می لارڈ۔۔۔ بیان بدلنے سے جرم ختم نہیں ہو تا


\"\"اسلام آباد میں کسی جج صاحب کے گھر میں کام کرنے والی بچی پر پہلے تشدد کی خبریں اور پھر مجسٹریٹ کے سامنے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 164کے تحت سیڑھیوں سے گر کر اپنے اوپر چاۓ گرانے والے بیان نے سارے واقعے کو ایک اتفاقی حادثے میں بدل دیا۔ جو بات پیش آئینہ ہے وہ یہ کہ جج صاحب ایک خدا ترس آدمی ہیں جس نے ایک غریب لڑکی کا علاج بھی اپنی جیب سے کروایا ہے اس طرح کی باتیں اس نیک اور شریف آدمی کے دشمنوں نے پھیلائی ہیں ، بھلائی کا زمانہ ہی نہیں رہا۔ جو بات پس آئینہ ہے، وہ صرف اس بچی کے ماں باپ جانتے ہیں یا پھر اس جج کو معلوم ہے کہ اس نے کتنی رقم کے چیک پر دستخط کئے تھے۔

وہ غریب لوگ اگر بیان نہ بدلتے تو کیا اس عدالتی نظام میں اپنا مقدمہ جیت سکتے تھے جس میں اسی کے کلاس فیلو ز، سینئرز اور جونیئرز منصب انصاف پر فائز ہوں جس کی بیگم نے ایک جھاڑو کے گم ہو جانے پر کھولتے پانی میں ایک معصوم بچی کا ہاتھ دے دیا؟ وہ کون سا وکیل ہوگا جو ان غریب لوگوں کا مقدمہ لڑنے پر آمادہ ہوگا جو اپنی پیشی رکھوانے یا بدلوانے کے لئے روز اسی جج کے پیشکار کو چاۓ پانی کا خرچہ دینے پر مجبور ہے۔ وہ کونسا پولیس افسر ہوگا جو اس جج کی پیوی سے تفتیش کرنے کی جسارت کرےگا جس کے سامنے اس کو روز سلیوٹ کرکے می لارڈ کہہ کر مخاطب کرنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی کونسا ایسا پولیس افسر ہے جس کے خلاف کوئی کیس عدالت میں نہ ہو جس میں اس کی نوکری کے چلے جانے کا خوف نہیں۔

 پچھلے دنوں ایک اور مقدمے میں ایک طالبہ کے دھوکے سے اغوا ہونے اور کسی کاروباری شخص کو ماہانہ ستر ہزار روپے میں بیچنے کے کیس میں بھی اس کے والد نے اپنی بیٹی کے بردہ فروشوں کو بے گناہ قرار دے دیا۔ اس معاشرے میں وہ دلالوں اور بردہ فروشوں کو معصوم کیسے بے گناہ قرار نہیں دیتا جس میں وہ پارلیمان سے لے کر تھانہ کچہری میں معززین کہلاتے ہوں۔ وہ باپ اگر اس کیس کو لڑے گا تو طعنے سنے گا کہ وہ کیسا بے غیرت باپ ہے جو اپنی بد چلن بیٹی کو قتل کرنے کے بجائے معززین کی عزت سے کھیل رہا ہے۔ کئی ایسے واقعات ہوتے ہیں جس میں لوگ خاموشی سے قاتلوں، چوروں، بد معاشوں اور بردہ فروشوں سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو  اس عدالتی نظام میں وہ انصاف بھی نہیں لے سکتے ہیں اور بد نام بھی ہو جاتے ہیں۔ یہاں خاموشی سے دکھ سہنے والے ہی خود کو سرخرو سمجھتے ہیں اور یہی اس معاشرے کا المیہ ہے۔

ڈاکٹر شازیہ سے ہونے والی زیادتی کس کو یاد نہیں جس نے بلوچستان کی حالیہ کشیدگی کے آ غاز کو ایک جواز فراہم کیا مگر اس کو بھی مقتدر قوتوں نے خاموشی سے پردیس سدھانے کا انتظام کیا۔  مختاراں مائی کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر اس دور کے سلطان نے کہا تھا کہ پاکستانی عورتیں مغربی ممالک کے ویزوں کے حصول کے لئے اس طرح کے الزامات اس خود لگواتی ہیں۔ کوئی ایسا طبقہ نہیں جو ایسے معاملات میں ایک چپ سو سکھ کے مصداق خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح نہیں دیتا جہاں اس کا مقابلہ اپنے سے زیادہ طاقتور سے پڑے یا زیادہ با اثر لوگوں سے۔ کچھ لوگ اگر آواز اٹھاتے ہیں یا آواز اٹھانے والوں کی مدد کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تو ان کو موم بتی مافیا، ملک و ملت کی بدنامی کا سبب بننے والے مغربی ایجنٹ ہونے کے طعنے دیے جاتے ہیں۔

اسلام آباد میں پیش آنے والے حالیہ واقعے میں اگر اس بات کو بھی سچ مانا جائے کہ اس زخمی بچی پر سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے گرم چاۓ گری ہے اور کوئی عمداً تشدد کا واقعہ پیش آیا ہی نہیں ہے تو کیا ایک نابالغ بچی سے گھریلو کام کروانا قانوناً جائز ہے؟ کیا ہمارے ملک کا قانون جس کے پاسبان وہ جج بھی ہیں جن کے گھر میں یہ واقعہ پیش آیا ہے اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ بچوں سے مشقت لی جائے اور ان کی تنخواہ ان کے والدیں کو ادا کر دی جاۓ؟ مجسٹریٹ کے سامنے بیان دلوانے سے قبل کیا اس بچی کو ایک ایسے قابل اعتماد ادارے کے حوالے نہیں کیا جانا چاہیے جہاں اس بچی کی نگہداشت کے ساتھ ساتھ اس کے اعتماد کو بھی بحال کیا جاۓ تاکہ وہ سچ بولنے کے قابل ہو؟ کیا اس کے والدین سے اس بچی کو کھیلنے، لکھنے پڑھنے کی عمر میں مشقت میں جھونکنے کے جرم میں اس کیس میں شامل تفتیش نہیں کیا جانا چاہیئے؟ کیا اس جج کو جب تک اس کیس کا فیصلہ نہ ہو معطل نہیں کیا جانا چاہیئے تا کہ وہ اس کیس پر اثر انداز نہ ہوسکیں؟

یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اور صرف اس ایک جج تک ہی محدود نہیں جس کے گھر میں یہ واقعہ پیش آیا ہے۔ ہمارے آس پاس ایسے بہت سارے لوگ ہیں جو باتیں تو انسانی حقوق کی کرتے ہیں اور ان کے اپنے گھروں میں نا بالغ بچے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم ریستورانوں میں بھی عموماً ایسے نظارے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ایک فیملی کھانا کھا رہی ہوتی ہے اور دور ایک بچی ان کے شیر خوار بچے کو گود میں اٹھاۓ بیٹھی ہوئی ہوتی ہے۔ کئی لوگ تو بچے پیدا کرنے کے بعد واپس پاکستان صرف اس لئے آجاتے ہیں کہ ا ن کو یہاں پر گھریلو ملازمین بہ آسانی دستیاب ہوتے ہیں جو ان کے بچے سنبھالتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ گھریلو کام کو بھی صنعت کا درجہ دیا جائے اور اس کے لئے قواعد وضع کئے جائیں جس میں گھریلو کام کرنے والے مزدوروں کے اوقات کار طے کئے جائیں تاکہ ان کا استحصال نہ ہو۔ کسی کم عمر بچے کو کام پر رکھنے کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دیا جاۓ۔ کام پر رکھنے کے لئے عمر کی حد کا خیال رکھا جاۓ اور گھروں میں کام کرنے والے والدین کو بھی اپنے بچوں کی تعلیم کا پابند کیا جاۓ۔ ان قواعد اور ضوابط پر عمل دراآمد کی نگرانی کی جائے اور کسی بھی قسم کی خلاف ورزی پر رپورٹ درج کروانے کے لئے ہیلپ لائن مقرر کی جائے۔

می لارڈ! ایک آخری بات آپ کے گوش گزار کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ بین الاقوامی معا ہدے اور قوانین زبانی رٹ کر صرف قانون کی ڈگری اور نوکری لینے کے لئے نہیں ہوتے بلکہ ریاست پاکستان بچوں کے حقوق پر جتنے بھی کنونشن پر دستخطی ہے وہ سب حکومت پر واجب العمل ہیں جس پر عمل درآمد کو بھی دیکھنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔ اس معصوم بچی کے بیان بدلنے سے جرم ختم نہیں ہوا ہے بلکہ اس میں اب آپ کے اپنی حیثیت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا جرم بھی شامل ہو چکا ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments