چھتیس گڑھ میں 22 انڈین فوجیوں کی ہلاکت: کیا انڈیا میں ماؤ نواز باغیوں کی تحریک مضبوط ہو رہی ہے یا اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے؟

ٹیم بی بی سی - تیلگو سروس


ماؤ

انڈیا میں چھتیس گڑھ کے مقام پر انڈین سکیورٹی فورسز اور ماؤ نواز باغیوں کے درمیان ہونے والی خونریز جھڑپ نے کئی نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اس حملے میں انڈین فوج کے 22 اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔

کیا ان حملوں سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ انڈیا میں ماؤ تحریک مضبوط ہو رہی ہے؟ یا یہ کہ ماؤ نواز اپنے چند مخصوص علاقوں میں اپنا زور ٹوٹنے پر شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں؟

آخر سچ کیا ہے؟

اس جواب کی تلاش میں بی بی سی نے آندھرا پردیش، تلنگانہ اور چھتیس گڑھ کی ریاستوں کے سابق اور موجودہ پولیس اہلکار، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور انڈیا میں ماؤ تحریک پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں سے تفصیل میں بات کی ہے۔

ان تمام افراد نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں معلومات فراہم کی ہے۔

آپریشن ہڈما: آخر ہوا کیا؟

کئی افسران جنھیں بظاہر یہ معلوم ہے کہ یہ حملہ کیوں ہوا، کہتے ہیں کہ حکام کو پتا تھا کہ ماؤ نواز رہنما ماڈوی ہڈما اپنے ساتھیوں سمیت وہاں چھتیس گڑھ کے ایک گاؤں کے پاس جنگل میں موجود ہیں۔

دو اپریل کی شب کو پولیس اور پیرا ملڑی کی آٹھ ٹیمیں وہاں روانہ ہوئیں۔ ان میں قریب دو ہزار پولیس اہلکار شامل تھے۔ تاہم وہاں پہنچنے پر انھیں کوئی ماؤ نواز نہ ملا۔ اس پر ٹیموں نے واپس کیمپ کی طرف جانا شروع کر دیا۔

یہ بھی پڑھیے

ماڈوی ہڈما: وہ ’دیوتا‘ جس کو گرفتار کرنے کی کوشش میں 22 انڈین فوجی ہلاک ہوئے

چھتیس گڑھ میں 22 انڈین فوجیوں کی ہلاکت: سٹریٹیجک غلطی یا انٹلیجنس ناکامی؟

ماؤنوازوں کی خونریز جنگ بے معنی ہو چکی ہے

جب مختلف ٹیموں کے 400 اہلکار واپس جا رہے تھے تو انھوں نے ایک گاؤں میں رُک کر اگلی حکمت عملی سوچنے کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران ماؤ نوازوں نے ایک ٹیلے پر سے ان پر فائرنگ شروع کر دی۔

بستر

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک افسر کا کہنا تھا کہ ’ماؤ نوازوں نے ہماری سکیورٹی فورسز پر راکٹ لانچرز سے حملہ کیا جس کے بعد وہ مسلسل ہمارے جوانوں پر گولیاں برساتے رہے۔ ماؤ نوازوں نے بلٹ پروف جیکٹیں پہن رکھی تھیں۔۔۔ دونوں طرف کافی نقصان ہوا ہے۔‘

اس پولیس اہلکار کا کہنا تھا کہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار ماؤ نواز باغیوں کے پھیلائے جال میں پھنس گئے تھے۔

تاہم حکام کے مطابق اسے ’انٹیلیجنس کی ناکامی‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

’ہمارے پاس معلومات تھیں اور ہم وہاں ہڈما پر حملہ کرنے گئے تھے۔ لیکن سکیورٹی فورسز نے واپسی پر بہت کم احتیاط برتی، اسی لیے وہاں نقصان ہوا۔‘

ایک مقامی صحافی کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے ہڈما کا گاؤں بہت قریب ہے۔ ’سارا علاقہ اسے جانتا ہے۔ اسے مقامی سطح پر حمایت حاصل ہے۔ اس کے پاس پولیس پر حملہ کرنے کا واضح منصوبہ تھا کیونکہ سکیورٹی فورسز کی نقل و حرکت کی کڑی نگرانی کی جا رہی تھی۔‘

تقسیم سے قبل آندھرا پردیش ایک وقت میں ماؤ تحریک کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ مگر یہ ماضی کے مقابلے اب کمزور پڑ چکی ہے۔

ماضی میں ہونے والے متعدد پولیس مقابلوں میں تلنگانہ میں اس تحریک سے منسلک کئی مرکزی رہنما مارے گئے ہیں۔ آندھرا پردیش کی پولیس نے اس تحریک کو کمزور کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسے ’آندھرا ماڈل‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں ’گرے ہاؤنڈز‘ نامی ریاستی فورس تشکیل دی گئی جس نے مبینہ طور پر ریاستی سرحدیں عبور کیں اور اوڑیسا کے علاقوں میں ماؤ نوازوں کے خلاف آپریشن کیے۔

ماؤ

کئی ریاستوں کی سپیشل سکیورٹی فورسز حیدرآباد کے گرے ہاؤنڈ سینٹر میں ٹریننگ حاصل کرتی ہیں۔

ماؤ نواز تحریک کے خلاف گرے ہاؤنڈ سنہ 1986 میں قائم ہوئی اور اس نے بہت سی کامیاب کارروائیاں کیں۔

تلگانہ کے ایک سینیئر پولیس افسر نے حالیہ آپریشن پر کہا ہے کہ ’ہر جگہ، ہر وقت انٹیلیجنس معلومات اہم ہوتی ہے۔ انٹیلیجنس معلومات حاصل کرنے کے بعد ہم مختلف سطحوں پر اس کا جائزہ لیتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ گرے ہاؤنڈز کی طرح دیگر ریاستوں کی پولیس فورسز اس لیے کامیاب نہیں ہو سکیں کیونکہ ان کے بیچ اتنا تعاون دیکھنے میں نہیں آتا۔

’ہمارے پاس معلومات تھیں کہ ہڈما اور اس کے ساتھی علاقے میں حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ہم نے چھتیس گڑھ پولیس کو بھی ممکنہ حملے کے بارے میں بتایا تھا۔‘

حالیہ عرصے کے دوران ماؤ نوازوں کی جانب سے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس پر ایک پولیس افسر کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ ’ٹی سی او سی‘ ہے۔

گوریلا وار فیئر پر ماؤ زے تنگ کی کتاب میں ٹی سی او سی یعنی ٹیکٹیکل کاؤنٹر آفینسیو کیمپین ایک اہم حصہ ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’جب دشمن مضبوط اور آپ کمزور ہوں تو تمام طاقت جمع کر کے دشمن کے چھوٹے یونٹ پر سرپرائز حملہ کرو اور جیت جاؤ۔‘

ماؤ گوریلا وار فیئر کی اس حکمت عملی کی بھرپور حمایت کرتے تھے۔

ایک پولیس اہلکار کا بھی یہی کہنا ہے۔ ’جیسے ہم اُن پر سبقت حاصل کر رہے ہیں اور کیمپ بنا رہے ہیں اُسی طرح ماؤ نواز بھی اپنی کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں۔‘

ماؤ

یہاں اس مقام کے قریب پولیس کے چار کیمپ ہیں جو جائے وقوع سے چار یا پانچ کلومیٹر دور ہیں۔ حکام کے مطابق آئندہ دنوں میں حکومت کی طرف سے مزید کیمپوں کا قیام زیر غور ہے۔

انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ اور چھتیس گڑھ کے وزیر اعلیٰ نے بھی اپنے بیانات میں اسی معاملے پر بات کی ہے۔ دونوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز ان علاقوں میں اپنی پہنچ بڑھا رہی ہیں اور ماؤ نوازوں کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں میں کیمپ بنا کر ان پر حملے کر رہی ہیں۔

انھوں نے واضح طور پر کہا کہ فورسز کا انخلا منصوبے میں شامل نہیں اور واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ان پر حملے بڑھائے جائیں گے تاکہ ہمیشہ کے لیے حالات پر قابو پایا جا سکے۔

انڈیا میں ماؤ نوازوں کا زور کن علاقوں میں ہے؟

بی بی سی نے ماؤ تحریک کے حامیوں اور محققین سے اس کا جواب مانگا ہے۔

اپریل 2006 میں اس وقت کے انڈین وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ ’نیکسل (ماؤ نواز) تحریک اندرونی سکیورٹی کو درپیش سب سے بڑا خطرا ہے۔‘ اس دوران ملک کی کئی ریاستوں میں کسی نہ کسی صورت میں ماؤ تحریک موجود تھی۔

ماؤ نوازوں کا دعویٰ تھا کہ وہ 14 ریاستوں میں پھیل چکے تھے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( سی پی آئی) کے نام سے تشکیل کردہ ماؤ نوازوں کی جماعت نے سنہ 2007 میں اہم فیصلے کیے تھے۔

انھوں نے بعض ریاستی سرحدی علاقوں میں مزید گوریلا وار فیئر کا فیصلہ کیا تھا اور آندھرا پردیش میں دوبارہ اس تحریک کے زور جمانے کی کوشش شروع کی گئی تھی۔ مگر اس پر مختلف ریاستوں نے ملک بھر میں ماؤ نوازوں کے خلاف آپریشن شروع کر دیے تھے۔

اس کے نتیجے میں ماؤ نوازوں نے وہ علاقے کھو دیے تھے جہاں وہ مضبوط تھے۔ اسی دوران ان کی تعداد کم ہوتی رہی۔ کچھ رہنماؤں اور ساتھیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ نئی بھرتیوں میں کمی آئی اور شہری یا طلبہ کی آبادی سے بھرتیاں رُک گئیں۔ اب ان کے پاس کوئی نئی قیادت نہیں ہے۔

ایک پولیس اہکار کے مطابق ’بستر ضلع میں ان کے دو گڑھ تھے۔۔۔ حکومت اب بھی ان تک نہیں پہنچ سکی۔ حکومت سے مراد موجودہ حکومت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انگریز بھی یہاں نہیں آ سکے تھے۔ یہ علاقہ بہت اندر کر کے ہے اور یہاں کی آبادی بہت کم ہے۔‘

دوسرے علاقے میں زیادہ جنگلات نہیں اور یہ گنجان آباد ہے۔ گذشتہ 15 برسوں میں سکیورٹی فورسز کو یہاں کئی ناکامیاں اٹھانا پڑی ہیں۔

سنہ 2010 میں 76 سی آر پی ایف اہلکاروں کی موت اور سنہ 2020 میں لاک ڈاؤن سے دو روز قبل سکیورٹی فورسز کے 17 اہلکاروں کی موت، یہ دونوں واقعات ان دیہی علاقوں میں ماؤ نوازوں کی قوت کی نشاندہی کرتے ہیں۔

ماؤ

سنہ 2012 میں سکیورٹی فورسز کے ایک متنازع مقابلے میں چھ کم عمر افراد سمیت 17 لوگ مارے گئے تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق یہ 17 لوگ گاؤں میں ایک مقامی تہوار کے سلسلے میں جمع ہوئے تھے۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ایسے کوئی ٹھوس شواہد نہیں مل سکے تھے کہ مارے گئے افراد کو ماؤ نواز سمجھا جا سکے۔

ماؤ تحریک کی ایک خاتون رکن کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ دو برسوں میں پولیس نے نئے کیمپ قائم کیے ہیں، اس لیے یہ حملے ہو رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ پولیس ماؤ تحریک کے گڑھ تک پہنچنا چاہتی ہے جبکہ گوریلا جنگجو اپنے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’حکومت سرنگوں پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتی ہے اور انھیں مائننگ کمپنیوں کو بیچنا چاہتی ہے۔ قبائلی لوگ ماؤ نوازوں کی قیادت میں اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔‘

کیا مذاکرات کے دروازے بند ہو چکے ہیں؟

سی پی آئی کی خصوصی علاقائی کمیٹی نے کچھ ہفتے قبل اعلان کیا تھا کہ اگر حکومت ان کی شرائط مان لیتی ہے تو وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

چھتیس گڑھ کے وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ صرف اسی صورت میں بات چیت ہو سکتی ہے اگر باغی ہتھیار ڈال دیں۔

کئی لوگ ان مذاکرات کو اہم اور بعض انھیں غیر ضروری سمجھتے ہیں۔

ماؤ نوازوں کی جماعت کے رہنماؤں نے کئی مقامات پر کہا ہے کہ آندھرا پردیش کی تقسیم سے قبل ان سے امن مذاکرات کے بجائے انھیں نقصان پہنچایا گیا تھا۔

حکومت میں موجود لوگوں کا خیال ہے کہ مسلح جدوجہد سے ریاستی کنٹرول حاصل کرنے کا ارادہ رکھنے والی جماعت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

اس کے باوجود مختلف سطحوں پر بات چیت جاری ہے۔ سول سوسائٹی، ادبی شخصیات اور کچھ این جی اوز نے امن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔

تاریخ سے کیا سبق ملتا ہے؟

ماؤ

سنہ 1990 کی دہائی سے اب تک دنیا میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔

چین میں ماؤ تحریک کے بعد ایسی مہمات پیرو، فلپائن، نیپال اور ترکی میں بھی دیکھی گئیں۔ آج ان ملکوں میں اس قسم کی کوئی مضبوط تحریک نہیں۔

سری لنکا میں تامل جبکہ آئرش اور کردش جدوجہد یا تو مکمل طور پر ختم ہو چکی ہیں یا پھر صرف برائے نام موجود ہیں۔

پیرو میں 1992 میں اہم رہنما کی گرفتاری کے بعد ماؤ تحریک ختم ہو گئی تھی جبکہ فلپائن میں اس میں کوئی بڑی پیشرفت سامنے نہیں آ سکی تھی۔

ترکی میں حکومتی دباؤ کی وجہ سے ماؤ تحریک کو کافی نقصان ہوا تھا۔

وزیر داخلہ امت شاہ کے مطابق آخری لڑائی ماؤ نوازوں کی مدد سے ہی جیتی جائے گی۔ ایک سماجی کارکن کا اس سوال پر کہنا ہے کہ ’شاید یہ ممکن نہیں کہ ماؤ تحریک کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے۔ جب تک معاشرے میں ناانصافی یا عدم مساوات رہیں گے، یہ تحریک کسی نہ کسی سطح پر موجود رہے گی۔‘

’کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پولیس آپریشن سے اسے دبانا ٹھیک نہیں ہو گا کیونکہ تحریک میں سماجی و معاشی بنیادوں تک پہنچنا بھی ضرورت ہے۔‘

تلگانہ کے ایک پولیس اہلکار کے مطابق اس تحریک سے نمٹنے کے لیے اس کی سماجی و معاشی وجوہات تک جانا اہم ہے۔

’ماؤ تحریک کے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو کوئی ہنر سکھا کر انھیں روزگار دیا جا سکتا ہے۔۔۔ یہ انھیں انتہا پسندی کی جانب جانے سے روک سکتا ہے۔‘

ماؤ نوازوں کے سکیورٹی فورسز پر حملے سے انھیں ایک سٹریٹیجک فتح ضرور حاصل ہوئی ہے۔ لیکن آج بھی وہ انڈیا جیسے بڑے ملک میں صرف چند چھوٹے علاقوں تک محدود رسائی رکھتے ہیں۔

یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کیا وہ محض مسلح جدوجہد سے اپنی تحریک کو باقی رکھ سکیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp