آئین اور بیانیے کا تصادم


ایک غلط افواہ آج کل گردش میں ہے کہ سکولوں کی تعلیم میں سے اسلامیات کی تدریس کو نکالا جا رہا ہے یا کم کیا جا رہا ہے۔ اسلامیات کے مضمون کو نصاب سے نکالنے کا مطالبہ قطعاً کسی نے نہیں کیا ہے اور نہ اس کا کوئی ارادہ ہے۔ اگر کوئی یہ بات لکھتا ہے تو وہ غلط بیانی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اسلامیات کو کم کرنے کی افواہ بھی غلط ہے۔ جب واحد قومی نصاب کی تشکیل ہو رہی تھی اس وقت اس اندیشے کا اظہار ضرور ہوا تھا کہ اس میں پہلے کی نسبت مواد بہت زیادہ کرنے سے کم عمر بچوں پر یہ بوجھ شاید ذہنی طور پہ نقصان دہ ثابت ہو، لیکن نصاب کی تشکیل مکمل ہونے کے بعد یہ اعتراض پھر نہیں دہرایا گیا۔ لہٰذا اسلامیات کے نصابی مضمون کو کم کرنے کا اس وقت کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ یہ افواہیں بھی غلط ہیں۔

تو پھر کہا کیا جا رہا ہے کہ جس پر شدومد سے اختلاف پھوٹ پڑا ہے؟

دراصل سپریم کورٹ اور سپریم کورٹ کے قائم کردہ اقلیتی کمیشن کی جانب سے نصاب میں مضامین کی ترتیب درست کرنے کی طرف قدم اٹھایا جا رہا ہے تاکہ وہ آئین پا کستان کے تابع ہو سکے اوراس سے متصادم نہ ہو۔ چونکہ سپریم کورٹ آئین کی تشریح کا اعلیٰ ترین ادارہ ہے، لہٰذا وہی بہتر بتا سکتا ہے کہ آئین سے مطابقت کیا ہے اور اس سے تصادم کہاں ہو رہا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے کے چند حلقوں کوترتیب کی یہ درستی پسند نہیں۔

ترتیب اور اس کی درستی سے کیا مراد ہے، اسے جانے بغیر یہ اختلاف سمجھا نہیں جا سکتا۔ یوں سمجھئے کہ جس طرح ریاضی کی تدریس صرف ریاضی کی درسی کتب میں ہوتی ہے، سائنس کی صرف سائنس کی کتب میں، وغیرہ وغیرہ، اسی طرح دین اسلام کی تدریس اسلا میات کی کتاب میں ہوتی ہے۔ اسی کو تدریسی ترتیب کہتے ہیں۔ ورنہ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ریاضی کے کچھ عنوان ریاضی کی کتاب میں پڑھائے جائیں، اور کچھ اردو کی کتاب میں ہوں، کچھ اسلامیات کی کتاب میں۔ یہی درسی ترتیب دینی مدارس میں بھی ہوتی ہے۔ تفسیر تفسیر کی کتاب میں، فقہ فقہ کی کتاب میں، وغیرہ وغیرہ درجہ وار رکھی جاتی ہیں۔ کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ اسلامیات کی کتاب میں سائنس کے اصولوں کی تدریس ہو۔ اسی اصول کے تحت جب واحدقومی نصاب اور اس کے تحت تصنیف کی جانے والی درسی کتب کو دیکھا گیا تو نظر آیا کہ درسی ترتیب کے اصول کے برعکس اسلامیات کے کئی موضوعات دیگر مضامین کی کتب میں شامل ہیں۔ اور کئی ایسے مضامین ہیں جو اسلامیات کی درسی کتب میں پہلے ہی سے موجود ہیں، اور یہاں دہرائے جا رہے ہیں۔ یقیناً ان درسی کتب کے مصنفین اور مدیران نے بڑے گہرے دینی جذبات کے زیر اثران مضامین کو یہاں بھی شامل کیا ہوگا، لیکن انہوں نے تدریسی اصولوں کی خلاف ورزی تو کی ہی، لیکن یہ بھی نہ سوچا ہوگا کہ ان کا یہ کام آئین سے متصادم ہے، جس سے چند شہریوں کے بنیادی آئینی حق پامال ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ اگر اس معاملے پر احکام صادر کر رہی ہے تو اس کی وجہ یہی شہری حقوق کی پامالی ہے۔

وہ آئینی حق کیا ہے اور آئین کی کس دفعہ کے تحت ہے؟

آئین ہمارے معاشرے کا عمرانی معاہدہ ہے کہ جس کی پابندی ہم سب پر لازم ہے۔ اس آئین میں جہاں بعض امور کی خاص ہدایت ہے، وہاں بعض کی ممانعت ہے۔ مثلاً دفعہ 31 کے تحت یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ سکولوں میں مسلمان بچوں کو دین اسلام کی تعلیم دی جائے۔ لیکن دفعہ 22 میں منع کیا گیا ہے کہ غیر مسلم بچوں کو جبراً دین اسلام کی تعلیم نہ دی جائے۔ اس قانون کے الفاظ میں، کسی بھی تعلیمی ادارے میں کسی بھی طالب علم کواپنے مذہب کے سواکسی اور مذہب کی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ چنانچہ پہلے اصول کے تحت سکولوں میں تمام مسلمان طالب علموں کے لئے اسلامیات ایک لازمی مضمون ہوگا اور دوسرے اصول کے تحت نہ مسلمان طالب علموں کواسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے مجبور کیاجا سکتا ہے اور نہ کسی اور مذہب کے ماننے والوں کو اسلامیات کی تعلیم جبراًدی جا سکتی ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کسی بھی ایسے مضمون میں جو بغیرمذہبی تفریق کے تما م طلباء کے لئے لازم ہو، مثلاً سائنس، معاشرتی علوم، ریاضی، اردو، انگریزی وغیرہ، ان کی درسی کتب میں کسی بھی مذہب سے متعلق اسباق نہیں ہونے چاہئیں ورنہ کسی نہ کسی مذہب کا طالب علم اپنے علاوہ کسی اور مذہب کی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہو جائے گا اور یوں اس کا بنیادی آئینی حق پامال ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ اسلامیات کے نصاب میں جن موضوعات کو دین اسلام کی تعلیم قرار دیا گیا ہے وہ موضوعات لازمی مضامین کی کتب میں شامل نہ ہوں ورنہ غیر مسلم اقلیتوں کے بنیادی حق کی پامالی ہوگی۔

یہ ہے وہ پیمانہ جس پر سپریم کورٹ اور اس کے قائم کردہ اقلیتی کمیشن نے نئے نصاب اور اس کے تحت لکھی گئی درسی کتب کو پرکھا ہے اور انہیں نظر آیاکہ اردو اور انگریزی کی کتابوں میں اس بنیادی حق کی پامالی ہو رہی ہے۔ کتنی پامالی ہو رہی ہے؟ جنہوں نے ان کتب کا بغور جائزہ نہیں لیا، انہیں اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا ۔ ان کی سہولت کے لئے کچھ تفصیل یہاں دی جا رہی ہے۔

سب سے پہلے تو یہ دیکھ لیں کہ اسلامیات کے نصاب کی کیا تعریف ہے۔ نصاب بنانے والوں کے نزدیک اسلامیات ان سات اجزاء پر مشتمل ہے :

1۔ قرآن مجید و حدیث نبوی ﷺ
2۔ ایمانیات و عبادات
3۔ سیرت طیبہ
4۔ اخلاق و آداب
5۔ حسن معاملات و معاشرت
6۔ ہدایت کے سر چشمے اور مشاہیر اسلام
7۔ اسلامی تعلیمات اور عصر حاضر کے تقاضے۔

لہٰذا ان میں سے کسی بھی موضوع پر سبق اسلامیات کی تدریس قرار دیا جائے گا۔ مثال کے طور پر، اس وقت میرے سامنے وزارت وفاقی تعلیم کے شعبۂ نصاب و درسی کتب کی جانب سے تیسری جماعت کے لئے تیار کردہ اردو کی ماڈل ٹیکسٹ بک ہے۔ اس کا حال نیچے درج چند نکات میں دیکھ لیجیے۔

1۔ اس کتاب میں کل 22 اسباق ہیں، جن میں سے دس اسباق یعنی تقریباً آدھے اسباق میں ایسا مواد ہے جو اسلامیات کی مندرجہ بالا تعریف میں آتا ہے۔

2۔ اسلامیات کی تعلیم اس کتاب کے کل 152 میں سے 52 صفحات یعنی ایک تہائی صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔

3۔ بعض اسباق میں اسلامیات کی تدریس بلا تعلق ہے۔ مثال کے طور پر سبق نمبر 4 موبائل فون کے بارے میں ہے، اس سبق کے اندرایک صفحے پر ایک ڈبے میں نبی کریم ﷺ کے جانوروں پر رحم سے متعلق واقعہ تحریر ہے، اور سبق کے آخر میں مشقوں میں اس واقعے کے بارے میں سوالات بھی ہیں اور پھر اس سے اگلے صفحے پر اسلامی عبادات کے بارے میں جملے ہیں۔ یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ موبائل فون کی ٹیکنالوجی کا نبی کریم ﷺ کی سنت سے کیا تعلق ہے۔

4۔ اسی طرح اسلامیات کی ایک اور لا تعلق تدریس سبق نمبر 20 میں ہے جوقائداعظم کی زندگی اور ان کے کردارپر ہے۔ اس سبق میں ایک ڈبے میں خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رسول پاک ﷺ سے دوستی کا ذکر ہے، اور پھر مشقوں میں اس پر سوالات بھی ہیں۔ کہیں بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ متبرک اسلامی شخصیات کے ذکر کا قائداعظم سے کیا تعلق ہے۔

5۔ ایک اور مثال یہ کہ علامہ اقبال کی نظم گائے اور بکری میں سبق کی مشقوں میں بچوں سے کہا جائے کہ خالی جگہ پر کریں : ”حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ کی ماں ہیں“ ۔

6۔ کہا جا رہا ہے کہ حمد اور نعت ہمیشہ ہی اردو کی ایک صنف کے طور پر شامل تدریس رہی ہیں۔ بات تو درست ہے۔ مگر زیر نظر کتابوں میں حمد اور نعت سیکھنا ہی نہیں ہے، بلکہ ان کی مشقوں کے ذریعے تعلیم اسلامیات ہے۔ ایک ایک صفحے کی حمدیہ اور نعتیہ نظموں کے بعدان پر مشقیں چھ سات صفحوں پر مشتمل ہیں جن میں ایسی تفصیل ہے جو اسلام کی تعلیم دینے کے زمرے میں آتا ہے۔

7۔ سیرت نبوی ہر کتاب میں لازماً موجود ہے، جو حقیقت میں اسلامیات کا ایک لازمی جزو ہے۔ ان اسباق کی مشقیں بھی اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں۔

8۔ اولیں اسلام کی متبرک شخصیات کا ذکر بھی اسلامیات کا لازمی جزو ہے، اور اردو کی پرائمری کتابوں میں ان پر بھی اسباق ہیں، مثلاً حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت فاطمۃالزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

9۔ اردو کی پرائمری کتابوں میں جگہ جگہ احادیث مبارکہ درج ہیں، ایسے اسباق میں بھی کہ جیسے ”آج کیا پکائیں“ ، ”بات چیت کے آداب“ ، وغیرہ۔

اردو کی تمام درسی کتب کا یہی عالم ہے۔ جو کچھ یہاں بیان کیا گیا ہے وہ تو محض نمونے کے مصداق ہے۔

اردو زبان کی تعلیم ہر مذہب کے بچے پر لازم ہے۔ یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ غیر مسلم بچوں کا جب اس قسم کی تدریس سے واسطہ پڑے گا تو ان کی کیا ذہنی کیفیت ہوگی، خاص طور پہ جب انہیں یہ بھی معلوم ہو کہ آئین ان کے بنیادی حق کے تحفظ کا وعدہ بھی کرتا ہے۔ مسلمان اکثریت کو شاید معلوم نہ ہو کہ مذہبی اقلیت کو جبراً اسلامیات کی تعلیم حاصل کرنے پر کتنی تکلیف ہوتی ہے۔

انگریزی زبان کی کتب کا بھی یہی حال ہے۔ پانچویں جماعت کی انگریزی کی کتاب میں چودہ اسباق یا یونٹ ہیں۔ چودہ میں سے چھ میں اسلامیات کی تعلیم ہے۔ ان کے صفحۂ اول پر یہ ہدایت درج ہے کہ اقلیتی طلباء کو اسلامی درسی مواد پڑھنے پر مجبور نہ کیا جائے۔

چنانچہ واحد قومی نصاب اور اس کے تحت بنائی جانے والی درسی کتب پر اس وقت دو مخالف موقف آمنے سامنے ہیں۔

ایک موقف کہتا ہے کہ سکولوں میں اسلام کی دینی تعلیم کو اسلامیات کے مضمون تک ہی محدو د رکھنا چاہیے، اور اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اسلامیات کے علاوہ باقی مضامین ہر مذہب کے طالب علم کے لئے لازم ہوتے ہیں۔ اگر لازمی مضامین میں بھی اسلامیات کے مضمون ہوں گے تو غیر مسلم طلباء کو اسلامیات پڑھنی پڑ جائے گی جس کی آئین میں ممانعت ہے۔ دوسرا موقف ایک بیانئے کی صورت میں ہے کہ ہم ایک مسلم اکثریتی ملک ہیں اور اس میں تعلیم مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے ہوگی، اس لئے نصاب سے اسلامیات کو ہرگز بھی نہ خارج کیا جا سکتا ہے اور نہ کم۔ یہ بیانیہ واضح طور پہ آئین سے متصادم ہے۔ اب اس معاشرے کو طے کرنا ہے کہ وہ مکمل بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اقلیتوں کے احساسات و حقوق کو مکمل رد کرتا ہے، یا قومی یکجہتی اور آئین کی بالا دستی کی خاطراسلامیات کی تدریس کوصرف اور صرف اسلامیات کے مضمون تک محدود رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments