ہمارا نظام تعلیم اور طلبہ


وسیع نظر وصف طالب علم پر روشنی ڈالیں تو اس کی تعریف کچھ یوں کی جائے گی کہ طالب علم وہ ہوتا ہے جس میں علم کی طلب و تڑپ ہو،  جن کا علم صرف نصابی کتابوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ حقیقی علم کے متلاشی ہونے کے ساتھ ساتھ کتابوں میں پوشیدہ خزانوں کو ڈھونڈ کر نکالتا ہے۔

ایک طالب علم کے حصول علم کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی شحصیت کو درست بنیادوں پر تعمیر کرے نہ کہ ڈگریاں۔ لیکن آج اگر ہمارے ملک میں دیکھا جائے تو طلبا نے اپنے طالب علمی کا مقصد ہی تبدیل کر دیا ہے جو کہ نصابی کتابوں کو رٹنے اور ڈگریاں حاصل کرنے تک محدود ہے ، اس میں ان کا دوش نہیں ہے بلکہ قصور ابتدائی تعلیم سے لے کر یونیورسٹی تک ہمارے اس تعلیمی نظام کا ہے جس میں علم صرف اور صرف نصابی کتابوں اور اے ایپل اور زیڈ زیرو تک محدود ہیں۔

والدین بھی لاکھوں روپے خرچ کر کے اپنے بچوں کو صرف ڈگریاں دلانے پر مسرور ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی اس کام میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں ، لاکھوں میں فیس وصول کر کے طالب علموں کو تین چار کاغذ پر مشتمل سرٹیفکٹس/ڈگریاں تھما دیتے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام بے شمار مسائل کا شکار ہے جن میں مذہبی جھگڑے، طبقاتی کشمکش، سیاسی ہنگاموں، غفلت و سرکشی کے رویوں، حرص و ہوس کی دوڑ اور دھوکہ اور فریب کے کہانیاں روزمرہ کے مسائل ہے۔

ہمارے تعلیمی نظام کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ جو کہ پاکستان کے بیشتر علاقوں میں رائج ہے وہ کیرئیر کونسلنگ کی کمی ہے۔ ہمارے زیادہ تر سکولوں اور کالجوں میں بچوں کو صرف تعلیم کے حصول کا مقصد ڈاکٹر یا انجینئر بننا بتایا جاتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بننے والی اس سوچ کا زبردست نقصان یہ ہوتا ہے کہ بچپن ہی میں ان بچوں کے سوچ و بچار کے دائرے کو محدود کر لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے نصابی تعلیم پر زیادہ توجہ سے طلبا ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گھروں میں بھی بچوں کی اس طرح تربیت کی جاتی ہے کہ ان کے علم کا مقصد فقط نوکری کے حصول سے جوڑ کر ان بچوں کے ذہنوں کو محدود کر کے ایک دائرے تک محدود کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بچہ بچپن سے ہی نوکر بننے کی سوچ اپنا کر بڑا ہوتا ہے۔

70 سال سے اسی مفلوج نظام تعلیم کو ہم طلبا نے بھی اپنی تعلیمی قابلیت کا معیار بنا رکھا ہے۔ تعلیم کے قابل ہوتے ہی ہمیں اسی مفلوج نظام تعلیم کے حوالے کر دیا جاتا ہے ، ہر سال کچھ نصابی کتب ہمارے ہاتھ میں دی جاتی ہیں جو اسکولوں میں رٹوائی جاتی ہیں اور سال کے آخر میں ایک غیر معیاری رسمی کاغذ کا پرچہ ہمارے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے جس میں اگر یادداشت نے ساتھ دیا تو رٹے رٹائے الفاظ سے پانچ چھ کاغذ بھر کر اپنی قابلیت کا ثبوت دے دیتے ہیں ۔ یہی طریقہ کار گریجویشن تک چلتا رہتا ہے حتیٰ کہ ڈگری لے کر ہم پیاسے کوے کی طرح کسی کا نوکر بننے میں نکل جاتے ہیں۔

بہت ہی کم طالب علم ہوتے ہیں جو اس مفلوج نظام تعلیم سے باہر نکل پاتے ہیں۔ اس سوچ کے ساتھ کہ وہ بنیادی چیزیں جیسے تجسس، فیصلہ ساز صلاحیت، شعوری سوچ رکھنے کی صلاحیت ڈھال سکیں۔ ان ساری چیزوں کا ہمارے نظام تعلیم میں کہیں نام و نشان تک نہیں ملتا کیونکہ اس نظام تعلیم کا تعلق تو صرف کچھ فرضی کتابیں رٹوا کر پڑے لکھے بے شعور انسان نما جانوروں کی فیکٹریاں لگانے سے ہیں۔

ان سب کے ذمہ دار ہمارے یہ حکمران بھی ہیں جن کو ہم اپنے ووٹوں سے ان ایوانوں اور قانون ساز اداروں تک پہنچاتے ہیں۔ جو دفاعی بجٹ کے لیے ہزاروں ملین تو مقرر کر سکتے ہیں لیکن نظام تعلیم پہ خرچ کرنے سے کتراتے ہیں کیونکہ ہم اس حقیقت سے آج بھی ناآشنا ہیں یا جان بوجھ کر ٹال رہے ہیں کہ اصل میں اگر کسی ملک و قوم نے دنیا میں شناخت پائی ہے تو وہ صرف و صرف علوم کے حصول اور اس کے اطلاق پر خرچ کرنے سے پائی ہیں۔

آج ہم یہ دعویٰ تو کر رہے ہیں کہ ہمارے پاس جدید اسلحہ سے لیس دفاعی قوت ہے، لیکن اگر تعلیمی قوت کا اندازہ لگایا جائے تو ہمارے پاس 21 فیصد پرائمری سکول میں پڑھنے والوں بچوں کے لیے استاد تک نہیں، 14 فیصد سکول میں پڑھنے والے بچوں کے لیے کمرے نہیں، 40 فیصد پڑھنے والے بچے بجلی کی سہولت سے محروم ہیں، 29 فیصد زیر تعلیم بچوں کے لیے سکولوں میں پینے کے لیے صاف پانی نہیں، 43 فیصد سکول جو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ان کی چار دیواری تعمیر کرنے کے لئے بجٹ نہیں۔

ورلڈ اکنامک فریم کے 2017ء کی گلوبل ہیومین کیپٹل رپورٹ کے مطابق پاکستان تعلیم کے حوالے سے 130 میں سے 125ویں نمبر پر ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام کس قدر مفلوج ہے۔ تاہم یہ اندازہ لگایا گیا ہیں کہ پاکستان میں 44 فیصد بچے جن کی عمر پانچ سے 16 سال کے درمیان ہے سکول جانے سے قاصر ہیں ۔

اگرچہ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 25۔ اے پانچ سے 16 سال کے عمر کے تمام بچوں کو ریاست کی طرف سے مفت اور لازمی تعلیم دینے کا حق دیتا ہے لیکن اب اگر پوچھا جائے کہ بچوں کو یہ حق کیوں نہیں دیا جا رہا ؟ تو ریاست قانون کے اس آرٹیکل پر پر لاجواب ہے ۔ یونیسیف کے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 22 ملین بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں جو کہ دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے ۔ یہ ہمارے ملک کے حکمرانوں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔

ایک طرف دنیا کورونا کی جنگ میں مبتلا ہے تو دوسری طرف تعلیمی اداروں کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے ۔ دنیا بھر میں 75 ملین نوجوان طلبا کی تعلیمی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہیں۔ 1.5 بلین سیکھنے والے بچے سکول سے باہر ہو گئے ہیں، اسی طرح پاکستان میں اس وبائی مرض کے آتے ہی ایک طرف تو اس وبائی مرض نے ہمارے مفلوج شدہ نظام تعلیم کو مزید خستہ حال بنا دیا جس کی وجہ سے 9 لاکھ 30 ہزار بچے سکول چھوڑ گئے۔ ان میں سے  70 فی صد بچے آٹو مکینکس اور مزدوری جبکہ 30 فی صد دینی مدارس میں چلے گئے ہیں اور یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگر اس سال بھی کورونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہوا تو مزید 10 لاکھ بچے سکول کو خیرباد کہہ دیں گے۔ تو دوسری طرف اس وبائی مرض نے ہمارے نظام تعلیم سے منسلک قانون ساز اداروں کو یہ جاننے کا موقع فراہم کیا ہے کہ ہمارے نظام میں وہ کون کون سی خامیاں ہیں جو اس کی جدیدیت میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔

‏آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے پورے تعلیمی نظام کو اس طرح تشکیل دیا جائے کہ جس سے طالب علموں میں چھپی قابلیت کو صحیح وقت پر ابھارا جا سکے جس سے نہ صرف طلبا کو ان کی قابلیت کو نکھارنے میں مدد ملے گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کو آگے پروفیشنل زندگی میں بھی آسانی ہو گی اور اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کے اس نظام کو بھی تبدیل کیا جائے جو تجربہ گاہ کی جگہ رٹاگاہ بنے ہوئے ہیں ، جہاں صرف نصابی کتب گھول کر پلائی جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments