انڈیا اور نیپال میں جنگل کی آگ سے سائنسدان کیوں پریشان ہیں؟

نوین سنگھ کھڈکا - ماحولیات کے نامہ نگار، بی بی سی ورلڈ سروس


جنگل کی آگ
شمالی انڈیا کے بعض علاقوں میں جنگلات کی آگ گزشتہ 15 برس میں شدید ترین ہے
شمالی انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ میں مشہور نینی تال جھیل کے پس منظر میں دکھائی دینے والی پہاڑ عام طور پر اس منظر کو مزید خوبصورت بنا دیتے ہیں۔

تاہم گزشتہ کئی ہفتوں سے جنگل میں لگی ہوئی آگ کے دھویں سے یہ پہاڑ اور جھیل کے خوبصورت مناظر دھندلا گئے ہیں۔

اِس خطے کے جنگلوں کی تاریخ کے ماہر شیکھر پاٹھک کہتے ہیں کہ جھیل کے جس جانب وہ رہتے ہیں دھویں کی بو وہاں تک محسوس کی جا سکتی ہے۔

‘صنوبر کے درخت تو جلدی آگ پکڑتے ہیں، نہ صرف ان میں آگ لگی ہوئی ہے بلکہ بلوط کے جنگلات بھی جل رہے ہیں اور اس کا مطلب ہے کہ صورتحال کافی سنگین ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

فرانس میں جنگل کی آگ، تصاویر میں

کیلیفورنیا میں نارنجی رنگ کی فضا، ’ایسا لگا جیسے قیامت آ گئی ہے‘

خیبر پختونخوا میں سیاحت کا متنازع ’نیا قانون‘

برازیل: یانومامی افراد جنگل میں زندگی کیسے گزارتے ہیں

جنگل کی آگ سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں کے لوگوں نے بی بی سی کو بتایا کہ آج کل وہ رات کو نہیں سوتے۔

پیتھوراگڑھ ڈسٹرکٹ کے ایک گاؤں کے رہائشی کیدر آوانی نے کہا ‘ہم رات میں اٹھ اٹھ کر دیکھتے ہیں کہ کہیں جنگل کی آگ ہماری طرف تو نہیں آ رہی۔’

‘ہم نے اپنے مویشیوں کے لیے جو چارہ اور گھاس جمع کی ہوئی تھی وہ سب آگ سے بھسم ہو گئی اور اب ہمیں خطرہ ہے کہ یہ آگ ہمارے گھروں کو بھی نگل لے گی۔’

کیدر آوانی کا کہنا تھا کہ آگ اس قدر تیز ہے کہ 20 میٹر کے فیصلے سے بھی اس کی شدید تپش محسوس ہوتی ہے۔ ‘ہمارے پاس اسے بجھانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔’

اتراکھنڈ، جنگل کی آگ

سائنسدانوں کے مطابق اتراکھنڈ میں جنگلات میں آگ کی وجہ سے فضا میں کاربن کے اخراج میں بہت اضافہ ہوا ہے

جنگل کی آگ کا ریکارڈ

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ شمالی انڈیا کے کچھ علاقوں اور پڑوسی ملک نیپال میں جنگل کی آگ گزشتہ 15 برس میں سب سے شدید ہے۔ یورپی یونین کی کوپرنیکس ایٹموسفیرک مونیٹرنگ سروس (سی اے ایم ایس) کے مطابق اتراکھنڈ میں جنگلوں کی آگ کی وجہ سے فضا میں تقریباً صفر عشاریہ دو میگا ٹن کاربن کا اخراج ہوا ہے جو سنہ 2003 کے بعد سے ایک ریکارڈ ہے۔

سیٹیلائٹ سے حاصل کی جا نے والی تصاویر کے تجزیے کی بنیاد پر یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اسی عرصے میں نیپال میں لگنے والی جنگلوں کی آگ کے باعث 18 میگا ٹن کاربن کا اخراج ہوا جو سنہ 2016 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

سی اے ایم ایس کے سینیئر سائنسدان مارک پیرنگٹن کے مطابق یہ خطے میں جنگلوں میں لگنے والی آگ کی شدت اور پھیلاو کو ظاہر کرتا ہے اور یہ کافی تشویشناک بات ہے۔

نیپال اور اتراکھنڈ میں جنگلوں کی آگ سے اب تک 20 افراد ہلاک اور ایک اندازے کے مطابق لاکھوں ایکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے جنگلات تباہ ہو چکے ہیں۔ تاہم اس بارے میں سرکاری اعداد و شمار ابھی جاری نہیں کیے گئے ہیں۔

گزشتہ مہینے نیپال میں آگ لگنے کے تقریباً پانچ سو واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

نیپال کے کئی جنگلات اور نیشنل پارک انڈیا کے جنگلات اور نیشنل پارکس سے منسلک ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ایک علاقے کی صورتحال دوسرے علاقوں کو متاثر کر سکتی ہے۔

جنگل کی آگ

ماہرین کے مطابق مقامی برادریاں جنگلات کی آگ کو روکنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں

مسلسل خشک موسم

نیپال اور شمالی انڈیا کے اکثر علاقوں میں کئی مہینوں سے بارشیں نہیں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے جنگلات خشک پڑے ہیں۔

شیکھر پاٹھک کا کہنا ہے کہ کئی مہینوں سے بارشیں ہوئی ہیں نہ برف پڑی ہے جس کی وجہ سے بلوط کے جنگلات تک میں آگ بھڑک رہی ہے۔ جس زمین پر یہ جنگلات کھڑے ہیں وہ مکمل طور پر خشک ہو گئی ہے۔

جس بات سے مقامی لوگ زیادہ پریشان ہیں وہ یہ ہے کہ جنگلوں میں عموما آگ لگنے کا سلسلہ مئی کے مہینے میں شروع ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ زیادہ برا وقت تو ابھی آنے والا ہے۔

سائنسدانوں کے مطابق آب و ہوا میں تبدیلی کو براہ راست جنگلوں کی آگ کا ذمہ دار تو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اس کی وجہ سے خطے میں خشک موسم میں اضافہ ہوا ہے۔

نیپال اور اتراکھنڈ میں حکام کا کہنا ہے کہ جنگلوں کے آس پاس موجود زرعی زمینوں میں فصلوں کے فضلے کو جلانے کی وجہ سے بھی کئی مرتبہ جنگلوں میں آگ لگ جاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کے باوجود حکومتوں کی جانب سے ابھی تک اس مسئلے کو کوئی خاص اہ میت نہیں دی گئی ہے۔ اِسی وجہ سے پارلیمنٹ میں اس موضوع پر بات نہیں ہوتی۔

کیا جنگل کی آگ قدرتی آفت نہیں ہے؟

انڈیا میں نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے اب تک جنگل کی آگ کو قدرتی آفت کا درجہ نہیں دیا ہے۔

این ڈی ایم اے کی ویب سائٹ پر سمندری طوفان، سونامی، شدید گرمی کی لہر، لینڈ سلائڈ، سیلاب اور زلزلے قدرتی آفت کی فہرست میں شامل ہیں۔

سنہ 2019 میں فورسٹ سروے آف انڈیا کی تحقیق کے مطابق ملک میں 36 فیصد جنگلات کو آگ کے خطرے کا سامنا ہے۔

این ڈی ایم اے رکن کرشنا واٹسا کہتے ہیں ‘ہم نے اس لیے جنگل کی آگ کو اب تک قدرتی آفات کی فہرست میں شامل نہیں کیا ہے کیونکہ انڈیا میں جنگل کی آگ زیادہ تر ان لوگوں کی وجہ سے لگتی ہے جو زرعی مقاصد کے لیے آگ لگاتے ہیں۔ لہذا یہ قدرتی آفت نہیں بلکہ انسان کا پیدا کیا ہوا خطرہ ہے۔’

جنگل کی آگ

سنہ 2019 میں فورسٹ سروے آف انڈیا کی تحقیق کے مطابق ملک میں 36 فیصد جنگلات کو آگ کے خطرے کا سامنا ہے

انھوں نے مزید کہا ‘لیکن ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ جنگل کی آگ ایک سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے اور اسی لیے ہم تمام ریاستوں میں محکمۂ جنگلات اور دوسری ایجنسیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔’

مقامی برادریوں کی مدد

ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلوں کی آگ کو روکنے کے لیے جنگلوں کے آس پاس رہنے والی مقامی برادریاں بڑی حد تک مددگار ثابت ہو سکتی ہیں لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے۔

شیکھر پاٹھک کے مطابق اس کی وجہ محکمۂ جنگلات کے اہلکاروں اور مقامی لوگوں کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان ہے۔

‘کئی مقامی برادریاں اپنے حقوق چاہتی ہیں جن میں جنگلات کے وسائل تک رسائی بھی شامل ہے۔ یہ برادریاں چاہتی ہیں کہ ان کے حقوق کی سمجھا جائے۔ اسی وجہ سے ان کے اور محکمۂ جنگلات کے حکام کے درمیان ایک طرح کی کشیدگی رہتی ہے اور یہ جنگل کی آگ جیسے مسئلے کے حل میں بڑی رکاوٹ ہے۔’

مقامی لوگ جنگلات کے تحفظ کی پالیسیوں کے خلاف بھی احتجاج کرتے رہے ہیں۔ مقامی برادریوں کے مطابق ان پالیسیوں کی وجہ سے جنگلات تک رسائی سے متعلق ان کے حقوق سلب کیے گئے ہیں۔ دوسری جانب حکام کا کہنا ہے کہ وہ قانون کے مطابق جنگلات کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp