حکومت، اسٹبلشمنٹ اور اپوزیشن عوام مخالف صفحے پر یکجا


پی ٹی آئی حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں سیاسی محاذ آرائی اور اقتدار کے لئے کشمکش کے ہرسو چرچے ہیں۔ حکومت کے سیاسی نروس بریک ڈاؤن کے قصوں کی سیاسی مارکیٹ میں بھرمار ہے۔ ترین گروپ کے پاور شو کے بعد حکومتی پارٹی میں گروپ بندی، انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ پارٹی اور حکومت عمران خان کی مٹھی سے ریت کی طرح آہستہ آہستہ سرک رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان، وزراء اور معاونین خصوصی کے منہ سے جھاگ اگلنے، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چیخنے، چلانے، اپوزیشن جماعتوں کے خلاف بیانات سے حکومت کی حواس باختگی کے علاوہ کیا ظاہر ہوتا ہے۔

سیاسی عدم استحکام، کمر توڑ مہنگائی، بے روزگاری، بڑھتی غربت، حکومت کی بری کارکردگی اور بری گورنس کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت عوامی مقبولیت سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ عمران خان کے کرشمے کا طلسم ٹوٹ چکا ہے اور کپتان کی عدم مقبولیت اپنے عروج پر ہے۔ سلیکٹ کرنے والے بھی حکومت کی گرتی ساکھ اور بدنامی کا بوجھ اٹھانے اور گرتی دیوار کو سہارا دینے کو تیار نظر نہیں آ رہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے میں حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھر جائے گا اور اس کا انجام کنگز پارٹی یعنی کنوینشن مسلم لیگ اور مسلم لیگ ق جیسا ہو گا۔

تحریک انصاف کی حکومت اس سال گرتی ہے یا اگلے سال مگر ڈیپ سٹیٹ نے ایک نئی کنگز پارٹی کھڑی کرنے کے لئے زور شور سے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان عوام میں اپنی کرشماتی مقبولیت کھو چکے ہیں اور حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی ان کے سیاسی کیرئیر کا سورج غروب ہو جائے گا۔

دوسری طرف اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں اختلافات اور انتشار کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں میں اختلافات کی وجہ کوئی نظریاتی، سیاسی یا عوامی مفادات کے حامل مسائل نہیں ہیں۔ حکومت کے چل چلاؤ کا یقین ہونے پر اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے درمیان سیاسی کشمکش زورں پر ہے تاکہ مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ میں زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کیا جا سکے۔ پی پی پی نے سندھ میں قدم جمائے رکھنے کے ساتھ اب پنجاب میں اپنا وجود منوانے کے لئے منصوبے بنانے شروع کر دیے ہیں۔

پی ٹی آئی کے زوال کے بعد الیکٹیبلز لوٹوں کے لئے پی پی پی اپنی پناہ گاہ فراہم کرنے کو آمادہ نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے موقع پرستوں کی فوج ظفر موج کی پی پی پی میں واپسی کی توقع بھی لگائے بیٹھی ہے۔ یعنی جمہوری اصولوں کو پس پشت ڈال کر محض اقتدار کے حصول کے لئے منفی ہتھکنڈے آزمانے سے دریغ نہیں کیا جا رہا۔ جبکہ نون لیگ نے پی پی پی پر اسٹبلشمنٹ سے ساز باز کے الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دی ہے۔ مگر اس سے یہ مراد نہیں لی جا سکتی کہ نون لیگ نے اسٹبلشمنٹ سے راہ و رسم مکمل طور پر ختم کر دی ہے اور وہ نواز شریف کا اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیہ پوری شد و مد سے جاری رکھنا چاہتی ہے۔ دراصل نون لیگ سچے جھوٹے الزامات اور سیاسی حربوں سے پی پی پی کو پنجاب میں بھرپور مزاحمت دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

پی ڈی ایم کے 26 نکاتی سیاسی پروگرام کی اہمیت سے انکار نہیں ہے۔ جس کی بنیاد پر پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں نے منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی، آئین و قانون کی حکمرانی، فری اینڈ فئیر الیکشن، سیاسی اور حکومتی معاملات سے اسٹبلشمنٹ کی دستبرداری جیسے مسائل پر آواز بلند کرنے کی ٹھانی۔ مگر اتحاد میں شامل جماعتیں اسٹبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے خاتمے اور اسٹبلشمنٹ کی پروردہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عوامی تحریک چلانے پر آمادہ نظر نہیں آتی تھیں۔

پی ڈی ایم شروع سے ہی کسی سیاسی شارٹ کٹ کی تلاش میں تھی جس سے عمران حکومت سے نجات مل سکے اور اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت کی راہیں بھی کھلی رہیں۔ ایک سیاسی شارٹ کٹ عدم اعتماد کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ کرنا۔ دوسرا شارٹ کٹ منتخب ایوانوں سے مستعفی ہو کر موجودہ سیاسی بند و بست کو زمین بوس کرنے کا منصوبہ ہے۔ مگر دونوں منصوبوں میں عوام کی طاقت پر بھروسا کرتے ہوئے عوامی تحریک کے ذریعے مقتدرہ کی ملکی سیاست پر گرفت کو چیلینج کرنے سے پرہیز کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔

پی ڈی ایم کی جماعتیں چند عوامی جلسے منعقد کر کے مقتدرہ اور حکومت پر مناسب حد تک دباؤ ڈالنے میں کامیاب تو ہو گئیں۔ مگر پی ڈی ایم نے اپنے قیام سے آج تک عوام کی اکثریت کو متحرک کرنے کے لئے شعوری کوششوں سے پرہیز کیا۔ یاد رہے عوام کو سیاسی تحریک کا متحرک حصہ بنانے کے لئے ایک ٹھوس عوام دوست معاشی پروگرام کے ذریعے غریب عوام کے مسائل حل کرنے کے عزم کا اظہار کرنا پڑتا ہے۔ مگر پی ڈی ایم نے عوام کے سامنے مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے نجات دلانے کے لئے کوئی ٹھوس پروگرام اور لائحہ پیش نہیں کیا۔

ہزاروں لاکھوں پڑھے لکھے ڈگری ہولڈر بے روزگار نوجوانوں، مستقبل میں حصول تعلیم کے بعد بے روزگار ہونے والے طالب علموں، کم آمدنی والے دہاڑی دار مزدوروں، کم تنخواہ پانے والے فیکٹری مزدوروں اور سرکاری و غیر سرکاری ملازمین کی زندگیوں میں بہتری اور فلاح لانے کا کوئی پروگرام نہیں دیا گیا۔ اسی لئے پی ڈی ایم نے طالب علموں، محنت کشوں، سرکاری و غیر سرکاری ملازمین اور دیگر عوامی طبقوں سے رابطہ کرنے کی تکلیف گوارا نہیں کی۔ دراصل ان کا اول و آخر مقصد سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے اقتدار کا حصول رہا ہے۔

مقتدرہ کی پشت پناہی سے مسلط کردہ عمران حکومت کا نیم جمہوری، نیم آمرانہ بندوبست ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے۔ نیم جمہوری اور نیم آمرانہ ہائی برڈ نظام نے عوام کو غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کے تحفوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ معیشت میں بہتری کے امکان نظر نہیں آ رہے۔ کرپشن اور احتساب کا نعرہ سیاسی انتقام میں بدل کر الٹے منہ ڈھیر ہو چکا۔ پی ڈی ایم کا سیاسی دباؤ اور نواز شریف کا اینٹی اسٹبلشمنٹ مقبول بیانیہ مقتدرہ کی قیادت کے لئے مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔

عوام ہر دن بڑھتی معاشی مشکلات کا ذمہ دار مقتدرہ کو ٹھہرا رہے ہیں۔ پی پی پی اور نون لیگ کے کھلے اختلافات، پی ڈی ایم میں مولانا فضل الرحمان کی غیر مؤثر قیادت اور مولانا کا روٹھ کر گھر بیٹھ جانا، اے این پی کے پی ڈی ایم سے علیحدہ ہونے، نواز شریف اور مریم نواز کے اچانک خاموشی اختیار کرنے نے مقتدرہ کو سکون سے نئی حکمت عملی مرتب کرنے کا وقت اور موقعہ فراہم کر دیا ہے۔ پی پی پی اور نون لیگ کے اختلافات مقتدرہ کو اپنا کھیل کھیلنے میں آسانی تو لا سکتے ہیں مگر بیرونی و اندرونی حالات کا گنجلگ دھارا مقتدرہ کے کھیل کو آسان نہیں رہنے دے گا۔

اگر حکومت بے چارگی کے عالم میں ڈگمگا رہی ہے، اپوزیشن باہمی جھگڑوں کا شکار ہے تو مقتدرہ کے لئے بھی ملک کے گمبھیر حالات کسی صورت تر نوالہ ثابت نہیں ہوں گے۔ سیاسی شطرنج پر طرح طرح کی چالیں آزمانے کے باوجود حالات کے تناظر میں مقتدرہ کے لئے ہائیبرڈ بندوبست سے دستبردار ہونے، سیاسی نظام پر اپنی گرفت ڈھیلی کرنے اور سیاسی قوتوں کے لئے مناسب جگہ چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے گا۔ مقتدرہ کو یہ سمجھنے میں شایدکچھ اور وقت چاہے کہ عوامی تائید سے محروم غیر جمہوری سیاسی بندوبست ملک کو گہری اندھی کھائی میں دھکیل دیتا ہے۔

اس دھرتی کے مالک بائیس کروڑ عوام کی خوشحالی اور ٖفلاح و بہبود، اسٹبلشمنٹ، حکومت اور اپوزیشن کی ترجیحات میں دور دور تک نظر نہیں آتی۔ عوام کی جیبوں سے حاصل شدہ ریاستی وسائل سے استحصالی طبقوں کی تجوریاں بھرنا، معاشی لوٹ کھسوٹ کرنا اور اقتدار کے مزے لوٹنا ان کی اولین ترجیح ہے۔ عوام اسٹبلشمنٹ کی الٹی سیدھی سیاسی چالوں، حکومت کی نالائقیوں اور اپوزیشن کی موقعہ پرستیوں سے بے زار ہو چکے ہیں۔ ریاستی اور سیاسی اشرافیہ کی معاشی پالیسوں نے عوام کو معاشی تنگ دستی کا شکار اور زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم کر رکھا ہے۔

مقتدرہ کے قومی سلامتی کےدعوؤں اور حکومت کے نام نہاد ریاست مدینہ کے بلند بانگ نعروں سے عوام کے پیٹ نہیں بھرنے والے، نہ ہی انہیں ان نعروں سے تعلیم اور علاج معالجہ کی سہولیات ملتی ہیں۔ اشرافیہ یہ بھول چکی ہے کہ عوامی ترقی اور فلاح و بہبود کو معاشی پالیسیوں کا مرکز بنائے بغیر ملکی ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

عوامی نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو سول و عسکری ریاستی اشرافیہ اور سیاسی اشرافیہ، سب عوام دشمن استحصالی صفحہ پر اکٹھے جمے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عوامی صفحہ جہاں پر جمہور کی حاکمیت، آئین و قانون کی بالادستی لکھی نظر آئے گی وہاں بڑے بڑے جلی حروف میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہمیں مہنگائی، بے روزگاری، غربت سے نجات دلاؤ۔ عوامی صفحہ پر یہ بھی نمایاں نظر آئے گا کہ روزگار، تعلیم اور طبی سہولیات کی فراہمی کو بنیادی انسانی حقوق تسلیم کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments