے متعلق ان کے کردار کے بارے میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر الیکشن کمیشن متنازع پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیتا وہ بھی مناسب تھا۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ حقائق اور قانون کے مطابق ہے۔

واضح رہے کہ ریٹرننگ افسر نے قومی اسمبلی کے حقلہ این اے75 میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ہونے والے ان واقعات کے بعد حلقے کے نتائج کو روک دیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کی امیدوار نوشین افتخار کی درخواست پر سماعت کے بعد چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے پانچ ارکان نے اس حلقے میں دوبارہ ضمنی انتخابات کروانے کا حکم دیا تھا جسے بعد ازاں حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔

نوشین افتخار کی طرف سے ریٹرنگ افسر کو جو درخواست دی گئی تھی اس میں صرف ان بیس پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ انتخابات کروانے کی استدعا کی گئی تھی جس کے پریزائیڈنگ افسران اور عملہ مبینہ طور پر لاپتہ ہوا تھا۔

الیکشن کمیشن میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار اسجد ملہی کی وکالت سابق وفاقی وزیر اور سینیٹر بیرسٹر علی ظفر کر رہے تھے جبکہ سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کرتے وقت درخواست گزار نے اپنا وکیل تبدیل کر لیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp