خوشی اور معاشرتی معیارات


پہلے اس بات کا تعین کر لیا جائے کہ خوشی کیا ہے۔ ہم خوش کیوں ہوتے ہیں۔ خوش ہونا ضروری کیوں ہے۔ کیا خوشی کے حصول میں رکاوٹیں بھی آتی ہیں۔ کیا معاشرہ حصول مسرت اور خوشی میں سد راہ ہے بھی کہ نہیں۔ کیا خوشی کا محرک خارجی ہوتا ہے۔ کیا انسان کا باطن خوشی کا منبع ہے۔ کیا انسان ہی واحد مخلوق ہے جسے خوشی کی ضرورت ہے یا انسان کے علاوہ بھی دیگر مخلوقات خوشی کے تأثرات پیش کرتی ہیں۔

کیا مسرت کا حصول ایک فطری اور جبلی عمل ہے۔ کیا انسان معاشرہ سے الگ تھلگ خوشی حاصل نہیں کر سکتا۔ انسان کا ایک معاشرے کی صورت ہی رہنا ضروری کیوں ہے۔ یہ اور اس طرح کے لا تعداد سوالات ہیں۔ جو ہمارے ذہن و دل کے نہاں خانوں میں پوشیدہ ہیں اور ہمیں بے چین رکھتے ہیں۔

خوشی کیا ہے؟

خوشی دراصل ایک جذبانی کیفیت ہے جب انسان مطمئن ہوتا ہے، انسان کو قناعت حاصل ہوتی ہے، انسان کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے اور وہ کام پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتا ہے تو اسے خوشی حاصل ہوتی ہے۔ جب انسان کے من میں ایسے وچار اور افکار بس جاتے ہیں جن سے اس کو مثبتیت کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔ اگر اس کو آسان سی بات بنا کے پیش کیا جائے تو خوشی اصل میں مثبت جذبات اور زندگی سے مطمئن ہونے کا نام ہے۔

جب کوئی شخص مسرت اور خوشی کی بابت بات کرتا ہے تو گویا اس لمحے وہ کہنا چاہ رہا ہوتا ہے کہ لمحہ موجود میں وہ کیسا محسوس کر رہا ہے، اس کو کیسا لگ رہا ہے۔ اگر سماج میں یا خارج میں جو ہو رہا ہے اور اس کے باطن میں جو محسوس ہو رہا ہے ایک سا ہو تو اسے اچھا لگتا ہے اور اسے خوشی کا احساس ہوتا ہے۔

خوشی کے بارے میں بات کرتے ہوئے دو باتیں بہت اہم ہیں۔ ایک انسان کے باطن کی کیفیات اور احساسات اور دوسرا اس کے سماج اور خارج میں جو ہو رہا ہے اس سے مطابقت۔ انسان جب خوشی کی بات کرتا ہے تو معاشرے کے مختلف عوامل اور مظاہر کا جب وہ اپنے اندرون کے محسوسات سے موازنہ کرتا ہے ، اگر اسے ایسا لگتا ہے کہ اس کے لیے سب اچھا ہو رہا ہے اور وہ مثبت انداز میں اپنے افکار و خیالات کو ترتیب دیتا ہے تو اسے خوشی محسوس ہوتی ہے۔

گویا جب آپ کے جذبات میں ایک توازن ہو اور اپ اطمینان محسوس کریں تو آپ کو خوشی کے احساسات آتے ہیں۔ ہر آدمی زندگی کو مثبت اور منفی دو انداز میں دیکھتا ہے۔ اگر آپ کی زندگی میں مثبت افکار زیادہ ہیں تو آپ کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں مسرت حاصل ہو گی۔ اگر منفی طرز فکر ہے تو خوشی کے حقیقی تأثرات بھی کہیں دھند میں گم ہو جائیں گے اور آپ کو ایسا لگے کا کہ جیسے مجھے تو کبھی خوشی نہیں ملی۔ جب آپ اپنے کام، تعلقات، کامیابیوں سے اطمینان کا تأثر لیں تو آپ کو لگے کا سب اچھا ہے اور آپ کو خوشی محسوس ہو گی۔ اگر اس مبحث کو سمیٹا جائے تو دو چیزیں اہم ہوئیں ایک جذبات کا توازن اور دوسرا اطمینانِ حیات۔

اگرچہ خوشی کے ان تأثرات کو سب کے لیے یکجا ایک معیار کی شکل میں پیش کرنا ممکن نہیں ہے تاہم کچھ ایسی علامات ہیں جن سے ہم پہچان سکتے ہیں کہ کیا ہم خوش ہیں۔ اولین بات جو آپ کو محسوس ہو گی آپ کو لگے کہ جو آپ چاہتے ہیں،  جو زندگی سے آپ تمنا کرتے ہیں، وہ آپ کو مل رہا ہے۔ آپ کو ایسی ہی زندگی ملی ہے جیسی آپ چاہتے ہیں۔ دوسرا آپ اپنے حالات سے مطمئن ہوں گے ، آپ کو لگے گا کہ حالات بہت اچھے جا رہے ہیں۔ سوم آپ کو ایسا لگے کہ جو آپ کرنا چاہتے ہیں وہی ہو رہا ہے۔ آپ کو سکون اور اطمنیان قلب حاصل ہو گا اور آپ کی ذات میں مثبتیت زیادہ ہو گی۔ مثبت خیالات زیادہ ہوں گے۔ آپ منفی طرز فکر کو ناپسند کرنے لگیں گے۔

اب ہم بات کرتے ہیں کہ کیا خارج ہماری خوشی کے حصول پر اثر انداز ہوتا ہے یا نہیں؟ کیا معاشرہ ہمارے رویے کو متاثر کرتا ہے یا نہیں؟ کیا معاشرے سے الگ خوشی کا حصول ممکن ہے؟ انسان سماجی حیوان تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسے معاشرے کی صورت مل جل کر رہنا ہے۔ انسان اپنی ضروریات کے لیے خود کفیل نہیں ہے۔ زندگی کو چلانے کے لیے ، اس گاڑی کو دھکا لگانے کے لیے اسے دوسرے لوگوں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان جب سماج میں رہے گا تو اسے کچھ ضابطوں کو اور کچھ قوانین کو ماننا پڑے گا اور ان کے مطابق اپنے رویے کو ڈھالنا ہو گا۔

اگر وہ معاشرتی معیارات کو تسلیم کر لیتا ہے اور ان کے مطابق اپنے فکر و عمل کی ترتیب بناتا ہے تو معاشرہ اس کو قبول کر لے گا اور اس کے آگے بڑھنے کے مواقع زیادہ ہوں گے اور اس کو اپنی زندگی سے اطمنیان و سکون حاصل ہو گا اور خوشی ملے گی۔ لیکن اگر وہ معاشرتی معیارات کے مطابق خود کو نہیں ڈھالتا تو اسے رکاوٹیں پیش آئیں گی اور اسے لگے کا میں اس معاشرہ میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کر رہا اور وہ ہر وقت بے چین رہے گا اور اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگے گا۔

اب سوال ہے کہ اگر معاشرتی معیارات ہی درست نہ ہوں تو پھر خوشی کے حصول کی کیا صورت ہو گی؟ معاشرتی معیارات کو تبدیل بھی تو کیا جا سکتا ہے اور جب آپ معاشرے کے ایک فرد  کے طور پر مکالمہ کریں گے تو مکالمہ کے نتیجہ آہستہ آہستہ تبدیلی سماتی جائے گی اور آپ کی زندگی میں بھی آسانیاں پیدا ہوں گی اور آنے والی نسلیں بھی آپ کے اس عمل سے ثمر بار ہوں گی۔ آپ کو اپنے مقصد کے ساتھ کمیٹڈ ہونا پڑے گا اور دیانت داری کے ساتھ معاشرتی رویوں اور معیارات کو تسلیم کرنا ہو گا اور مکالمے کے ذریعے تبدیلی لانا ہو گی۔

زندگی بیش بہا قیمت رکھتی ہے ، اسے آپ کی ضرورت ہے۔ اپنی زندگی میں مثبت پہلو کو اختیار کیجیے اور مثبت رویوں اور مکالمے کو فروغ دیجیے اور معاشرتی معیارات کو مزید بہتر بنانے میں اپنا حصہ ڈالیں اور خوشی کے ذرائع میں اضافہ کیجیے۔ اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں۔

شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
کہ اپنے حصے کی شمع جلاتے جاتے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments