جمیل احمد عدیل کا افسانہ اور جدید انسان


جمیل احمد عدیل کے افسانوں میں ابھرنے والا جدید انسان کامیو اور سارتر کی تحریروں میں اپنی تنہائی، بیگانگی اور زندگی کی بے معنویت سے لڑتے مغربی انسان کی مانند نہیں ہے جس نے عقل کے معبد میں سر جھکاتے ہوئے صنعتی ترقی کے ثمرات سمیٹے، اپنی توانائیوں کو دریافت کیا اور مابعد الطبیعات سے طبیعات تک کے سفر میں اپنے پورے وجود کے ساتھ شامل رہا۔ اسی لیے بیسویں صدی کی عظیم جنگوں میں اپنے پامال ہوتے وجود کا کرب بھی اسی طرح محسوس کیا۔

بلکہ وہ اپنے افسانوں میں ایسے فرد کے مسائل کو موضوع بناتے ہیں جو مندرجہ بالا تجربات میں براہ راست شریک تو نہیں رہا مگر ان تجربات کے نتائج اس کو پوری شدت سے بھگتنے پڑے، جو استعمار زدہ خطوں سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ وہ نہ تو روح کو اسیر رکھ سکا اور نہ مادے کی تسخیر میں کوئی حصہ ڈال سکا۔ جس نے مغربی انسان کی طرح وجود کی اقلیم کو دریافت کرنے کے لیے ایک طویل اور صبر آزما سفر طے نہیں کیا۔ وہ ایک طرف اپنے روحانی اعتقادات کے ساتھ بندھا ہے تو دوسری طرف اس کے برعکس زمینی حقیقتوں کا عذاب سہ رہا ہے۔

افسانہ ”مٹی کی ٹوکری“ میں افسانہ نگار انسان کی وجودی تنہائی کو ایک ایسی خالی جگہ اور ان کہی میں رقم کرتے ہیں کہ جس پر قاری اپنے اختیار سے اپنی بے اختیاری کے قصے لکھتا چلا جاتا ہے، جہاں سے تنہائی کو جھیلنے کا آغاز ہوتا ہے اس نقطے سے آگے ایک خالی جگہ موجود رہتی ہے جس پر قاری خود پر بیتنے والی کتھا سے جنم لیتی کرب انگیز کیفیات اور احساسات کو رقم کرتا ہے۔ ”مٹی کی ٹوکری“ میں ایسی ہی خالی جگہ کا اہتمام کیا گیا ہے۔

یہی خالی جگہ، یہی لاشیئیت، شیئیت کا اثبات کرتی ہے۔ جمیل احمد عدیل اس صورت حال کو تخلیق کرتے ہیں جو بیسویں صدی کے انسان کے دکھوں اور مصیبتوں کا منبع ہے۔ اس افسانے میں ایک فرد فرید، تن تنہا، نمانا اور بے چارہ میلوں تک پھیلے بے کراں اور بے پناہ ہجوم کو چیرتے ہوئے متعلقہ مقام پر پہنچتا ہے تو وہاں دو کی بجائے ایک چارپائی رکھی ملتی ہے جس پر اس دن واقع ہونے والی ایک اور موت کے نتیجے میں رکھی میت ہے۔ وہاں اس کی میت والی چارپائی غائب پانے کے ساتھ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ ”پھولوں میں گھری سونے کی مورتی ہے جس کے گرد ہجوم طواف میں مصروف ہے۔“

یوں وہ بیچارہ اپنے وجود کی ٹوکری بھر مٹی کے ساتھ، طلائی مورتی کے پجاریوں کے مقابل تنہا اپنے جنازے کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھنے کے لیے مجبور ہے۔ یہی طبقات میں بٹے اس معاشرے میں کسی بھی درجے پر جگہ نہ پانے والے فرد کا المیہ ہے۔ جس کے لیے موت کے بعد بھی وجود کا بوجھ ڈھونا مقدر کر دیا گیا ہے۔

نو آبادیاتی نظام سے آدھی ادھوری آزادی نے سابق نو آبادیوں کے مسائل کو پہلے سے بھی بڑھا دیا ہے۔ نو آبادکار سے مخصوص استعماری رویہ سیاسی، سماجی اور ثقافتی اداروں میں اس طرح نفوذ کر گیا ہے کہ اس سے نجات کی کوئی سبیل بھی نظر نہیں آتی۔ نو آبادیاتی خطوں میں بسنے والے انسان کی زندگی دائروں میں اسیر ہو کر رہ جاتی ہے۔ ہر دائرے کا مرکز حاشیے پر موجود وجود کا استحصال کنندہ بن جاتا ہے۔ افسانہ ”مقدس شجر زار“ میں انتظامیہ کے جس صیغے کو مقدس شجر زار کہا گیا ہے وہ پوری ایمان داری سے استعماری نظام کی وراثت کو سنبھالے انہی رویوں کو جاری رکھے ہوئے ہے جن کے بل پر استعماریت نے نو آبادیوں میں استحکام حاصل کیا تھا۔

افسانے میں اس مرکز کی جانب سے چار ریٹائرڈ اساتذہ کو عذاب کی تعبیریں ڈھونڈنے یا تاویلیں گھڑنے کا فریضہ سونپا جاتا ہے۔ مقررہ روز ان کو ملاقات کے لیے متعلقہ محکمے میں لایا جاتا ہے مگر تمام دن گزرنے کے بعد بھی ملاقات کی نوبت آتی اور نہ جانے کی اجازت ملتی ہے۔ وقت گزاری کے لیے وہ چاروں اسی عمارت میں موجود کینٹین میں چلے جاتے ہیں۔ دن ڈھلے وہ دوبارہ پانچویں منزل پر موجود دفتر کی طرف آتے ہیں تو وہاں کسی کو نہ پا کر واپسی کے لیے لفٹ میں سوار ہو جاتے ہیں۔

راستے میں برقی رو منقطع ہونے کی وجہ سے چار گھنٹے تک لفٹ میں محصور رہتے ہیں۔ اس مشکل سے نجات کے بعد انہوں نے پھر سے پانچویں منزل پر جانے کا فیصلہ کیا جہاں میٹنگ روم کا دروازہ کھلا ہونے کی وجہ سے وہ وہاں داخل ہو گئے۔ یہیں انھوں نے طے کیا کہ ”بندہ ہونے کے جبر کا تلخ ذائقہ تو بہت چکھ لیا کیوں نہ عارضی خدا ہونے کا لطف بھی اٹھایا جایا جائے۔“ ۔ ”انہیں زندگی میں پہلی مرتبہ اندازہ ہوا کہ جس اکیلی کرسی کو میز اور باقی کرسیوں نے اپنے حصار میں لیا ہوتا ہے اس پر گزرا ایک لمحہ صدیوں کی جی حضوری پر کس درجہ بھاری ہوتا ہے۔“

ان چاروں کا یہ کھیل ابھی جاری تھا کہ محافظ انہیں پکڑ کر تھانے لے گئے اور اب وہ حوالات میں بند اتوار گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ یہاں سے نکل سکیں۔ افسانے میں ایک بے معنی صورت حال میں گرفتار یہ چاروں کردار استعمار زدہ دنیا کے فرد کا استعارہ ہیں جو عارضی اور زمینی خداؤں کے تسلط سے جھکے ہوئے وجود کو سیدھا کرنے کی کوشش میں جیل جا پہنچتا ہے۔ نو آبادیاتی ماضی کے حامل پسماندہ ممالک کے جدید فرد کی ذہنی اور مادی زندگی اس طور دائروں میں قید ہے کہ اس کی تیز رفتاری بھی گھوم پھر کر اسی مقام پر لے آتی ہے جہاں سے سفر شروع ہوا تھا۔

اس جدید انسان کا المیہ یہ ہے کہ مختلف عقیدوں، نظریوں اور وابستگیوں کا اسیر ہو کر دائرے سے باہر چہار سو پھیلی اختلاف سے مملو زندگی اور اس کی حقیقتوں سے بے خبر اندھی تقلید اور پیروی میں مصروف رہتا ہے۔ تقلید اور پیروی کا یہ رویہ کسی ایک مرکز کو توانا بنانے پر منتج نہیں ہوتا بلکہ یہاں چھوٹے بڑے کئی ایسے مراکز جنم لے لیتے ہیں جو اپنی طاقت کا اثبات اپنے گرد ہونے والے تقلیدی اذہان کے طواف سے کرتے ہیں۔ افسانہ نگار نے ”مجھے اکیلے سفر کرنا ہے“ میں ایسے ہی رویوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔

نافرمان قوموں پر اترنے والے عذابوں کی تاریخ سے اس افسانے کی علامتیں اخذ کرتے ہوئے انھوں نے ترقی، خود مختاری اور آزادی کے خواب سجا کر نئی سرزمین پر قدم رکھنے والوں کا المیہ بیان کیا ہے۔ یہاں شکم سیری اور اطمینان صرف ان کے لیے ہے جو دھلا دھلایا دماغ اپنی کھوپڑی میں رکھتے ہیں اور بغیر سوال، بناء غور و فکر کے ایک دائرے میں طواف میں مگن رہتے ہیں جبکہ اس عمل سے محروم رہنے والے آگ کے گڑھے میں اگے ہوئے زقوم کے درخت کے بد مزہ شگوفے کھانے پر مجبور ہیں۔ مذکورہ افسانے میں وہ پناہ کا طالب، دائروں سے منحرف واحد شخص تاویل کنندہ کے منصب پر فائز ہونے کی بجائے اکیلے سفر کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔

افسانہ ”گمشدگی سے خالی راستے“ کا پی او شناخت کے جس عارضے کا شکار ہو کر ذہنی امراض کے اسپتال میں جا پہنچتا ہے اس کی پشت پر بھی جدید انسان کا وہی وجودی کرب ہے جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ شعور اور آگہی سے کچھ عرصے کے لیے دستبردار ہو جاتا ہے۔ تہذیبی ترقی کی موجودہ منزل پر انسان نہ صرف اولین ادوار کی معصومیت، حیرت اور مسرت کو گنوا بیٹھتا ہے بلکہ وہ نظم و ضبط اور قاعدے قوانین میں جکڑی ہوئی زندگی کے جبر سے نجات کی راہ بھی ڈھونڈتا ہے۔

جمیل احمد عدیل کے اس افسانے میں پولنگ کا عمل جدید زندگی کا مظہر ہے جس میں انسان کو ایک محدود سطح پر اختیار حاصل ہوتا ہے۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اختیار کی اس عمل داری میں کس قدر حقیقت ہے؟ کیا اختیار حاصل ہے یا اختیار کا شائبہ ہے؟ پھر جدید طرز زندگی جو روز بروز جبر کی نئی صورتوں کو انسان پر نہ صرف مسلط کر رہی ہے بلکہ اکیسویں صدی میں تو مصنوعی ذہانت کے کرشموں نے انسان کو محض ایک معمول کے درجے پر لا چھوڑا ہے۔

ہم اپنی تنہائی میں کی گئی سرگوشیوں، نیند میں دیکھے گئے خوابوں اور کہیں دل کی گہرائیوں میں سینت کر رکھی گئی آرزوؤں کو بھی صرف اپنی ملکیت اور ذاتی شے قرار نہیں دے سکتے بلکہ ان پر بھی تشکیلی ہونے کی مہر لگ چکی ہے۔ فرد کی انفرادیت اسی تشکیلی حقیقت کے تصور کی نذر ہو جاتی ہے۔ انسان اس احساس زیاں میں مبتلا کبھی کبھی اپنی سدھ بدھ کھو بیٹھتا ہے۔ مرکزی اور بڑی شاہراہوں کو بھول کر قدموں سے مانوس کچے راستوں پر اترنے کی آرزو کرنے لگتا ہے۔ جمیل احمد عدیل نے اپنے افسانے ”گمشدگی سے خالی راستے“ میں ایسے ہی انسان کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔

جمیل احمد عدیل متعین اور طے شدہ راستوں، تقلیدی اور دائروی حرکت کے نتائج سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تجسس، سوال، غور و فکر اور نئی راہیں تراشنے کے ذوق سے عاری معاشروں کی صرف منزل ہی گم نہیں ہوتی بلکہ یہاں شعور رکھنے والا انسان ایسے کرب کا شکار رہتا ہے جس کے بہت کچھ اسباب انھی معاشروں میں وجود رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments