علمائے کرام کے لئے سائنسی تعلیم ناگزیر ہے (2)


\"\"لیکن اس تناظر میں ہمیں یک طرفہ نہیں سوچنا چاہیے بلکہ مدارس میں تعلیم و تدریس کو چونکہ ہمارے علمائے کرام تسلیم کرتے ہیں لہٰذا ان کے نقطہ نظر کو نظر انداز کرتے ہوئے محض اپنی رائے پر اصرار کرنا یا اپنے نظریے کو تھوپنا انتہا پسندی ہے۔ آیا ایسی کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر علما ئے کرام نیچرل سائنسز کے میدان میں آنے سے قاصر ہیں یا پھر بے اعتناعی برتتے ہوئے عملاً اجتناب کرتے ہیں ۔ میرے خیال میں اس کی درج ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں :
بہت واضح ہے کہ ہر شعبے کے افراد کو اپنی سپیشلائزیشن ہی پر فوکس کرنا چاہئے۔
عالی جاہ ! ہم کب تمام عملہ کو نیچرل سائنسز میں گھسیٹنا چاہتے ہیں ایسا کرنا تو یقینا ایک حماقت ہوگی بلکہ اس قسم کا مضحکہ خیز مطالبہ یقیناکوئی معنویت بھی نہیں رکھتا۔ کاروبار ِمعاشرہ کے باہمی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے سائنس ایک سبب ، طریقہ کار اور علم کی حیثیت رکھتا ہے جس سے انکار جہالت ہے۔ معاشرہ ضروریات کے پیش ِ نظرافراد سے مختلف شعبوں میں لگنے کا متقاضی ضرور ہے لیکن افراد ، طبقات یا اقوام پر تخصیصی بنیادوں پر قدغن نہیں لگاتا کہ وہ کسی مخصوص شعبے یا پیشے کو اختیار کریں۔ ایک معاشرہ مختلف شعبوں سے منسلک افراد کا مجموعہ ہوتا ہے جو سب کے سب اپنے ذاتی مفادات،دلچسپیوں اور ضروریات زندگی کے تحت اپنے اپنے پیشوں میں لگے ہوتے ہیں لیکن در حقیقت وہ ایک دوسرے کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں ۔مثال کے طور پر ایک ڈاکٹر اپنے کلینک یاہسپتال میں مریض کا آپریشن کرتا ہے اور اس کے عوض فیس لیتا ہے تو مریض بھی ڈاکٹر کے ہنر ، مہارت اور تجربہ سے فائدہ اٹھا تا ہے۔ہسپتال میں میڈیکل سٹور ،دوائیاں ، لیب، میڈیکل ریپ ، دواساز کمپنیاں ، صفائی والا ، گیٹ کیپر اورالیکٹریشن ہرایک باہمی مفادات کے بندھن میں جڑا ہواہے یعنی سب اپنے لئے بایں ہمہ سب کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں اور یہی کاروبارِ معاشرہ ہے کہ ہر فرد اپنی اپنی بساط ، صلاحیت اورمیسرمواقع کی بنیاد پر اپنے پیشے یعنی بلا کسی قدغن معاشر ے کی ضرورت میں جتا ہوا ہے اور تمام افراد اگر ایک ہی شعبے سے منسلک ہو جائیں تو کاروبار معاشرہ تباہ ہو جائے۔ اسی لئے تو خالق کائنات نے نہ صرف انسان کو معاشی طور پر مختلف کیفیات ،طبقات میں بانٹ دیا ہے بلکہ مختلف ذہنی صلاحیتوں اور میلانات کی قید میں لپیٹ کر انسانی بستی یا کاروبارِمعاشرہ کو عملی جامہ پہنانے کا بندوبست فرما دیا ہے۔انتظام و انصرام ، جنگی ضروریات ، ذرائع آمدورفت تمام کی تمام اسی کاروبارمعاشر ہ میں شامل ہیں جن کے حصول کے لئے سائنس ایک فنی سبب اور علم کی حیثیت رکھتی ہے اور ماہرین یعنی سائنسدان ، انجینئرز، ٹیکنیشنز سبھی کاروبار معاشرہ کی اہم کڑیاں ہیں۔ لیکن یہ مطالبات کہ افراد کسی مخصوص شعبے سے کیوں منسلک ہیں؟ فلاں شعبے سے کیوں منسلک نہیں ؟ محض کاروبار ِ معاشرہ میں عدم توازن پید ا کرنے کی احمقانہ سوچ کے سوا کچھ حیثیت نہیں ۔ اسلام نے اسی اسلوب کو اپنایا ہے اسی لئے ہرمسلمان پر قدغن نہیں کہ وہ عالم ِ دین اور مفتی بنے۔ لیکن دوسرے پہلو سے بھی اس کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ہو گا کہ معاشرے کے مسائل باہم مشترک ہیں اور سبھی افراد ایک مشترکہ استفادہ کے اصول پر عمل پیراہیں اور تمام فنون ، سائنسز اس مقصد میں ایک دوسرے کی معاون ہیں اور کوئی مخصوص تحقیق ، فن ، علم اور استفادہ کسی مخصوص فرد ، طبقہ یا قوم حتی ٰ کہ کسی مخصوص شعبے یا سائنس کی کسی شاخ کی جاگیر نہیں بلکہ انسانیت کی آسانی ، سہولت اور وسیع تر مفاد کے لئے اوربایں ہمہ ان سائنسی علوم کی ترقی کے لئے بھی ایک مشترکہ میراث محض ہے۔ خالصتاً دینی مسائل کی حد تک تو ہم آپ سے 100 فی صداتفاق کرتے ہیں لیکن کثیر الجہتی نوعیت کے مسائل میں یک جہتی فقاہت و علمی استعداد یا فنی مہارت ہمیشہ ناکا فی ہوا کرتی ہیں۔ لہٰذا جدید تقاضوں کے پیش ِنظر امت مسلمہ اور دین متین کے وسیع تر مفاد میں کچھ مضبوط اعصاب اوربڑے ذہن رکھنے والے تشنگان کو بڑے میدانوں کا رخ کرنا ہی ہوگا۔
سائنسی توجیہ اور رویے سے بے اعتناعی اور اجتناب کا مذہبی رجحان یہ ہے کہ دینی علم، یقین ، روحانیت ، تعلق باللہ مختصراً یہ کہ ایمانیات و مغیبات اور اطاعت ِخداوندی کا نام ہے اور عصری تعلیم(نیچرل سائنس) مادہ سے بحث کرتی ہے۔
یہ بات یقینادرست ہے کہ سائنسی تعلیم سے مادیت پرستی کا رجحان خارج از امکان نہیںجو کہ دینی تعلیمات پر اثر انداز ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ بات بالکل درست ہے لیکن کیا سائنسی رویوںکو محض سائنس تک محدود رکھنا چاہیے ؟کیا سائنسی رویہ کوئی سائنسی نتیجہ ہے جسے صرف سائنس ہی میں استعمال کیا جا سکتا ہے؟ بلکہ سائنس دراصل عقل /توجیہہ ہی ہے جو انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔سائنس اور اسلام کے مشترکہ مسائل اور ان کے حل /نتائج سے مشترکہ استفادہ ہی استشراقی اثرات و نتائج یعنی الحاد و ارتداد سے حفاظت اور اس کے محاکمے او رتعاقب کے لئے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جیسے مینجمنٹ سائنسز ، لاءاور دینی علوم سے مشترکہ استفادہ کی مذکورہ بالا مثال موجود ہے۔سائنس اور فلسفہ کی تعلیم ایسا زہر نہیں جس کا تریاق موجود نہیں۔ علمائے کرام بخوبی جانتے ہیں کہ منعم حقیقی کی یہ سنت ہے کہ اس نے مرض سے پہلے علاج کو ضرور بھیج دیا ہے تو پھرکیا وجہ ہے، کس بات کا خوف ہے کہ اگر نظریاتی اور روحانی تربیت کے ارتقائی و تدریجی مراحل سے ہو گزرنے کے بعد بھی فلسفہ اور سائنس (یا اس کے تعلیمی ماحول) کے مضمرات سے بچنے کے لئے قوت مدافعت پیدا نہیں ہو سکی؟ ایسا ہر گز نہیں بلکہ توجہ مبذول و مرکوز ہونے تک کی دیر ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ احیائے دین کا کام اللہ رب العزت نے ہمیشہ علمائے حق ہی سے لیا ہے اورسائنس اور فلسفہ کی اوٹ میں چھپے ہوئے ملحدین کے تعاقب کے لئے مجدد انشا اللہ علما ءہی کی صفوں سے پیدا ہوں گے۔
اسلام کی بنیادعقیدے اور ایمان بالغیب پر ہے جس کے پیروکاروں کو تشکیک و جستجو ، سائنسی و فلسفیا نہ توجیہات اور عقلیت سے کوئی واسطہ نہیں۔
تشکیک کا مسئلہ ہرگز نہیں بلکہ جیسے جادو کے علاج کے لئے جادو کی مختلف انواع اور کیفیات کے بارے میں جاننا ناگزیر ہے یا جیسے امام غزالی کا ردِّ فلسفہ کے لئے فلسفہ کا عمیق مطالعہ بلکہ میں یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرتا کہ امام صاحب نے تو فلسفہ کو مشرف بہ اسلام کر دیا۔ جس ضرورت کے پیش ِ نظر امام صاحب اس میدان میں اترے تھے کیاوہ پوری ہو چکی ہے ؟ یا اس کی سرے سے ضرورت ہی نہ تھی ؟کیا اس پر مزید کام نہیں کیا جانا چاہئے ؟ کیا ہم سبھی اس قدر کمزور نظریہ رکھتے ہیں کہ فلسفہ ہمارے ایمان کو نکال باہر کرے گا؟ہم سائنس اور فلسفہ سے کوسوں دور بھاگتے رہیں گے تو پھر جدید سائنسی مسائل اور فلسفیانہ اشکالات کے ذریعے الحاد کا علمی محاکمہ کس طور ممکن ہو گا؟
نیچرل سائنسز کے ذریعے اسلام کی حقانیت کی تصدیق دعوتِ دین کے لئے بیساکھی نہیں۔
رہا دعوتِ دین کے لئے سائنس کی بیساکھی کا معاملہ تو وہ ہم اوپر واضح کر چکے ہیں کہ ہمیں بحیثیت مسلمان اسلام کی حقانیت کی سائنسی چھان پھٹک کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر متکلم سائنس و فلسفہ سے کلام و استدلال کرتا ہے تو کیا داعی محض مغیبات ہی سے استدلال کر تا رہے گا؟اورکیا ایسا کرنا اس کے لیے قابل ِتشفی ہوگا؟ اگردعوت ہی مقصود ہو توایسی صورت میں داعی سے حکمت و بصیرت کاکیا تقاضا ہے؟ سائنسی علم مشترکہ میراث ہے جس سے ہم ان تمام مسائل کے حل کے لئے ببانگ ِ دہل استفادہ کر سکتے ہیں۔ایسی صورت میں سائنسی علم کو بیساکھی کہنا نامناسب ہے بلکہ یہ سائنسی فہم ، سائنسی حکمت و بصیرت (عقل )، سائنسی توجیہ جو دعوتِ دین اور نتیجتاً معرفت الٰہیہ کے حصول کا ذریعہ ہے۔
سائنسی تعلیم و تدریس کے لئے درکار وسائل و اخراجات مدارس انتظامیہ کی معاشی بساط سے باہر ہیں۔
مطلوبہ وسائل و اخراجات یا انتظامات کے لئے حکومت پر تکیہ کرنا گویامدارس کو حکومت کے یہاں گروی رکھ دینے کے مترادف ہے جو کل کلاں ممکنہ خدشات و خطرات کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔
ہماری تکنیکی مسائل سے بحث نہیں۔
اگر مستند حلقوں نے اسے سنجیدگی سے نہ لیا تو اسلام اور سائنس کے حوالے سے انفرادی و اجتماعی طور پر کام کر نے والے ماہرین کا اپنی اپنی دینی استطاعت اور فہم و ادراک کے مطابق مختلف جہتوں میں ڈی ٹریک ہو نے کا اندیشہ خارج از امکان نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments