وادی سون کے سفر – پارا بیلا سے قلعہ تلاجھا تک (۲)۔
منزل کو اتنے قریب دیکھ کر ٹیم سکتے میں آ گئی سبھی خاموش کھڑے ہو کر اس کو دیکھتے رہے۔ پھر ہم آگے چلے۔ سیڑھی نما راستہ تھا جس سے گذر کر ہم اوپر پہنچے۔ تجسس اتنا تھا کہ ہم آرام کے لئے بھی نہ بیٹھے اور ادھر ادھر گھومنے لگے۔ ہر طرف تین چار فٹ اونچائی والے بے شمار کمرے تھے جہاں جگہ ہموار تھی وہاں بھی کسی نہ کسی کمرے کے آثار تھے۔ کچھ کمروں کی سلیں بالکل صاف تھیں جیسے کسی نے تین چار فٹ لمبی، ایک سے دو فٹ موٹائی والی ان سلوں کو خاص طور پر تراشا ہو۔ فی الحال تلاجھا کا ایک حصہ ہی ایکسپلور کیا جا سکا ہے دوسرا حصہ پہلے حصے سے کچھ فٹ نیچے ہے اور وہاں گھنی جھاڑیاں ہیں۔ جس کی وجہ سے سیاح اس طرف جانے سے کتراتے ہیں، ایک عام افواہ ہے کہ یہاں پر کسی جگہ خزانہ بھی دبا ہوا ہے اس لئے کئی لوگ خزانے کی تلاش میں بھی آتے رہتے ہیں ایک جگہ ہم نے بھی تازہ تازہ کھدائی دیکھی۔ اچانک ہمیں تھوڑا دور کوئی بیٹھا ہوا دکھائی دیا۔ سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اور اس کی جانب چلے وہ بہت سکون سے ہمیں اپنی طرف آتا دیکھ رہا تھا اس کے ہاتھ میں ایک ہلکی کلہاڑی تھی۔ بیس بائیس سال کا ہلکی سی جسامت کا جوان۔ جس کے کپڑوں سے لگ رہا تھا کہ ایک دو ماہ سے دھلائی نہیں کی گئی۔ اس نے اپنا نام بہادر علی بتایا اور مزید کچھ بتانے سے انکار کر دیا وہ ہم سے بالکل بھی مرعوب نہیں لگ رہا تھا اور نہایت بے نیازی سے بات کر رہا تھا۔
عدنان بھائی نے اپنا کیمرہ اس کے حوالے کر دیا اور فوٹو بنانے کا طریقہ سمجھایا اس نے نہایت اعتماد سے ہمارے فوٹو بنائے۔ اس کی گفتگو نے ہمیں تازہ دم کر دیا اس سے ہمارے ایک ساتھی نے سوال کیا کہ یہ قلعہ کس نے بنایا تھا اور کب بنایا؟ اس کا جواب تھا کہ میرے پیدا ہونے سے پہلے کسی نے بنایا تھا۔ یہ ایک شاندار جواب تھا۔ اتنا شاندار کہ ہمیں بھوک محسوس ہونے لگی۔ ہم نے ایک درخت کے سائے میں ایک ہموار چٹان تلاش کی۔ ٹیم ممبران بیٹھنے لگے۔ ٹفن کھلنے لگے سبھی ساتھی کچھ نہ کچھ کھانے کو لائے تھے وہ سب درمیان میں رکھ دیا گیا۔ ناصر ملک کے ٹفن کھولے گئے۔ سبحان اللہ، تلاجھا قلعہ میں لنچ اور پراٹھوں کے ساتھ مٹر قیمہ۔ ۔ شکریہ ملک صاحب آپ کا لنچ بہت خاص تھا۔ عدنان بھائی چکن روسٹ کروا کر لائے تھے ان کا کک بھی وصی بابے کے کک جیسا نکلا۔ نیاز اعوان نے کھانے کے بعد ایک ڈبہ نکالا اس میں وادی سون کے عوام کی سب سے پسندیدہ چیز تھی حلوہ۔ سبھی بہت شوق سے حلوہ کھایا۔ اور ہاں۔ ہم نے بہادر علی کو بھی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کیا وہ کچھ شرمانے کے بعد ہمارے ساتھ کھانا کھانے لگا۔ ہمارا جو کھانا بچ رہا تھا ہم نے وہ پیک کیا اور بہادر علی کو دے دیا جس نے کچھ دیر انکار کے بعد وہ پیک لے لیا اس کے بعد ہمارے دوستوں نے اس کی کلہاڑی لے کر تصویریں بھی بنوائیں۔ اس کے بعد کچھ دیر آرام کیا گیا اور پھر ایک بار قلعے کے کھنڈر دیکھنے نکل کھڑے ہوئے
تلاجھا قلعہ کب بنا؟ کس نے بنوایا؟ یہ کیسے اجڑا؟ اس کے بارے کوئی کچھ نہیں جانتا وادی سون کی تاریخ اس بارے بالکل خاموش ہے۔ یہ قلعہ ایک ایسی بڑی چٹان پر واقع ہے جس کے تین اطراف ہزاروں فٹ گہری کھائی ہے۔ قلعے تک رسائی کا ایک ہی تنگ رستہ ہے جس کے رستے پر جنگلی جھاڑیاں اس طرح بکھری ہوئی ہیں کہ کوئی انجان شخص آرام سے قلعے تک نہیں پہنچ سکتا۔ قلعے میں پتھر کی بڑی بڑی سلوں کو جس طرح تراشا گیا اور تقریباً دو سو سے زیادہ مکانات تعمیرکیے گئے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی قوم یا فوج کی عارضی قیام گاہ نہ تھی۔ باقاعدہ گلیاں بھی بنائی گئی تھیں۔ چٹانوں میں جس جگہ دراڑیں تھیں وہاں بڑے پتھر رکھ کر رستہ بنایا گیا تھا۔ یہ چٹان ایک گولائی میں گھومتی ہے اور چٹان کے ایک سرے سے گھوم کر دوسرے سرے تک آپ بہت آرام سے کناروں سے ہو کر گشت کر سکتے ہیں اور نیچے کی طرف دیکھ سکتے ہیں۔ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قلعہ دشمنوں کے حملے سے بچنے کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر بنایا گیا۔ کچھ ماہرین اس قلعے کی تعمیر کو چنگیز خان کے ہندوستان پر حملے سے جوڑتے ہیں۔ لیکن قلعہ تلاجھا کی تاریخ اس سے زیادہ پرانی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں سے مشرق کی جانب دیکھیں تو بھیرہ اورخوشاب کے قدیم شہر بالکل سامنے محسوس ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وسط ایشیائی حملہ آوروں سے بچنے کے لئے مقامی راجاوں نے یہ قلعہ تعمیر کرایا ہو۔ ایک اندازہ بہر حال یہی ہے کہ اس زمانے کے لوگ پتھروں کو تراش کر مکان بنانے کے فن سے پوری طرح واقف تھے۔ اور اتنی دشور گزار چٹان پر انہوں نے دو سو سے زیادہ مکان بنا کر اپنی مہارت ثابت کر دی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ قلعہ بھی زوال کا شکار ہو گیا۔ یا تو اس قلعے کو حملہ آوروں نے فتح کر لیا اور پھر وہی ہوا ہو گا جو اس زمانے میں فاتح مفتوحین کے ساتھ کرتے تھے یا پھر مقامی آبادی کو اب مزید حملوں کا خوف نہیں رہا ہو گا۔
یہ قلعہ اب بھی تحقیق کے متلاشیوں کو مزید کھوج لگانے کی دعوت دیتا ہے۔ کھنڈرات کی بھول بھلیوں میں کافی وقت گذارنے کے بعد ہم نے وہاں سے چلنے کا سوچا۔ یہاں سے اترے تو اب ہم نے ایک نئے رستے پر جانا تھا جہاں صبح والی ہائی ایس نے ہمیں لینے آنا تھا۔ کئی فرلانگ تک پھیلے وہیکڑ نامی جھاڑیوں کے اس جنگل میں سر اٹھا کر گذرنا ناممکن ہے۔ یہاں جھک کر ہی گذرنا ممکن ہے اور جب آپ جھک کر چلتے ہیں اور آپ کی کمر جواب دے جاتی ہے تب ہی یہ جنگل ختم ہوتا ہے۔ اس کے بعد مسلسل اترائی ہے موڑ مڑتی ہوئی آپ کے گھٹنوں کا امتحان لیتی ہوئی۔ سارے ٹریک کی مشقت ایک طرف اور یہ اترائی ایک طرف۔ ۔ ۔ مغرب ہو رہی تھی جب ہم بابا کچھی والا فقیر کے دربار پر پہنچے۔ ہماری گاڑی پہنچ چکی تھی اور اب ہمیں تھکاوٹ کا احساس بھی ہو چلا تھا۔ یہاں اوپر سے ایک چشمہ آتا ہے کئی ماہ سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے پانی بہت کم آ رہا تھا لیکن اتنا ضرور تھا کہ پانی کی بوتلیں بھری جا سکیں اور ہاتھ منہ دھویا جا سکے۔ ہم گاڑی میں بیٹھ کر چلے ہی تھے کہ سامنے سے موٹر سائیکل پر آتے دو افراد نے ہمیں روک لیا۔ رعب سے پوچھا کہ کہاں سے آ رہے ہو۔ بتایا کہ تلاجھا گئے تھے۔ ہمارے پوچھنے پر بتایا کہ وہ وائلڈ لائف کے ملازمین ہیں اور گاڑی کی تلاشی لینا چاہتے ہیں۔ ہمارے لیڈر نے اپنا تعارف کرایا تو ان کا جواب تھا کہ صاب مہربانی کرو۔ اور ہمیں ہمارا کام کرنے دو۔ یہی ہماری ڈیوٹی ہے۔ خیر گاڑی کا دروازہ کھولا گیا۔ اتنے میں ایک موٹر سائیکل پر سوار دو اور لوگ بھی آ گئے۔ لیڈر صاحب کا سرکاری کارڈ دکھانا اور دبکا لگانا ہمارے کام آ گیا۔ انہوں نے کمال مہربانی سے ہمیں جانے کی اجازت دے دی۔
لیڈر صاحب بہت خوش ہو گئے تھے۔ ہمیں بھی خوشی ہوئی۔ اب ایک طویل اور تھکا دینے والا سفر تھا اور ہم تھے۔ کچا رستہ، بار بار گاڑی کا نچلا حصہ کسی نہ کسی پتھر سے ٹکرا جاتا۔ بالآخر ہم مین روڈ تک پہنچ ہی گئے اب ہم نے باقی ٹیم سے الوداع ہونا تھا۔ نیاز نے اور میں نے خوشاب جانا تھا جبکہ باقی ٹیم نے کھوڑہ میں اپنی گاڑیوں کو لے کر اپنی اپنی منزل کو روانہ ہونا تھا عدنان بھائی اور محمود ملک اسلام آباد جا رہے تھے ارشد بھائی نوشہرہ، ملک محمد علی اور بلال کفری، عدنان احسن ملک اپنے ساتھیوں عرفان، نجیب اور عزیر کے ساتھ اوچھالی اور خرم ملک بھی اپنے گھر جا رہے تھے۔
ابھی ہم سڑک پر اپنی گاڑی کا انتظار کر رہے تھے کہ پیچھے سے وائلڈ لائف کے گارڈ واپس آ گئے ہمیں دیکھ کر رک گئے۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا تھا کہ آج تلاجھا پر کچھ لوگ گئے ہوئے ہیں تو اس نے جواب دیا۔ جب آپ لوگ ترڑی ویگن سے اترے تھے اور پیدل اپنا سفر شروع کیا تھا ہمیں اس وقت ہی پتا چل گیا تھا کہ کچھ لوگ ترڑی کے رستے اوپر چڑھے ہیں اور تلاجھا گئے ہیں جہاں سے وہ کچھی والا فقیر کی طرف اتریں گے تو ہم آپ کا انتظار کر رہے تھے۔ تو ہمیں ترڑی والا وہ جوان یاد آیا جو بہت تفصیل سے ہم سے ہمارا رستہ پوچھ رہا تھا۔ وادی سون کے وائلڈ لائف کے گارڈٖز کی انٹیلی جنس کمال کی ہے۔ ۔ ۔ اگر تلاجھا جانا ہوتو کھوڑہ سے پیدل جانا بہتر رہے گا۔ یہ ایک شاندار ٹریک تھا جس سے ہم سب نے بہت لطف اٹھایا ایک قدیم قلعے کے کھنڈرات دیکھتے اور اپنی آنکھوں کو بند کر کے اس پرانے زمانے کو محسوس کرنے کی کوشش کی جب یہ قلعہ پوری طرح آباد رہا ہو گا۔
- حاصل زیست۔ ایک مطالعہ - 16/05/2023
- جناح ہاؤس لاہور۔ کیا واقعی کوئی جناح ہاؤس لاہور میں بھی تھا؟ - 14/05/2023
- کیا عمران خان ایک ناکام سیاستدان ہیں؟ - 14/04/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).