مولانا مودودی، تحریک پاکستان اور قرارداد مقاصد


قیام پاکستان سے قبل مولانا مودودی ہندوستان کے مسلمانوں کے سیاسی مسائل کا حل تبلیغی سرگرمیوں میں دیکھتے تھے اور دعوت اقامت دین کے ذریعے نظام زندگی میں اسلامی طرز کا انقلاب برپا کرنے کے خواہاں تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ مسلمانوں کی مذہبی اور اخلاقی تربیت کیے بغیر ہندوستانی مسلمانوں کی آزادی کے لئے کی گئی کوئی بھی کوشش ثمر آور ثابت نہ ہو گی۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی تمام تنظیمی قوتیں اور عملی کاوشیں اسلام اور شریعت کی نشر و تبلیغ اور مسلمانوں کو عملاً اسلامی احکامات کا تابع بنانے کے لیے استعمال کریں۔

چنانچہ تقسیم ہند سے ماقبل دور میں جماعت اسلامی نظریاتی اور عملی طور پر تبلیغی دائرہ کار تک محدود رہی۔ سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھنے اور سیاست پر مفصل قلم آزمائی کرنے کے باوجود مولانا مودودی جماعت کے مخصوص تبلیغی کلچر سے باہر نکل کر عملی سیاست میں حصہ لینے سے گریزاں تھے۔ مولانا سیاست کو مذہب کا جزو لاینفک سمجھتے تھے، لیکن ان کا خیال تھا کہ سیاسی جنگ میں حصہ لینے سے پہلے مسلمانوں میں علم و عمل، اتحاد و اتفاق اور نظم اجتماعی کے شعور کو ایک خاص سطح تک بلند کرنا ناگزیر ہے۔

مودودی صاحب کے نزدیک ”منتشر اور مختلف الخیال افراد کی شکل میں مسلمانوں کا شریک جنگ ہونا فائدہ سے زیادہ نقصان کے امکانات رکھتا ہے، اور یہ نقصان اس نقصان سے بہت زیادہ ہے جو کچھ مدت تک اس جنگ سے علیحدہ رہنے کی صورت میں پہنچے گا۔ لہٰذا مسلمانوں کو اپنی تمام تر توجہ اس طرف صرف کرنی چاہیے کہ کم سے کم مدت میں اپنے اندر وہ طاقت پیدا کریں جو شریک جنگ ہونے کے لئے ضروری ہے ۔ اور جو کم سے کم طاقت مسلمانوں کو سیاسی میدان میں اترنے کے لیے درکار ہے، ’’اس کے لیے صدر اول کے مسلمانوں کی سی انتہائی دینداری اور اجتماعی تنظیم تک پہنچ جانا ضروری نہیں۔ صرف اس قدر ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں میں اسلام کے اصولوں پر ایسی رائے عام تیار کر دی جائے جو غیر مسلم تہذیب کے اثرات کو اپنی جماعت میں پھیلنے سے روک سکتی ہو۔ جس کے سامنے ایک قومی نصب العین واضح طور پر موجود ہو۔ جو اپنے نصب العین کے لئے اجتماعی جدوجہد کر سکتی ہو“ ۔

تحریک پاکستان کے تمام عرصہ میں مولانا مسلمانوں کے لیے سیاسی عمل سے اجتناب کی پالیسی کی مدلل اور پرزور وکالت کرتے رہے۔ اگست 1941 میں جماعت اسلامی کے تاسیسی اجلاس سے لے کر اگست 1947 میں تقسیم ہند کے وقوع پذیر ہونے تک مودودی صاحب نے جماعت کی سرگرمیوں کو تبلیغی دائرہ کار سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ 1946ء کے فیصلہ کن انتخابات کے موقع پر بھی کہ جب ہندوستان کی مسلم کمیونٹی کی غالب اکثریت حصول پاکستان کے لیے سیاسی میدان میں انتہائی جوش و ولولہ کے ساتھ سرگرم عمل تھی، مولانا ہوا کے مخالف سمت چلتے ہوئے، شد و مد کے ساتھ مسلمانوں کو سیاسی عمل سے علیحدگی اختیار کرنے پر آمادہ کرتے رہے۔

تحریک پاکستان کے اس عروج کے دور میں مولانا نے انتخابات میں شرکت کو اس اصولی موقف کی بنیاد پر حرام قرار دیا کہ ”(ہندوستان کا سیاسی) نظام دنیوی، لادینی ریاست کے نظریہ پر مبنی ہے۔ اس بناء پر یہ پورا نظام دراصل ایک کافرانہ نظام ہے، اس کی بنیاد اسلام کی بنیاد سے متصادم ہے اور اس اصول کو تسلیم کرتے ہوئے اس میں داخل ہونا قطعاً ایمان کے خلاف ہے“ ۔

اس اعتراض کے رد میں، کہ مولانا کی بائیکاٹ پالیسی اقتدار کا میدان غیر مسلم قوتوں کے لیے کھلا چھوڑ دینے کے مترادف ہے، مودودی صاحب تفصیلی استدلال کرتے ہوئے وضاحت فرماتے ہیں : ”اگر اس اصولی سوال کو نظرانداز کر بھی دیا جائے کہ ایک نیک مومن اس مشینری کی کافرانہ بنیادوں کو تسلیم کر کے اس میں داخل ہونے پر آمادہ ہی کیسے ہو سکتا ہے، اور اگر تقیہ کے شیعی طریقے کو اختیار کر کے چند مومن اس نظام میں داخل ہونے پر آمادہ ہو بھی جائیں، تو دیکھنا یہ ہے کہ اس تدبیر سے حاصل کیا ہو سکتا ہے۔

حکومت کی مشینری پر قابض ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ مجالس قانون ساز میں اس گروہ کو غالب اکثریت حاصل ہو۔ اس غالب اکثریت کا حصول بحالت موجودہ ہندوستان کے ایک بڑے حصے میں اہل ایمان کے لئے ممکن نہیں ہے۔ رہے وہ علاقے جہاں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے، تو اگر بالفرض وہ پاکستان کی صورت میں خودمختار ہو جائیں تب بھی خالص اسلامی اصولوں پر جو گروہ کام کرنا چاہتا ہو، اس کے غالب اکثریت حاصل کرنے کا بحالت موجودہ وہاں بھی کوئی امکان نہیں، کیونکہ ان علاقوں میں اکثریت حاصل کرنے کا تمام تر انحصار مسلمانوں کی رائے عام پر ہے اور مسلمانوں کی رائے اس وقت بالکل ناتربیت یافتہ ہے اور اسلامی فہم و شعور سے بہت بڑی حد تک عاری ہے۔

پھر اگر بالفرض ایسا گروہ اکثریت میں منتخب ہو بھی جائے تو جو حالات اس وقت پائے جاتے ہیں ان میں یہ ممکن نہیں کہ آزاد پاکستان کے نظام کو اسلامی دستور میں تبدیل کیا جا سکے۔ کیونکہ جنت الحمقا میں رہنے والے لوگ اپنے خوابوں میں خواہ کتنے ہی سبز باغ دیکھ رہے ہو، لیکن آزاد پاکستان (اگر فی الواقع بنا بھی تو) لازماً جمہوری لادینی سٹیٹ کے نظریہ پر بنے گا جس میں غیر مسلم اسی طرح برابر کے شریک حکومت ہوں گے جس طرح مسلمان، اور پاکستان میں ان کی تعداد اتنی کم اور ان کی نمائندگی کی طاقت اتنی کمزور نہ ہو گی کہ شریعت اسلامی کو حکومت کا قانون اور قرآن کو اس جمہوری نظام کا دستور بنایا جا سکے۔“

مولانا مودودی سمجھتے تھے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا اصل مسئلہ ان کے سیاسی یا معاشی حقوق کا تحفظ نہیں بلکہ ان کے منفرد تشخص کی بقاء اور ان کی تہذیبی شناخت کی حفاظت ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے دعوت دین ہی وہ واحد راہ عمل ہے جس کے ذریعے معاشرے میں اسلامی فکر و عمل کو فروغ دے کر وہ اپنا اور اپنی تہذیب کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے مولانا کے نزدیک ہندوستانی مسلمانوں کی رہنمائی کے دعویدار دونوں گروہ، یعنی آزاد پاکستان کے طلب گار لیگی مسلمان اور متحدہ ہندوستانی قومیت کے داعی کانگریسی نیشنلسٹ مسلمان، دونوں غلطی پر تھے۔

نیشنلسٹ مسلمانوں کا دعویٰ تھا کہ وہ انگریزوں سے آزادی کے بعد متحدہ ہندوستان میں اپنی تہذیب اور اپنے قومی طریقوں کی حفاظت کے لئے آئینی ضمانت لیں گے اور دستور اساسی میں ایسے تحفظات رکھوائیں گے جن سے اسلامی مفادات پر آنچ نہ آنے پائے۔ لیکن مودودی صاحب کے مطابق ”آئینی ضمانت اور دستور اساسی کے تحفظات صرف اسی قوم کے لئے مفید ہو سکتے ہیں جو اپنی تہذیب کو جانتی ہو اور اس کی حفاظت کا ناقابل تسخیر ارادہ رکھتی ہو۔ یہ صفات اگر آپ کی قوم میں موجود ہیں تو آپ کو کسی آئینی ضمانت اور کسی دستوری تحفظ کی ضرورت نہیں، اور اگر آپ کی قوم ان صفات سے عاری ہے تو یقین رکھیے کہ کوئی ضمانت اور کوئی تحفظ ایسی حالت میں کارآمد نہیں ہو سکتا ۔“

دوسری جانب پاکستان کا مطالبہ بھی مودودی صاحب کی نظر میں حماقت پر مبنی تھا۔ آپ کا موقف تھا کہ مطالبہ پاکستان کی بنیاد قوم پرستی ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ آپ سمجھتے تھے کہ اگر مسلمان ”مسلم قوم پرستی“ کی موجودہ روش پر بدستور چلتے رہے تو مٹ جائیں گے۔ برصغیر کی تقسیم کا حتمی فیصلہ ہو جانے کے بعد بھی آپ اپنے ناکام موقف کی درستگی پر مصر رہتے ہوئے مسلمانان ہند کو تلقین کرتے رہے کہ ”مسلمان اپنی قومی اغراض کے لئے سعی و جدوجہد کرنے کی بجائے اپنی تمام کوششوں کو صرف اسلام کی اصولی دعوت پر مرکوز کردیں اور من حیث القوم اپنے اخلاق، اعمال اور اجتماعی زندگی میں اس کی شہادت دیں جس سے دنیا یقین کر سکے کہ فی الواقع یہ وہ قوم ہے جو اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ محض دنیا کی اصلاح کے لئے جینے والی ہے اور درحقیقت جن اصولوں کو یہ پیش کر رہی ہے وہ انسانی زندگی کو انفرادی اور اجتماعی طور پر نہایت اعلیٰ و ارفع اور اصلح بنا دینے والے ہیں۔

یہی راہ مسلمانوں کے لئے پہلے بھی راہ نجات تھی اور اب بھی اسی میں ان کے لئے نجات ہے۔ میں کئی سال سے ان کو اسی کی طرف بلا رہا ہوں۔ اگر یہ قوم پرستانہ سیاست کی راہ اختیار کرنے کی بجائے اس راہ کو اختیار کرتے، اور جس طرح پچھلے دس سالوں میں انہوں نے اپنی پوری قومی طاقت کو اس راہ پر لگایا ہے اسی طرح کہیں اس راہ پر لگایا ہوتا تو آج ہندوستان کی سیاست کا نقشہ بالکل بدلا ہوا ہوتا اور دو چھوٹے چھوٹے پاکستانوں کی جگہ سارے ہندوستان کے پاکستان بن جانے کے امکانات ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتے۔لیکن اس وقت میری دعوت انہیں دشمن کی دعوت یا ایک دیوانے دوست کی دعوت محسوس ہوئی۔“

مطالبہ پاکستان کی قبولیت پر مولانا ہندوستانی مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ دراصل ”انہوں نے دوہری حماقت کا ارتکاب کیا ہے کہ ایک طرف تو نظام حکومت کے لیے مغرب کے جمہوری اصولوں پر راضی ہو گئے اور دوسری طرف خود اپنی طرف سے تقسیم ملک کا یہ اصول پیش کیا کہ جہاں ہم اکثریت میں ہیں وہاں ہم حاکم اور تم محکوم ہو، اور جہاں تم اکثریت میں ہوں وہاں تم حاکم اور ہم محکوم ہوں۔ کئی سال کی تلخ اور خونریز کشمکش کے بعد اب یہ“مرکب حماقت” کامیابی کے مرحلے میں پہنچ گئی ہے۔“

فروری 1946 میں ترجمان القرآن میں شائع ہونے والے مضمون بعنوان ”1946 کے انتخابات اور جماعت اسلامی“ میں مولانا مودودی نیشنلسٹ اور لیگی مسلمان رہنماؤں کی سیاسی تدابیر کو لاحاصل قرار دیتے ہوئے مسلمانان ہند کے لیے ایک نسبتاً وسیع البنیاد اور طویل المدتی پروگرام تجویز کرتے ہیں۔ اپنے مجوزہ پروگرام کی مختصراً وضاحت مولانا یوں کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے انبوہ میں سے صالح اہل ایمان کے عنصر کو چھانٹ کر اعلیٰ درجے کی اخلاقی تربیت کے ساتھ منظم کیا جائے اور ان کو اس کام کے لیے تیار کیا جائے کہ وہ مسلم قومیت کی بجائے خود اسلام کو ایک اصولی تحریک کی حیثیت سے لے کر اٹھ سکیں، اور پھر اس کے بعد اس گروہ کے ذریعے عام مسلمانوں میں اسلامی اقدار کا شعور اور اسلامی نظام کے قیام کا مضبوط ارادہ پیدا کیا جائے اور ان کی رائے عامہ کو اس حد تک تیار کیا جائے کہ وہ جمہوری یا غیر جمہوری طریقوں سے اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگانے پر آمادہ ہو جائیں۔

اسی مضمون میں مولانا اپنے پروگرام پر اس اعتراض کا رد بھی کرتے ہیں کہ یہ پروگرام بہت طویل المدتی ہونے کے باعث عملی اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ مولانا سمجھتے ہیں کہ ان کے ”پروگرام میں سارا دیر طلب کام صرف اس ابتدائی صالح گروہ کی تنظیم و تربیت کا ہے جو اسلامی انقلاب کی ایک وسیع تحریک کا موزوں محرک بن سکے۔ ایسے ایک گروہ کی تنظیم کے بعد یہ تحریک اس طرح پھیلے گی جیسے خشک آگ پھیلتی ہے۔“ مولانا یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس پروگرام سے ہٹ کر کسی بھی سیاسی عمل میں شرکت مسلمانوں کے لیے محض وقت کا ضیاع ثابت ہو گی اور موجودہ حالات میں ان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ عملی سیاست سے فی الحال قطع نظر کر لیں۔

برطانوی ہند کی تاریخ میں مولانا مودودی مسلمانان ہند کو سیاست سے دوری کا درس دینے والے پہلے مسلم دانشور نہیں تھے۔ قبل ازیں سر سید احمد خان بھی سیاست کو مسلمانوں کے لیے ناپسندیدہ بوجھ قرار دیتے رہے تھے۔ سرسید سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو جدید علوم کے حصول تک سیاست سے اجتناب کرنا چاہیے، جبکہ مودودی صاحب چاہتے تھے کہ سیاست کے کارزار میں اترنے سے پہلے مسلم سماج اسلامی فہم و شعور کے ایک خاص معیار تک پہنچ لے۔ تاہم سرسید کی اپنے موقف پر تاحیات استقامت کے برعکس مودودی صاحب زیادہ دیر تک اپنی جماعت کو عملی سیاست سے دور نہ رکھ سکے۔ قیام پاکستان کی ”انہونی“ نے مولانا مودودی کو اپنی جماعت کا سیاسی نظریہ اور لائحہ عمل بتدریج لیکن یکسر تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ تبدیلی کا یہ عمل چند ہی ماہ میں مکمل ہو گیا۔

پاکستان کا قیام نوشتہ دیوار تھا۔ مودودی صاحب سمجھ چکے تھے کہ ان کا اور ان کی تحریک کا مستقبل پاکستان سے وابستہ ہے۔ مئی 1947 میں جماعت کی شوریٰ نے مودودی صاحب کے مشورے پر فیصلہ کیا کہ مرکز جماعت اسلامی پاکستان میں ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ مودودی صاحب نے تقسیم ہند سے متعلق جاری سیاسی عمل میں آل انڈیا مسلم لیگ کے موقف کی مخالفت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں شرکت کے حوالے سے جماعت اسلامی کے کچھ کارکنان کا خیال تھا کہ کافرانہ سیاسی نظام سے لاتعلقی کے جس اصول کی بنیاد پر مودودی صاحب نے 1946 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، اسی اصول کی بنیاد پر ریفرنڈم کا بھی بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ ”ورنہ ہم پاکستان کے حق میں اگر ووٹ دیں گے تو یہ ووٹ آپ سے آپ اس نظام حکومت کے حق میں شمار ہو گا جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہو رہا ہے۔“

اس معاملے پر مودودی صاحب سے ہدایت طلب کی گئی تو ان کا جواب یہ تھا کہ ”استصواب رائے کا معاملہ مجالس قانون ساز کے انتخابات کے معاملے سے اصولاً مختلف ہے۔ اس معاملے میں رائے دینا بالکل جائز ہے اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔“ اور اگرچہ مولانا نے جماعت کے ارکان کو پابند نہیں کیا کہ وہ لازماً پاکستان کے حق میں ووٹ دیں لیکن انہوں نے اپنی شخصی رائے کا اظہار ضرور کیا کہ اگر وہ صوبہ سرحد کے رہنے والے ہوتے تو ان کا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔

قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی کے رہنما مسلسل اسں تأثر کو زائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ تحریک پاکستان کے دوران جماعت نے پاکستان مخالف رویہ اختیار کیا تھا۔ سابق امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد مولانا مودودی پر پاکستان اور قائداعظم کی مخالفت کے الزام کو ایک بیہودہ اور بے بنیاد الزام قرار دیتے ہیں۔ مولانا طفیل کہتے ہیں کہ ”نظریہ پاکستان یعنی دو قومی نظریہ مسلم قومیت اور انہیں ایک سیاسی نصب العین کی صورت میں متشکل کرنے کا کام بلاشبہ سارا نہیں کہ بیشتر مولانا مودودی نے کیا۔

“ اس معاملے پر ایک دلچسپ تبصرہ ڈاکٹر اسرار احمد (جو قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی کی تحریک سے عملاً منسلک رہے ) اس طرح کرتے ہیں کہ ”جماعت اسلامی کا تحریک پاکستان سے تعلق ایک اختلافی اور نزاعی مسئلہ ہے اور اگرچہ جماعت کے زعماء و عمائدین بہت زور دے کر کہتے ہیں کہ جماعت کبھی بھی پاکستان کی مخالف نہیں رہی بلکہ بعض سادہ لوح لوگ تو اس سے بڑھ کر یہ دعویٰ بھی کر گزرتے ہیں کہ قیام پاکستان کے ضمن میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد سب سے بڑھ کر حصہ مولانا مودودی کا ہے۔ لیکن عام طور پر یہ بات تسلیم نہیں کی جاتی اور ان دعوؤں کی یا تو شدت کے ساتھ تردید کی جاتی ہے یا کم از کم انہیں مسکرا کر یا ہنس کر ٹال دیا جاتا ہے۔

بہر طور قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی بنائے منطقی سے متعلق مودودی صاحب اپنے خیالات میں واضح تبدیلی لے کر آئے۔ جس پاکستان کے مطالبہ کو آپ دوہری حماقت سے تعبیر کرتے تھے، اسی پاکستان کے قیام کو خدائی معجزہ قرار دینے لگے۔ مودودی صاحب کے اپنے الفاظ یوں ہیں کہ ”اب سے ڈیڑھ سال پہلے تک اس امر کے کوئی آثار نہ تھے کہ ہندوستان تقسیم ہو جائے گا اور یہاں مسلمانوں کی ایک آزاد سلطنت قائم ہو جائے گی۔ حتیٰ کہ جو لوگ آگے چل رہے تھے اور اس مطالبے کی جدوجہد میں قیادت کا فرض ادا کر رہے تھے، خود ان کو بھی اس بات کا قطعی یقین نہ تھا کہ پاکستان قائم ہو جائے گا۔

جس کے بعد حالات جس طرح بدلے اور پاکستان کے قیام کے لیے جس طرح فضاء سازگار ہوئی اور ملک آناً فاناً تقسیم ہو گیا، اس کی آپ جو چاہیں عقلی توجیہیں کریں، لیکن میں اس انقلاب میں ارادۂ الٰہی کو خاص طور پر شامل پاتا ہوں۔ واقعہ در حقیقت یہ ہے کہ صدیوں کے بعد تاریخ میں یہ بات پیش آئی ہے کہ ایک قوم نے کھڑے ہو کر بحیثیت قوم یہ کہا کہ ہم اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اور چونکہ غیر مسلم اکثریت کی حکومت میں ہمارے لئے اس کا امکان نہیں ہے لہٰذا ہمیں ایک آزاد خطۂ زمین ملنا چاہیے، اگر ہمیں یہ آزاد خطہ مل جائے تو اس میں ہم پورے کے پورے اسلام کو غالب کریں گے۔ خدا کے ہاں یہ بات مقبول ہوئی کہ جب یہ قوم کہتی ہے کہ ہم اسلامی نظام حیات کے اختیار کرنا چاہتے ہیں تو ایک بار اسے اس کا موقع دینا چاہیے۔‘‘

مولانا کے خیالات کا یہ انقلاب محض ریاست پاکستان کی نظریاتی اساس تک محدود نہ تھا۔ پاکستان میں اسلامی ریاست کے قیام کے حوالے سے بھی مولانا کے خیالات اسی کایا پلٹ کی زد میں آئے۔ قیام پاکستان سے قبل مولانا کا نظریہ تھا کہ ملک کا دستور اور سیاسی نظام اس کے باشندوں کے نظریات، عادات، اور اخلاقیات کا عکس ہوتا ہے۔ چنانچہ ریاست کی سطح پر اسلام نافذ کرنے کی کوئی بھی کاوش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ افراد کے انفرادی و اجتماعی کردار میں اسلامی اقدار ظہور پذیر نہیں ہوتیں۔

12 ستمبر 1940 کو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھے گئے ایک مقالے، بعنوان اسلامی ریاست کیسے قائم ہوتی ہے، میں مولانا فرماتے ہیں کہ ”بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ایک دفعہ غیر اسلامی طرز ہی کا سہی، مسلمانوں کا قومی سٹیٹ قائم تو ہو جائے، پھر رفتہ رفتہ تعلیم و تربیت اور اخلاقی اصلاح کے ذریعہ سے اس کو اسلامی سٹیٹ میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ مگر میں نے تاریخ، سیاسیات اور اجتماعیات کا جو تھوڑا بہت مطالعہ کیا ہے اس کی بناء پر میں اس کو ناممکن سمجھتا ہوں، اور اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جائے تو میں اس کو ایک معجزہ سمجھوں گا۔

حکومت کا نظام اجتماعی زندگی میں بڑی گہری جڑیں رکھتا ہے۔ جب تک اجتماعی زندگی میں تغیر واقع نہ ہو، کسی مصنوعی تدبیر سے نظام حکومت میں کوئی مستقل تغیر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ عمر بن عبد العزیز جیسا فرمانروا جس کی پشت پر تابعین اور تبع تابعین کی ایک بڑی جماعت بھی تھی، اس معاملہ میں قطعی ناکام ہو چکا ہے، کیونکہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی اس اصلاح کے لئے تیار نہ تھی۔ محمد تغلق اور عالمگیر جیسے طاقتور بادشاہ اپنی شخصی دینداری کے باوجود نظام حکومت میں کوئی تغیر نہ کر سکے۔“

اپنے انہی نظریات کی بنیاد پر تحریک پاکستان کے تمام عرصے کے دوران مولانا مودودی اور ان کے پیروکار مسلمانوں کی قومی ریاست کے حصول کی سیاسی جدوجہد کو کار لاحاصل قرار دے کر دعوت و تبلیغ کے ذریعے انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کے مشن پر کاربند رہے۔ تاہم قیام پاکستان کو ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ اسلامی ریاست کے قیام میں نظام حکومت کے کردار کے حوالے سے مولانا کی بد ظنی یکایک حسن ظن میں بدل گئی۔

قبل ازیں ریاست کے کردار کے حوالے سے مولانا جن دلائل کا رد فراہم کرتے رہے، بعینہٖ انہی دلائل کی ترویج کرتے ہوئے آپ ریاست پاکستان سے پاکستان کے باشندوں میں اسلامی شعور، اسلامی ذہنیت اور اسلامی اخلاق پیدا کرنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ مولانا قومی ریاست سے تقاضا کرنے لگے کہ وہ افراد کی اسلامی زندگی کی تعمیر میں معمار کا فرض ادا کرے۔

مئی 1948 میں ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے ایک مباحثے میں مولانا کا کہنا تھا کہ ”اس وقت چونکہ پاکستان کا آئندہ نظام زیر تشکیل ہے اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ایسی ریاست بن جائے جو اسلامی زندگی کی معمار بن سکے۔ ہماری یہ خواہش اگر پوری ہو گئی تو ریاست کے وسیع ذرائع اور طاقتوں کو استعمال کر کے پاکستان کے باشندوں میں ذہنی اور اخلاقی انقلاب برپا کرنا بہت آسان ہو جائے گا۔ پھر جس نسبت سے ہمارا معاشرہ بدلتا جائے گا۔ اسی نسبت سے ہماری ریاست بھی ایک مکمل اسلامی ریاست بنتی چلی جائے گی۔“

مولانا مودودی اپنی سیاسی فکر میں اس وسیع تر تبدیلی کے جواز کے طور پر دو اسباب کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ان میں سے پہلا سبب آبادی کا تبادلہ ہے جس کے باعث پاکستان کی آبادی میں غیر مسلموں کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ تقسیم سے قبل مودودی صاحب کی رائے تھی کہ غیر مسلموں کی خاطر خواہ نمائندگی کے سبب آزاد پاکستان لازماً سیکولر جمہوری ریاست ہو گا اور اس کے نظام کو اسلامی دستور میں بدلنا ناممکن ہو گا۔ مولانا کی اس رائے کے حوالے سے 1953 کے پنجاب فسادات کی جوڈیشل انکوائری کے دوران جب انکوائری کمیشن نے یہی سوال مودودی صاحب کے سامنے رکھا کہ اب آپ کیونکر اسلامی ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ ترجمان القرآن مجلہ فروری 1946 میں آپ اس کے برعکس رائے کا اظہار کر چکے ہیں۔

اس پر مودودی کا جواب یہ تھا کہ جس وقت اس رائے کا اظہار کیا گیا تھا اس وقت توقع کی جا رہی تھی کہ غیر مسلم مغربی پاکستان کی آبادی کا 26 فیصد ہوں گے۔ لیکن آبادی کے تبادلہ کے نتیجہ میں اب مغربی پاکستان کی بیشتر آبادی مسلمان ہے جبکہ مشرقی پاکستان میں بھی غیر مسلم آبادی کے تناسب میں کمی آئی ہے۔ غیر مسلم آبادی کے تناسب میں کمی آنے کے باعث حالات بدل چکے ہیں اور اب ہم ایک خالص اسلامی ریاست قائم کر سکتے ہیں۔

دوسرا اہم سبب، بقول مولانا مودودی، قیام پاکستان کی صورت میں برپا ہونے والا مصنوعی انقلاب ہے، جس کے باعث اسلامی انقلاب کے مراحل کی فطری ترتیب پلٹ گئی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ بلاشبہ سیاسی انقلاب سے پہلے ایک تمدنی، اجتماعی اور اخلاقی انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی اسلامی انقلاب کا فطری طریقہ ہے۔ لیکن اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ پاکستان کے قیام کی شکل میں سیاسی انقلاب رونما ہو چکا ہے۔ اب یہ سوال چھیڑنا بالکل بیکار ہے کہ معاشرتی انقلاب پہلے برپا کرنا چاہیے اور سیاسی انقلاب بعد میں۔

اب چونکہ سیاسی انقلاب برپا ہو چکا ہے لہٰذا سیاسی اقتدار کا کوئی نہ کوئی رخ متعین کرنا لازمی ہے کیونکہ حکومت کی مشینری کو اخلاقی انقلاب رونما ہونے تک معطل بہرحال نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی صورتحال میں ہیئت حاکمہ کو غیر اسلامی اصولوں کے مطابق کام کرنے کے لیے چھوڑ دینا اجتماعی اور قومی حیثیت سے ارتداد کے ارتکاب کے مترادف ہو گا۔

بہرصورت تحریک پاکستان کی کامیابی نے مولانا مودودی کو مجبور کر دیا کہ وہ اسلام کے نعرے کی زبردست سیاسی قوت کا درست ادراک کریں۔ تحریک پاکستان کے دوران مولانا مودودی مطالبۂ پاکستان کی شرعی حیثیت، لیگی قیادت کے اسلامی رجحانات اور تحریک پاکستان کی کامیابی کے حوالے سے شکوک کا اظہار کرتے رہے اور آنے والے سیاسی بدلاؤ کی پیش بینی میں ناکام رہے۔ تاہم قیام پاکستان کے بعد مولانا نے سیاست سے دور رہ کر محض دعوت و تبلیغ کے ذریعے معاشرتی انقلاب پر کام کرنے کی پالیسی پر نظرثانی کرنے میں دیر نہیں کی اور ایک پرنویس مصنف کے ساتھ ساتھ ایک متحرک سیاسی رہنما کا کردار بھی بخوبی نبھانے لگے۔

دسمبر 1947 میں جماعت اسلامی نے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے مطالبے کی مہم شروع کر دی۔ طویل مضامین کی صورت میں مودودی صاحب نے ریاست میں نفاذ اسلام کے فلسفہ اور طریقہ کار کو جزوی تفصیلات کے ساتھ قلمبند کیا۔ یونیورسٹی لیکچرز اور ریڈیو نشریات پر اپنے موقف کو دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ خطوط، محضر ناموں، تاروں، قراردادوں اور مساجد میں تقاریر کے ذریعے رائے عامہ کو اپنے موقف کے حق میں ہموار کیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ اہم شہروں میں جلسے منعقد کر کے ایک ملک گیر تحریک برپا کر دی گئی۔

نفاذ اسلام کے مطالبے کو ایک حد تک عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ تحریک کو دستور ساز اسمبلی میں مسلم لیگ کے بہت سے اراکین کی حمایت بھی حاصل تھی۔ تحریک کے دوران ہی اکتوبر 1948 میں مولانا کو سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے چھ ماہ بعد جبکہ مولانا ابھی جیل میں تھے کہ دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد کی منظور کر لی۔ قرارداد مقاصد کی صورت میں تحریک کو جزوی کامیابی حاصل ہوئی۔ مودودی صاحب کا تجویز کردہ نفاذ اسلام کا مکمل پروگرام تین مراحل پر مشتمل تھا اور قرارداد مقاصد کی منظوری اس پروگرام کا محض اولین قدم تھا۔ مطالبۂ نفاذ اسلام کی تحریک کبھی بھی اس پہلے قدم سے آگے نہ بڑھ سکی، کیونکہ تحریک پاکستان کی طرح تحریک نفاذ اسلام کی مرتبہ بھی مودودی صاحب حساب کتاب میں چوک گئے۔

نفاذ اسلام کے مجوزہ طریقہ کار میں مولانا مودودی نے صراحت کے ساتھ واضح کر دیا تھا کہ ریاست کے مسلمان ہونے کا طریقہ محض یہ نہیں ہو گا کہ ریاست یہ اعلان کر دے کہ پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ بہت سے ممالک کی حکومتوں نے اسلام کو سرکاری مذہب قرار دے رکھا ہے لیکن ایسی ریاستوں کو اسلامی ریاست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مودودی صاحب ریاست کے قبول اسلام کے لیے ایک چار نکاتی ”بیعت“ مرتب کرتے ہیں کہ جس کے دستوری اقرار سے ریاست مسلمان ہو جائے گی اور ”تین مراحل“ پر مبنی نفاذ اسلام کا پہلا مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔ اس ”اولین مرحلے“ کی تفصیلات مودودی صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں :

”جب کسی ملک کا دستور مرتب کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے بطور اصول موضوعہ یہ طے کیا جاتا ہے کہ کن اصولوں کے مطابق نظام بنانا ہے۔ ابھی آپ کے سامنے ہندوستان کا دستور بن چکا ہے اور وہاں آپ دیکھ چکے ہیں کہ سب سے پہلے ملک کی دستور ساز اسمبلی نے ایک قرارداد مقاصد پاس کر کے ان مقاصد کا تعین کیا ہے جن کے لیے وہاں کی حکومت کام کرے گی۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں دستور سازی کا پہلا قدم یہ ہو سکتا ہے کہ مقاصد کو طے کر لیا جائے۔ انہی مقاصد کو ہم نے دستوری زبان میں چار نکات کی صورت میں مرتب کیا ہے:

1۔ پاکستان میں حاکمیت خدا کی ہے اور ریاست اس کے نائب کی حیثیت سے ملک کا انتظام کرے گی۔
2۔ ریاست کا اساسی قانون شریعت خداوندی ہے جو محمد ﷺ کے ذریعہ سے ہمیں پہنچی ہے۔

3۔ تمام پچھلے قوانین جو شریعت سے متصادم ہوتے ہیں بتدریج بدل دیے جائیں گے اور آئندہ کوئی ایسا قانون نہ بنایا جائے گا جو شریعت سے متصادم ہوتا ہو۔

4۔ ریاست اپنے اختیارات کے استعمال میں اسلامی حدود سے تجاوز کرنے کی مجاز نہ ہو گی۔

یہ وہ کلمہ شہادت ہے جسے اپنی آئینی زبان یعنی دستور ساز اسمبلی کے ذریعے سے ادا کر کے ہماری ریاست مسلمان ہو جائے گی۔ ”

”اگر آل انڈیا مسلم لیگ کی مغرب زدہ اور محض نام کی مسلمان قیادت اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے علیحدہ ریاست کے حصول کی جنگ جیت سکتی ہے تو اسلامی شعور و فہم سے آراستہ، با عمل مومنین کی جماعت اقتدار کی باگ ڈور کیوں نہیں سنبھال سکتی؟“

پاکستان میں نفاذ اسلام کے طریقہ کار کی وضاحت کرتے ہوئے یہ نکتہ مولانا مودودی کے ذہن میں ضرور موجود ہو گا، کیونکہ نفاذ اسلام کا مودودی ساختہ طریقہ کار آئینی طور ملائیت (تھیوکریسی) کی راہ ہموار کرنے کی شعوری کاوش پر مبنی ہے۔

وزیر اعظم لیاقت علی خان نے بھی مولانا مودودی پر الزام لگایا تھا کہ وہ امیر المومنین بننا چاہتے ہیں۔ خود مولانا مودودی اپنے اس مطمح نظر کے اظہار میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیتے کہ وہ پاکستان میں اقتدار کو ”صالحین“ کا حق سمجھتے ہیں، اور یہی اقدام ان کے نفاذ اسلام کے پروگرام کا ”دوسرا مرحلہ“ ہے۔ مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ ”ریاست کو مسلمان بنانے کے بعد تعمیر حیات اسلامی کی راہ میں دوسرا قدم یہ ہے کہ ریاست کی زمام کار جمہوری انتخاب کے ذریعہ سے ایسے لوگوں کے ہاتھ منتقل ہو جو اسلام کو جانتے بھی ہوں اور اس کے مطابق ملک کے نظام زندگی کو ڈھالنا بھی چاہتے ہوں۔“

اقتدار کی صالح قیادت کے ہاتھ منتقلی کے بعد نفاذ اسلام پروگرام کے ”تیسرے مرحلے“ کی ابتداء ہو گی۔ اس مرحلے میں صالحین کی برسر اقتدار جماعت ریاستی ذرائع اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ہمہ گیر اصلاحی پروگرام کے ذریعے پرانے ہندوانہ اور فرنگیانہ تمدنی اور معاشی ڈھانچے کو اکھیڑ اسلامی سانچے میں ڈھال دے گی۔ مولانا اپنے تجویز کردہ ریاستی نظام کو تھیوڈیموکریسی یا الٰہی جمہوریت کی اصطلاح سے موسوم کرتے ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ اگر ایک صالح اور مدبر قیادت برسر اقتدار ہو تو دس سال کے اندر اندر ملک کا اجتماعی نقشہ اسلامی طرز پر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

اگرچہ نفاذ اسلام پروگرام کے دوسرے اور تیسرے مرحلے، یعنی صالح قیادت کے برسر اقتدار آنے اور اسلامی اصلاح و انقلاب کے عملاً رونما ہونے کے لیے مودودی صاحب صرف اور صرف انتخابات کے جمہوری و آئینی طریقہ کار کو روا سمجھتے ہیں۔ لیکن ایسی کوئی جمہوری پابندی وہ اپنے پروگرام کے پہلے مرحلے پر عائد نہیں کرتے (یعنی یہ مطالبہ کہ حکومت پاکستان چار نکاتی قرارداد مقاصد کی منظوری کے ذریعے دستور کی زبان میں ریاست کے مسلمان ہونے کا اقرار کرے ) ۔

بلکہ اس بنیادی مطالبے کو منوانے کے لیے وہ عوام کو دلیل مع قوت کی پالیسی اختیار کرنے پر اکساتے ہیں۔ مولانا یہ ”فتویٰ“ جاری کرتے ہیں کہ جب تک حکومت پاکستان قرارداد مقاصد کی منظوری کے ذریعے اللہ رب العالمین کی حاکمیت کا اقرار نہیں کرتی اور اس کو تسلیم نہیں کرتی اس وقت تک حکومت کی حیثیت وہی ہے جو اس کے پیشرو انگریزی حکومت کی تھی اور سرکاری ملازمین کے لیے ایسی حکومت سے وفاداری کا حلف اٹھانا غیر شرعی اور ناجائز ہے۔

اسی بے لچک موقف کی بنیاد پر مودودی صاحب کی گرفتاری کے بعد عدالت کے سامنے پیش ہونے والے جماعت اسلامی کے گواہان نے عدالت کے روبرو کوئی بیان دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ یہ انگریزی یعنی غیر الٰہی قانون کی عدالت ہے جو خدا کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتی، اس لیے ہم اس کے روبرو کارروائی میں شریک نہیں ہو سکتے۔

یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر صالحین کی جماعت کے اقتدار تک پہنچنے کا ذریعہ جمہوری انتخاب ہی ہے تو مولانا نے اس قدم کو ہی نفاذ اسلام کا پہلا مرحلہ کیوں قرار نہیں دیا۔ جمہوری انتخاب کے ذریعے اکثریت حاصل کر کے اقتدار میں آنے کے بعد صالح قیادت پر ایسی کوئی قدغن نہ ہوتی کہ وہ ملک میں اپنی مرضی کا آئین نافذ نہ کر سکیں تو پھر کیوں مودودی صاحب اپنی توجہ آئندہ انتخابات پر مرکوز رکھنے کی بجائے دستور ساز اسمبلی سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ قرارداد مقاصد کے ذریعے ریاست کے مسلمان ہونے کا اعلان کرے؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دراصل مودودی صاحب اپنی تجویز کردہ قرارداد مقاصد سے یہ خوش کن توقع وابستہ کیے ہوئے تھے کہ اس قرارداد کی منظوری کا منطقی نتیجہ یہ ہو گا کہ عوام میں از خود یہ شعور پیدا ہو جائے گا کہ وہ انتخابات میں صرف صالحین کی جماعت کو ہی اپنے نمائندہ کے طور پر منتخب کریں گے، کیونکہ ریاست کے درست طریقہ کار سے اسلام قبول کر لینے کے بعد رائے دہندگان صحیح طور پر یہ سمجھ پائیں گے کہ اب انہیں کس مقصد اور کس کام کے لیے اپنے نمائندے منتخب کرنے ہیں۔

مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ ”عوام میں عقل و دانش کی لاکھ کمی سہی، مگر وہ اتنی سمجھ بوجھ ضرور رکھتے ہیں کہ انہیں کس کام کے لیے کس کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور ان کے درمیان کون لوگ کس مطلب کے لئے موزوں ہیں۔ آخر وہ اتنے نادان تو نہیں ہیں کہ علاج کے لئے وکیل اور مقدمہ لڑنے کے لیے ڈاکٹر کو تلاش کریں۔ اب تک ان کے سامنے یہ مقصد آیا ہی نہ تھا کہ انہیں ایک دینی نظام چلانے کے لیے آدمی درکار ہیں۔ پھر وہ اس کے چلانے والے آخر تلاش کرتے ہی کیوں؟

اب اگر ہم ایک اسلامی ریاست کا دستور بنائیں اور لوگوں کے سامنے یہ سوال آ جائے کہ اس نظام کو چلانے کے لیے انہیں موزوں آدمی منتخب کرنے ہیں، تو چاہے ان کا انتخاب کمال درجہ کا معیاری نہ ہو، مگر بہرحال اس کام کے لیے ان کی نگاہیں فساق و فجار اور دین مغربی کے مومنین پر نہیں پڑیں گی۔ وہ اس کے لیے انہی لوگوں کو تلاش کریں گے جو اخلاقی ذہنی اور علمی حیثیت سے اس کے اہل ہوں گے ۔

12 مارچ 1949 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے مولانا مودودی کے مجوزہ خطوط پر مبنی قرارداد مقاصد منظور کر کے ریاست کے آئندہ دستور کو اسلامی اصولوں پر استوار کرنے کا اعلان کیا۔ اس وقت مولانا مودودی ملتان جیل میں نظر بند تھے۔ میاں طفیل جو جیل میں مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے ہمراہ تھے، دعویٰ کرتے ہیں کہ قرارداد مقاصد کا مسودہ منظور کیے جانے سے قبل مولانا مودودی کو ان کے مشورے اور رضامندی حاصل کرنے لئے ملتان جیل میں دکھایا گیا تھا۔

مودودی صاحب کا ذکر دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد کے پر بحث دوران بھی ہوا۔ تاہم یہ تذکرہ کسی بھی ایسے تأثر سے عاری تھا کہ حکومت وقت قرارداد مقاصد کے حوالے سے مولانا مودودی کی تحریری یا تحریکی مساعی کو قابل قدر گردانتی ہے۔ جمہوریت کے اسلامی تصور پر بات کرتے ہوئے کانگریس کی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ سریس چندر چٹوپا دھیائے کی جانب سے مودودی صاحب کی ایک تحریر کا اقتباس پڑھ کر سنایا گیا۔ اقتباس کی پڑھت کے بعد چٹوپا دھیائے نے سردار عبدالرب نشتر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد مقاصد میں جس طرز حکومت کو جمہوریت کا نام دیا جا رہا ہے وہ دراصل تھیوکریسی ہی ہے۔ اس پر سردار عبدالرب نشتر  نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس شخص (مولانا مودودی) کے ساتھ حکومت نے کیا سلوک کیا ہے؟ یہ شخص جیل میں ہے۔

قرارداد مقاصد کی منظوری کے فوراً بعد جماعت اسلامی نے اپنی مجلس شوریٰ کے ذریعے پاکستان کے اسلامی ریاست ہونے کا اعلان کیا اور حکومت کی ملازمت، حکومت کے ساتھ وفاداری کے حلف اور عدالتوں میں حاضری کو شرعاً جائز قرار دیا۔

جماعت کی مجلس شوریٰ نے اعلان کیا کہ ”ہمارے نزدیک اس قرارداد کے پاس ہو جانے کے بعد پاکستان نے ایک مسجد کی طرح مقدس بن گیا ہے۔ اس لیے اب اس کی خدمت اور حفاظت کرنا ہر صاحب ایمان کے لیے لازم اور عبادت کے مترادف ہے۔

پاکستان کو اگر کوئی نقصان پہنچائے گا تو وہ اسلام کے اس گھر کو زک پہنچانے کے جرم کا ارتکاب کرے گا۔ حکومت پاکستان کی حیثیت بھی اب اس کے امام کی سی ہے، کہ اگر امام ٹھیک کام کرے تو اس کی اطاعت اور فرماں برداری شرعاً اور قانوناً لازم ہو گی۔“ بعد ازاں جماعت اسلامی نے اپنے مفصل تنظیمی دستور 1952 میں جمہوری انتخابی سیاست کو اپنا منشور قرار دیا اور فیصلہ کیا کہ جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی، اور اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کی طرز پر نہیں کرے گی۔

مولانا مودودی جانتے تھے کہ ان کے مجوزہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہے، لیکن انہوں نے کارکنان پر واضح کر دیا کہ آئینی و جمہوری نظام میں قیادت کی تبدیلی کا واحد آئینی راستہ انتخابات ہیں، اور ایک آئینی اور جمہوری نظام میں رہتے ہوئے تبدیلی قیادت کے لیے کوئی غیر آئینی راستہ اختیار کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد مولانا مودودی یہ توقع رکھتے تھے کہ ریاست کے اسلامی دستور سے وابستگی کے اعلان کے بعد عوام ازخود ہی انتخابی عمل کے ذریعے زمام اقتدار مذہبی علماء کے سپرد کردیں گے۔ تاہم مولانا کی یہ توقع درست ثابت نہ ہوئی اور پاکستان کے انتخابی معرکوں میں جماعت اسلامی کو ہمیشہ تلخ نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments