تحریک لبیک کا احتجاج: حکومت مصالحت کے نام پر پسپائی اختیار نہ کرے


 تحریک لبیک پاکستان کے امیر سعد رضوی کی اچانک گرفتاری پر ملک بھر میں ٹریفک جام کرنے اور احتجاج کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ حالات کی پیش رفت سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ سیاسی حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس اچانک اور شدید رد عمل کا اندازہ نہیں تھا۔ متعدد شہروں میں لبیک تحریک کے ڈنڈا بردار کارکنوں نے ذبردستی ٹریفک روکا ۔ شہری زندگی کو مفلوج کرکے زور ذبردستی کے جس کلچر کا مظاہرہ کیا گیا ہے، وہ موجودہ حکومت کے علاوہ مملکت پاکستان کے لئے کسی خطرے سے کم نہیں ہے۔

یہ احتجاج بظاہر تحریک لبیک کےنوجوان امیر سعد رضوی کی گرفتاری پر شروع ہؤا ہے جنہیں لاہور میں کسی نماز جنازہ میں شرکت کے موقع پر گرفتار کیا گیا۔ ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا لیکن گرفتاری کا مقصد بظاہر 20 اپریل تک تحریک لبیک کے کسی نئے احتجاج کی تیاریوں کو روکنا تھا۔ یہ مذہبی جماعت فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کروانے کے لئے حکومت کو اس کا کیا ہؤا تحریری وعدہ یاد کروانے کے لئے از سر نو احتجاج اور دھرنے کی تیاری کررہی تھی۔ رمضان کے آغاز اور کورونا وبا کی شدید صورت حال کے باوجود ملک میں مذہبی جذبات کا وفور اس قدر شدت اختیار کرچکا ہے کہ اس پر قابو پانے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ تحریک لبیک کا آج شروع ہونے والا احتجاج ظاہر کرتا ہے کہ عقیدہ کے نام پر پھیلائے گئے تعصبات اور گمراہ کن تفہیم نے بعض گروہوں کو غیر معمولی طور سے طاقت ور بنا دیا ہے۔ مستزاد یہ کہ ریاستی ادارے ایسے گروہوں کی سرپرستی اور مخصوص سیاسی ایجنڈے کے لئے انہیں آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے کی شہرت بھی رکھتے ہیں۔

ایک گرفتاری کے بعد لاہور، کراچی، روالپنڈی اور اسلام آباد کے علاوہ درجنوں چھوٹے بڑے شہروں میں مظاہروں کا آغاز کیا گیا۔ اس قسم کی چھوٹی اور متشدد جماعتوں کا مخصوص ہتھکنڈا ٹریفک کو روکنا اور شہری زندگی کے معمولات میں خلل اندازی ہوتا ہے تاکہ حکومت ان کی بات سننے پر مجبور ہوجائے۔ یہ عین ممکن ہے کہ تحریک لبیک نے آج احتجاج کرنے کی جس صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے ، اس کے بعد حکومت ماضی کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے ایک بار پھر مصالحت کا کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کرے۔ ایک بار پھر نئے وعدوں کے ساتھ اس جماعت کو احتجاج ختم کرنے پر آمادہ کرلیا جائے۔ ایسی کسی صورت میں یہ یقینی ہے کہ سعد رضوی کو رہا کیا جائے گا اور مظاہرین کے غصہ کو کم کرنے کے لئے ایک بار پھر گرفتار کارکنوں کو رہا کرنے، مقدمے واپس لینے یا جماعت کے شیڈول 4 میں شامل لیڈروں کو رعایت دینے کے وعدے کئے جائیں گے۔ اس فہرست میں ایسے مذہبی رہنماؤں کا نام شامل کیا جاتا ہے جن سے قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو۔

ایسا کوئی بھی نیا معاہد ہ موجودہ حکومت اور ریاست پاکستان کی اتھارٹی اور ملک کے امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے نئے خدشات کو جنم دے گا۔ دباؤ کے تحت ’معاہدہ‘ کے نام پر کسی گرفتار شخص کی رہائی حکومت وقت اور ریاستی اداروں کی بے بسی اور کمزوری ظاہر کرے گی۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے علاوہ ان کی پشت پر موجود ریاستی ادارے اگر ملک کو مزید انتشار، بدامنی اور ذہنی خلفشار سے بچانا چاہتے ہیں تو انہیں حکومتی اختیار نافذ کرنے کے لئے کسی بھی گروہ کی دھمکیوں، شہری زندگی کو مشکلات کا شکار بنانے کے غیر اخلاقی اور غیر قانونی طریقوں اور دباؤ کے ہتھکنڈوں کے سبب پسپائی اختیار کرنے کی بجائے، دوٹوک مؤقف اختیار کرنے اور کسی بھی قیمت پر امن و امان اور شہری زندگی بحال کرنے کا اقدام کرنا ہوگا۔ عمران خان ملک میں انصاف کا بول بالا کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے حکومت کو بلیک میل کرنے والے مافیاز کو ہاتھ ڈالنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اب ان کی حکومت اگر تیسری بار لبیک تحریک کے دباؤ میں مصالحت پر راضی ہوئی تو ان سب دعوؤں کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔

عمران خان کا ایک مرغوب نعرہ ’این آار او نہیں دوں گا‘ بھی رہا ہے۔ وہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ اپوزیشن دراصل کرپشن کے خلاف این آر او لینے کے لئے احتجاج منظم کرکے، حکومت کی مشکلات میں اضافہ کرتی ہے۔ لیکن وہ کسی قسم کے دباؤ میں نہیں آئیں گے اور ہر قیمت پر قانون کی بالا دستی کو یقینی بنا کر ان سب لوگوں کو سزا دلوائیں گے جو ماضی میں قومی دولت لوٹنے کا سبب بنے تھے۔ اس حوالے سے اب تک ہونے والے حکومتی اقدامات حکومت کی قانون پسندی یا کرپشن دشمنی سے زیادہ ، سیاسی نعرے اور مخالفین کی آواز دبانے کی کوشش کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اسی لئے اپوزیشن لیڈر اپنے خلاف نیب سمیت سرکاری اداروں کی کارروائی کو سیاسی انتقام کہتے ہیں۔ دوسری طرف تحریک لبیک کے ساتھ دو بار معاہدہ کرکے عمران خان اور ان کی حکومت نے درحقیقت یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کا دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور کسی بھی پریشر گروپ کے سامنے ہتھیار پھینکنے ہی میں عافیت سمجھتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت ٹیکس نظام کی اصلاح، ایف بی آر کی فعالیت اور مختلف تجارتی و صنعتی شعبوں کو سبسڈی دینے کے معاملے میں بھی اسی قسم کی کمزوری اور فراریت کا مظاہرہ کرتی رہی ہے۔

سیاسی جماعتوں اور تجارتی شعبہ کے ساتھ معاملات کے برعکس خالص مذہبی جذبات کی بنیاد پر اٹھنے والی ایک تحریک کے بارے میں حکومتی پالیسی کے ملکی سلامتی ، سفارت کاری اور سماجی پرداخت پر دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے نومبر 2020 کے علاوہ اس سال فروری میں لبیک تحریک کے ساتھ تحریری معاہدہ کے ذریعے یہ وعدہ کیا کہ توہین رسالت ﷺ کے بارے میں فرانسیسی حکومت کی پالیسی پر احتجاج کا معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا جائے گا اور تحریک لبیک کے مطالبے کے مطابق پارلیمنٹ کی منظوری لے کر فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے گا اور فرانس سے سفارتی تعلقات منقطع کئے جائیں گے۔ یہ صورت حال المناک حد تک مضحکہ خیز ہے کہ اس سال فروری میں حکومتی نمائیندوں نے جب اس معاملہ پر تحریک لبیک کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کئے تو تحریری معاہدہ میں یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ وزیر اعظم خود اس معاہدہ کا ٹی وی پر اعلان کریں گے۔ کبھی کسی دباؤ میں نہ آنے کا اعلان کرنے والے عمران خان نے اس کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں تفصیل سے اس معاہدے کا ذکر کیا اور اقرار کیا کہ حکومت یہ معاملہ 20 اپریل سے پہلے پارلیمنٹ میں لے کر جائے گی اور اس کے مطابق عمل کیا جائے گا۔

سب سے پہلے تو اس قسم کے وعدے کا یہی پہلو ناقابل فہم ہے کہ حکومت ایک سفیر کو ملک سے نکالنے اور کسی ملک کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے لئے ایک مذہبی جماعت کے دباؤ پر معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے کی بات کررہی ہے۔ حالانکہ ایسے معاملات کا براہ راست پارلیمنٹ سے کوئی تعلق نہیں ۔ حکومت اگر خارجہ حکمت عملی میں کوئی بنیادی تبدیلی کرنا چاہتی ہے تو ضرور اس معاملہ کو پارلیمنٹ میں لایا جاسکتا ہے۔ لیکن کسی احتجاج یا دھرنے کے بعد پارلیمنٹ کو ڈھال بنانے کی کوشش کرنا کسی بھی حکومت کا بزدلانہ اقدام تھا جس کا نتیجہ وہ اب ملک گیر احتجاج کی صورت میں بھگت رہی ہے۔

کوئی ملک کسی عقیدہ کی بنیاد پر دوسرے ملکوں سے سفارتی تعلقات استوار نہیں کرتا۔ فرانس میں توہین آمیز خاکوں کے حوالے سے جو صورت حال دیکھنے میں آئی ہے ، اسےمحض فرانس کی اسلام دشمنی قرار دے کر توہین مذہب یا توہین رسالت ﷺ کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا۔ اول تو پاکستانی حکومت توہین آمیز خاکوں کی اشاعت پر فرانس کے خلاف کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھا سکتی۔ اگر اس نے کسی شدید دباؤ میں ایسا کرنے کی غلطی کی تو اسے پورے یورپ اور متعدد دوسرے ملکوں کے شدید رد عمل کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

حکومت اور وزیر اعظم کو کل بھی اس بارےمیں مکمل علم تھا اور وہ آج بھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ فرانس کے معاملہ میں ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ توہین آمیز خاکوں کے بارے میں سیاسی بیان بازی ایک علیحدہ چیز ہے لیکن اس بنیاد پر خارجہ پالیسی میں کوئی تبدیلی ملکی مفادات کے لئے مہلک ہوگی ۔ کسی انتہائی اقدام سے ملک کی سفارتی تنہائی میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی کا مرکز قرار دیا جائے گا اور بھارت جیسے دشمن ممالک اس نعرے کو زیادہ شدت سے پاکستان کے خلاف استعمال کریں گے کہ پاکستان بطور ریاست دہشت گرد عناصر کی سرپرستی کرتا ہے۔ بحث کے اس غبار میں پاکستانی حکومت اور فوج کا یہ دعویٰ کسی کو سنائی نہیں دے گا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے اور اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔

بطور وزیر اعظم عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی حکومت کارکردگی دکھانے اور معیشت کو بحال کرنے کا کوئی اقدام کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ ایسی صورت میں وہ خود مذہب کو سیاسی نعرہ بنا کر لوگوں کو رجھانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ ان کے عتاب سے بچے رہیں اور کسی طرح حکومتی مدت پوری کرسکیں۔ اس مقصد کے لئے کبھی وہ یورپ کے اسلاموفوبیا کے بارے میں نعرے لگاتے ہیں، کبھی بھارتی مسلمانوں کے حقوق کا چیمپئن بنتے ہیں، کبھی فحاشی کو ریپ کا سبب قرار دے کر مذہبی عناصر کو ساتھ ملانے کی اوچھی کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ روز ’کوئی بھوکا نہ سوئے‘ نامی خیراتی پروگرام کے حوالے سے تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میرا ایمان ہے کہ جب ایک ریاست مستحق افراد کے گھر کھانا پہنچانے کی ذمہ داری لے گی اور مستحق افراد دو وقت کی روٹی کھا سکیں گے تو اللہ کی برکت پاکستان پر نازل ہوگی‘۔

مشکل مسائل کو اللہ کی برکت سے حل کرنے کی بات کرنے والا وزیر اعظم دراصل یہ بتا رہا ہے کہ معیشت اور سماج کی حرکیات و ضروریات کے بارے میں اس کی معلومات محدود ہیں۔ وہ لوگوں کے مذہبی جذبات کو تحریک دے کر سیاسی مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی دوسرا گروہ اسی بنیاد پر کوئی معاملہ لے کر سڑکوں پر نکلتا ہے تو حکومت فوری طور سے پسپائی اختیار کرتی ہے تاکہ ’مذہب فروشی ‘ کی سیاست کا ہتھکنڈا متاثر نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک لبیک نے ایک بار پھر حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا ہے ۔

حکومت کے پاس اب مصالحت کرنے یا پسپا ہونے کا کوئی آپشن نہیں ہے۔ اسے تحریک لبیک کی قیادت اور عوام کو ساری صورت حال پوری دیانت داری سے بتانی چاہئے۔ کسی دباؤ میں سعد رضوی کی رہائی اور تحریک لبیک کے ساتھ نیا معاہدہ حکومت کے رہے سہے وقار اور اعتبار کو بھی ختم کردے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments