تحریک لبیک سے معاہدہ: جیتا کوئی بھی ہو، عوام ہار گئے


ملکی میڈیا میں تحریک لبیک کے سربراہ سعد رضوی کی کوٹ لکھپت جیل سے رہائی کے بارے میں متضاد خبریں سامنے آ رہی ہیں لیکن وزیر داخلہ شیخ رشید کے اس ویڈیو پیغام کے بعد کہ ٹی ایل پی کے کارکنوں کو رہا کیا جائے گا اور ان کے خلاف مقدمے بھی واپس لئے جائیں گے، اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ سعد رضوی کب رہا ہوتے ہیں۔ اس تنازعہ میں حکومت چاروں شانے چت ہوئی ہے۔ واضح ہؤا کہ تحریک لبیک کا ’ کلہ مضبوط‘ ہے۔

صورت حال بہتر بنانے میں نہ وزیر اعظم کی تقریر یا حب رسول ﷺ کے دعوؤں نے کام دکھایا اور نہ ہی شیخ رشید کی سیاسی ہنر مندی کام آئی۔ انہیں اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے ممکنہ لانگ مارچ اور احتجاج و دھرنے کو ناکام بنانے کے لئے وزیر داخلہ بنایا گیا تھا لیکن اس وزارت میں بھی شیخ رشید نے وہی کارنامے دکھائے جو وہ ریلوے کی وزارت میں دکھا چکے تھے۔ وہ امور حکومت بھی ویسے ہی چلانا چاہتے ہیں جیسے وہ اپنی سیاسی پارٹی ’عوامی مسلم لیگ‘ چلاتے ہیں۔ اسی لئے اسے اب تک ’ون مین پارٹی‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ شیخ رشید کو سیاسی گپ شپ اور جھوٹی پیش گوئیوں کے علاوہ کسی معاملہ پر دسترس حاصل نہیں ہے لیکن تحریک لبیک کی طرح ان کا ’کلہ‘ بھی مضبوط ہے جس کی وجہ سے حکومت میں انہیں بدستور اعزاز و احترام حاصل ہے۔ تا بہ کجا۔

عجلت میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر اپوزیشن کی تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے جس طرح اسلام آباد سے فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے معاملہ پر پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، اسے حکومت کی بے بسی اور انتظامیہ کی مکمل ناکامی کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا۔ کل شام وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں پر زور طریقے سے یہ دلیل دی تھی کہ فرانس کا سفیر واپس بھیجنے اور اس ملک کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کا فرانس کو تو کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن پاکستان کو ناقابل تلافی مالی و تجارتی نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس طرح پورے یورپ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہوں گے اور ملک میں صنعتی بحران ، بیروزگاری اور افراط زر میں اضافہ ہوگا۔ عمران خان کی درد مندانہ اور ’یورپ کے وسیع تجربہ ‘سے لیس گفتگو کاحکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے والے تحریک لبیک کے لیڈروں پر کوئی اثر نہ ہؤا یعنی ’ مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر‘ والا معاملہ رہا۔ لہذا تحریک لبیک جیت گئی، حکومت کو شکست تسلیم کرنا پڑی۔ اب اسے میڈیا میں خواہ ’کالعدم‘ لکھواتے رہیں، بات کھل گئی ہے کہ طاقت کا مرکز کہاں ہے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس جمعرات تک ملتوی تھا لیکن چند روز پہلے دہشت گرد قرار دی گئی ایک تنظیم کے رہنماؤں سے وزیر داخلہ کی سرکردگی میں ہونے والے مذاکرات میں رات گئے طے ہؤا کہ قرار داد لائی جائے گی۔ حکومت کو اتنی مہلت بھی نہیں دی گئی کہ وہ اس کی تیاری کرسکتی۔ سحری کے وقت وزیر داخلہ قرار داد لانے اور ٹی ایل پی کے کارکنوں کو رہا کرنے کا اعلان کرنے پر مجبور ہوئے۔ دن چڑھے اجلاس طلب ہوا۔ پیپلز پارٹی نے کمال سیاسی مہارت سے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے ایک ٹوئٹ میں اپنا مؤقف یوں واضح کیا: ’ تحریکِ لبیک سے کیا گیا معاہدہ پارلیمان میں نہیں لایا گیا اور نہ ہی وزیراعظم نے اس معاملے میں کسی بھی مرحلے پر پارلیمان کو اعتماد میں لیا۔ اب پاکستان تحریکِ انصاف قومی اسمبلی کے پیچھے چھپنا چاہتی ہے‘۔ انہوں نے وزیراعظم کو مخاطب کر کے کہا کہ ’یہ آپ کا پھیلایا ہوا گند ہے، اسے صاف کریں یا گھر جائیں‘۔ عمران خان گھر جانے پر آمادہ نہیں اس لئے انہوں نے تحریک لبیک کے ساتھ معاملات درست کرنے کا اشارہ دے کر جان چھڑانے میں عافیت سمجھی۔

یہاں یہ طے ہوجانا چاہئے کہ قومی اسمبلی میں لائی گئی قرار داد اور تحریک لبیک کے ’تمام مطالبات‘ منظور ہونے سے ٹی ایل پی کی طاقت ثابت نہیں ہوئی بلکہ حکومت ناکام ثابت ہوئی ہے۔ یہ صورت حال دو باتیں واضح کرتی ہے۔ ایک یہ کہ تحریک انصاف کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان اس معاملہ سے نمٹنے میں ناکام رہے۔ انہیں نہ تحریک لبیک کے اغراض و مقاصد کا اندازہ ہوسکا اور نہ ہی وہ یہ سمجھ سکے کہ اس گروہ کی عملی تیاریوں کی نوعیت کیا ہے، کون اس کے پشت پناہ ہیں اور اس کی طاقت یا عوامی قبولیت کا توڑ کیسے کرنا ہے۔ گزشتہ نومبر میں پہلے معاہدہ کے بعد فروری میں ٹی ایل پی کے ساتھ دوسرا معاہدہ کرتے ہوئے ، صرف یہ پیش نظر رکھا گیا تھا کہ کسی طرح فوری بحران سے نکلا جائے، بعد میں حالات خود درست ہوجائیں گے۔

عمران خان کی حکومت کسی مرحلے پر یہ تصور نہیں کرسکی کہ مذہب کی بنیاد پر اشتعال پھیلانے والے گروہوں سے جان چھوٹنا آسان نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان اور حکومت بدستور مذہبی کارڈ استعمال کرتی رہی۔ اب یہ حقیقت سامنے آرہی ہے کہ جو دلائل عمران خان تحریک لبیک کی مذہبی اپیل کو کمزور کرنے کے لئے دیتے رہے ہیں، وہ دراصل اس کی طاقت میں اضافہ کا سبب بنے۔ اسی لئے حکومت کے پاس اب ٹی ایل پی کو ’واک اوور‘ دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ حکومت تو یہ سمجھنے میں بھی ناکام رہی کہ لبیک تحریک کی اصل طاقت عوام کے ووٹ یا جذباتیت نہیں بلکہ وہ سرپرست ہیں جن کا سایہ عاطفت تحریک انصاف کو بھی میسر ہے۔ شاید اسی صورت حال کے بارے میں’ ایک ہاتھ دے تو دوسرے کو پتہ نہ چلے‘ کہا جاتا ہے۔ دینے کو کرنا پڑھ لیا جائے تو معاملہ سمجھنا آسان ہوجائے گا۔

حیرت و افسوس کا مقام ہے کہ ماضی قریب کی سنگین غلطیوں کا خمیازہ بھگتنے کے باوجود حکومت نے گزشتہ شب تحریک لبیک کے ساتھ جو تیسرا معاہدہ کیا ہے، اس میں بھی بظاہر وہی غلطی دہرائی گئی ہے جو پہلے معاہدوں میں کی گئی تھی۔ یعنی پوری تصویر دیکھنے اور واضح اور دو ٹوک حکمت عملی بنانے کی بجائے یہ کوشش کی گئی ہے کہ فوری طور سے درپیش بحران کو ٹالا جائے، یتیم خانہ چوک میں تصادم ختم ہوجائے ، اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ کیا کرنا ہے۔ قومی اسمبلی سے فوری طور سے منظور ہونے والی قرار داد میں فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے کے بارے میں کچھ طے نہیں ہؤا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی اس پر بحث کرے اور اسپیکر اس معاملہ پر غور کرنے کے لئے کمیٹی بنا دیں۔ یہ قرار داد ایک حکومتی رکن امجد علی خان کی طرف سے پیش کروائی گئی۔ یعنی حکومت بظاہر اس میں ’فریق‘ نہیں ہے۔ اسی لئے جب مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی نے اپوزیشن کو سوچنے کا وقت دینے اور پوری اسمبلی کو کمیٹی میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی تو اسے یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ حکومت ایک پرائیویٹ قرار داد میں رد و بدل نہیں کرسکتی۔ اس کےنتیجے میں ایوان میں افسوسناک بدمزگی بھی دیکھنے میں آئی لیکن حکومت نے اکثریت کے زور پر کمیٹی قائم کرنے کی قرار داد منظور کروالی۔

اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ کیا یہ کمیٹی فرانسیسی سفیر کے بارے میں کوئی ایسی تجویز قومی اسمبلی کی منظوری کے لئے پیش کرے گی جس کی مخالفت میں وزیر اعظم نے کل دلائل کے انبار لگادیے تھے؟ یعنی کیا ملک کا سب سے اعلیٰ ایوان تمام پارلیمانی روایات کے برعکس ایک گروہ کے دباؤ میں ایسا فیصلہ کرے گا جو ہمہ قسم سفارتی آداب اور بین املککی مراسم کے خلاف ہو اور جس سے ملک کی خارجہ پالیسی، معاشی معاملات اور دنیا سے تعلقات پر سنگین اثرات پڑنے کا اندیشہ ہے۔ اگر حکومت یہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تو اس وقت یہ قرار داد منظورکرنے کی دو ہی ممکنہ وضاحتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت صرف مزید وقت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ حکومت کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنی باقی ماندہ مدت ’کمیٹی کام کررہی ہے‘ کی آڑ میں گزار دے اور یہ سنگین سیاسی و سماجی مسئلہ مستقبل کی حکومت کے سر تھوپ دیا جائے۔ دوسرا امکان یہ ہوسکتا ہے کہ تحریک لبیک کے لیڈروں کو بھی صورت حال کا ادراک ہوگیا ہو لیکن انہوں نے ’فیس سیونگ‘ اور اپنے حامیوں کو مطمئن کرنے کے لئے حکومت سے کوئی ’بیچ کا راستہ ‘ نکالنے کی درخواست کی ہو جو اس قرار داد کے ذریعے نکالا گیا ہے۔ یعنی سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ حالانکہ حالات کی تصویر جو بھی ہو حکومتی اختیار اور معاملات پر کنٹرول کی کمر بہر حال ٹوٹ چکی ہے۔

تحریک لبیک کو فیس سیونگ کا موقع دینے والی وضاحت اسی صورت میں قرین قیاس ہوسکتی ہے اگر بیچ میں ایسے کوئی ضامن موجود ہوں جو تحریک لبیک کو فوری طور سے تباہ ہونے سے بھی بچانا چاہتے ہیں اور حکومت کو بھی اس بحران سے نکلنے کا راستہ دینا چاہتے ہیں۔ اگر یہ صورت موجود نہیں ہے تو ٹی ایل پی کی جذباتی اور عاقبت نااندیش قیادت سے یہ توقع عبث ہوگی کہ وہ مستقبل قریب میں اس معاملہ پر پھر سے نیا فساد برپا نہیں کرے گی۔

ایک کالعدم تنظیم کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات و معاہدہ کے ذریعے حکومت البتہ ملک میں لاقانونیت اور انارکی کے ایک نئے رجحان کی سرپرستی کا باعث بنی ہے۔ فوری طور سے تصادم کی کیفیت ختم کرنے کے باوجود یہ معاملہ معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر انتہاپسندی کے فروغ کا سبب بنے گا۔ تمام چھوٹے گروہوں کو بتا یا گیا ہے کہ اگر وہ مناسب مراکز کی سرپرستی حاصل کرلیں تو انہیں ملک کی تقدیر کے ساتھ کھل کھیلنے کی اجازت بھی مل سکتی ہے۔ تحریک لبیک کی چار سالہ زندگی اس کی ٹھوس مثال کے طور پر موجود ہے۔ حکومت نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ وہ ڈیوٹی پر جان دینے والے پولیس افسروں اور احتجاج کے دوران جاں بحق ہونے والے نہتے شہریوں کے خون کا حساب لینے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ بلکہ جن عناصر کو کل تک قاتل قرار دیا جارہا تھا، ان کے ساتھ معاہدے کو کامیابی کہا جارہا ہے۔ کسی حکومت کی اس سے زیادہ ہزیمت کیا ہوگی۔

تاہم حکومت اسے اپنی جیت کہے یا تحریک لبیک کامیابی کی دعویدار ہو، اس کھیل میں اصل ہار پاکستانی عوام کی ہوئی ہے۔ ان سے امن و امان اور بھائی چارے کے ساتھ زندہ رہنے کا حق چھینا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حکومت کی کم ہمتی، نااہلی اور مذہب کو سیاسی نعرے کو طور پر استعمال کرنے کا طریقہ ہے۔ گزشتہ روز بریلوی تنظیموں نے ملک گیر ہڑتال کی کال دی تھی۔ اس کی ناکامی سے یہ واضح ہؤا ہے کہ پاکستانی عوام ان جعلی نعروں کے ساتھ نہیں ہیں جو لبیک تحریک یا عمران خان بلند کرتے ہیں۔ وہ امن پسند لوگ ہیں اور اپنے ملک کو تعصبات اور فساد سے پاک دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ قومی اسمبلی کی قرار داد نے اس عوامی خواہش اور امید کو مسترد کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments