سماج کو سمجھنے کے بنیادی اصول (آخری قسط(


ہم ان اصولوں کی بات کر رہے ہیں جو معاشرے کی نفسیات سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ گزشتہ اقساط میں ہم نے دو اصولوں کا ذکر کیا تھا۔ پہلا اصول یہ تھا کہ ہر شخص اپنی ”حقیقت“ خود تشکیل دیتا ہے۔ (Construction Of reality) اور دوسرا اصول یہ کہ ہم اس معاشرے میں رہتے ہوئے ہم ایک دوسرے پہ اثر انداز ہوتے ہیں۔

اسی طرح ہم نے تین بنیادی محرکات کا بھی ذکر کیا تھا کہ جو ہمارے سماجی رویوں کے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں۔ پہلا محرک ”striving for mastery“ تھا یعنی کہ ہم کوشش کرتے ہیں اپنے اردگرد ماحول کا مکمل علم حاصل کرنے کی۔

دوسرا محرک ”seeking for connected“ کا تھا یعنی ہم ”جماعت“ میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور تیسرا محرک ”Me“ Mine ”Valuing کا تھا کہ ہم اپنی ذات اور اپنی ذات سے منسلک ہر چیز کو اہمیت دینا چاہتے ہیں اور اسے مثبت انداز سے دیکھتے ہیں۔

اس قسط میں ہم ذکر کریں گے مزید تین اصولوں کا جو ہمیں اس معاشرے میں عمل کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

اگر آپ مباحث میں حصہ لینے کے شوقین ہیں تو آپ نے ایک لفظ ضرور سنا ہو گا ”Conservative“ ۔ یہ لفظ عمومی طور پہ اس شخص کے لیے استعمال لیا جاتا ہے جو روایت پرست ہو اور اپنی بات پہ بڑی سختی سے ڈٹا رہے۔ سماجی نفسیات (Social psychology) کے مطابق یہ خصوصیت سبھی انسانوں میں موجود ہوتی ہے۔ عمومی طور پہ ہمیں اپنے نظریات بدلنے میں بہت زیادہ وقت اور کوشش درکار ہوتی ہے۔ یعنی عمومی طور پہ ہم اپنے نظریات آسانی سے نہیں بدلتے اور مسلسل انہیں اپنائے رکھتے ہیں۔

اسی اصول کو ”Conservativism Principle“ کہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ ایسا تو نہیں ہے! میں اپنے نظریات بہت جلدی تبدیل کر لیتا ہوں اگر مخالف کی دلیل مضبوط ہو تو وغیرہ وغیرہ۔ چلیں یاد کریں کہ آخری دفعہ آپ نے اپنی رائے کب تبدیل کی تھی۔

یہ اسی طرح ہے کہ لوگ اپنی پوری زندگی کسی ایک سیاسی جماعت کے زیر اثر یا اس کی سپورٹ کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔ حالانکہ انہیں کئی مواقع پہ مختلف لوگ ٹوکتے رہتے ہیں کہ اس سیاسی جماعت کے نمائندے اور رہنما بدعنوان ہیں یا نااہل ہیں لیکن لوگ اسی Conservativism کے اصول کے تحت اپنی سیاسی جماعت تبدیل نہیں کرتے۔

ہم روزانہ نجانے کتنی معلومات اپنے دماغ میں محفوظ کرتے ہیں یا کم از کم ان کو Process ضرور کرتے ہیں۔

اپنے کاروبار کے حوالے سے معلومات، خاندان میں چند دن پہلے ہوئی لڑائی کے متعلق معلومات، روز بہ روز بڑھتی مہنگائی کے متعلق سوچ اور پھر یہ سلسلہ لامتناہی ہے۔ اب دلچسپ بات یہ ہے کہ جو معلومات ہمارے دماغ میں چل رہی ہوتی ہیں ہم انہی کے مطابق اپنی زندگی میں اعمال کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا ہمارے جذبات اور ہماری سوچ پہ گہرا اثر ہوتا ہے۔ اب ہر وقت ہر طرح کی معلومات ایک ساتھ تو ہمارے دماغ میں چل نہیں سکتی۔ لہٰذا اس اصول کو ہم ”Accessibility Principle“ کہتے ہیں۔

ایک مختصر سا تجربہ آپ کو سمجھاتا ہوں تو آسانی سے بات سمجھ آ جائے گی۔ ایک عدالت میں مختلف ججوں کو ایک ہی جرم اور مجرم کی سزا کا فیصلہ سنانے سے پہلے یونہی ان سے کہا گیا کہ یہ ذرا نرد (Dice) تو پھینکیے، بھلا کیا نمبر آتا ہے۔ اب جب ججوں نے فیصلہ سنایا تو توقع کے مطابق انہوں نے اتنے ماہ کی قید سنائی جتنا نمبر انہوں نے Dice پہ دیکھا تھا۔ ہے ناں حیران کن! یعنی کہ اگر جج نے فیصلے سے پہلے نمبر ”6“ دیکھا تھا تو اس نے ”6“ ماہ کی قید کی سزا سنائی جبکہ جس جج نے ”4“ دیکھا تھا اس نے ”4“ ماہ کی۔ ایسا اسی لیے ہوا کہ فیصلہ سناتے وقت ان کے دماغ میں چند منٹ پہلے Dice پہ موجود نمبر تھا۔ Accessibility Principle اس طرح ہماری زندگی کے ہر موڑ اور ہر پہلو میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

تیسرا اور آخری اصول نہایت دلچسپ ہے اور اہم بھی ہے جس پہ بہت زیادہ تفصیل سے بات کی جا سکتی ہے۔ اگر موقع ملا تو اس پہ الگ سے مضمون بھی لکھوں گا لیکن یہاں بس اتنا سمجھ لیں کہ ہم دو Systems کے تحت کام کرتے ہیں۔ آسانی کی خاطر ماہرین ایک کو System 1 اور دوسرے کو System 2 کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہمارے روزمرہ کے زیادہ تر اعمال ہماری عادت اور معمول کا حصہ ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پہ اگر سڑک پہ اشارہ سبز ہے تو آپ بغیر سوچے سمجھے سڑک کراس کر لیں گے۔

اپنے دستخط کرنے کے لیے آپ کو بالکل بھی نہیں سوچنا پڑتا کہ آپ پنسل کس طرح پکڑیں گے۔ کون سا زاویہ استعمال کریں گے۔ انگلیوں پہ کتنا زور ڈالیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام اعمال کہ جن کو سرانجام دینے میں آپ کو ذرا بھی دقت کا سامنا نہیں ہوتا یا زیادہ توجہ طلب نہیں ہوتے، System 1 کے تحت ہوتے ہیں۔

جبکہ وہ اعمال جن میں آپ کی توجہ طلب ہوتی ہے، System 2 کے تحت سر انجام دیے جاتے ہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ آپ System 1 ہی کو استعمال کریں لیکن نتیجہ آپ کی توقع کے مطابق نہ آئے تو پھر آپ اگلی دفعہ System 2 کو استعمال کرتے ہوئے غور و فکر کے بعد وہ کام سر انجام دیں گے۔ اس طرح زیادہ اہم کام بھی ہم System 2 کے تحت غور و فکر کرنے کے بعد سرانجام دیتے ہیں۔

تو یہ تھا ہمارا موضوع جو تکمیل کو پہنچا۔ آپ ان اصولوں کو مدنظر رکھ کر معاشرے کی نفسیات کو سمجھ سکتے ہیں یا یوں کہیں کہ معاشرے کی نفسیات ان اصولوں کے مطابق کام کرتی ہے۔ آپ اپنے سوالات کمنٹ باکس میں پوچھ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments