امت کا پاسبان ہے طیب ایردوان


\"adnan

دنیا کے کسی بھی گوشے میں مسلمانوں پر مصیبت ٹوٹے، تو پوری امت میں بس ایک ہی غیرت و حمیت والا مسلمان لیڈر سامنے آتا ہے جو بولنے کی جرات کرتا ہے۔ اسرائیلی ملعونوں نے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تو دو ہزار نو کے ورلڈ اکنامک فورم کی ڈیوس میں میٹنگ میں سٹیج پر اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز اور سید رجب طیب ایردوان کا سامنا ہو گیا۔ غزہ پر بحث کے دوران صدر ایردوان حمیت ملی کا ثبوت دیتے ہوئے سٹیج سے اٹھ کر چلے گئے۔ ایردوان دشمن اس معاملے کی حکمت جانے بغیر ہی یہ کہتے ہیں کہ اس امر کا کیا فائدہ ہوا ہے؟ ناقدین یہ تو سوچیں کہ کتنی بے عزتی ہوئی ہو گی شمعون کی۔

دو ہزار دس میں فریڈم فلوٹیلا کا مشہور واقعہ پیش آیا جس میں غزہ کی طرف جانے والے ترک جہاز ماوی مارمرہ پر اسرائیلی فوجیوں نے حملہ کر کے چند ترک قتل کر دیے تھے۔ سید رجب طیب ایردوان نے فوری طور پر اسرائیل سے معافی مانگنے، غزہ پر سے پابندیاں ہٹانے اور مقتولین کو معاوضے کا مطالبہ کیا۔ تین سال بعد اسرائیل نے معافی مانگ لی۔ غزہ پر پابندی نرم کر دی۔ اور معاوضہ دینے کے متعلق مذاکرات پچھلے چھے سال سے چل رہے ہیں جن میں حق و انصاف کی فتح ہو گی۔ غیرت مند سید رجب طیب ایردوان نے اعلان کیا کہ اگلے فلوٹیلا کے ساتھ ترکی کے جنگی جہاز جائیں گے۔ مسلسل تیاری کے چھے سال بعد امید ہے کہ ترکی جلد ہی جنگی جہازوں کی حفاظت میں اگلا فریڈم فلوٹیلا غزہ بھیج دے گا۔

ادھر برما میں روہنگیا لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تو پچیس ہزار روہنگیا سمندر کے راستے تھائی لینڈ، ملائشیا اور انڈونیشیا کی طرف گئے۔ ان ملکوں نے ان بے کس مہاجرین کی کشتیوں کو اپنے ساحلوں پر اترنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ برادر مسلم ملک بنگلہ دیش ان کو زمینی راستے سے لینے سے پہلے ہی انکاری تھا۔ اس نازک موقعے پر صرف ایردوان ہی وہ غیرت مند اور درد دل رکھنے والا مسلم حکمران تھا جس نے ان پچیس ہزار مہاجرین کو پناہ دینے کے لئے مئی دو ہزار پندرہ میں اپنی نیوی کا پورا ایک بحری جہاز بھیجنے کا اعلان کر دیا تھا۔ امید ہے کہ جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ یہ جہاز کتنے ہزار برمی مہاجرین کو لے کر ترکی واپس پہنچ چکا ہے۔ سید رجب طیب ایردوان سے بلاوجہ کا عناد رکھنے والے ناقدین یہ بات ملحوظ خاطر رکھیں کہ سمندری سفر بہت طویل ہوتے ہیں۔ سند باد جہازی اور مارکو پولو کے قصے تو مشہور ہیں جو کئی کئی سال کے سفر کے بعد واپس گھر پہنچتے تھے، اس
\"erdogan-1\"جہاز کو تو محض آٹھ نو مہینے ہی ہوئے ہیں۔

شام میں جنگ نے سید رجب طیب ایردوان کو دوبارہ ایک ہیرو کے طور پر نمایاں کر دیا۔ ظالم ڈکٹیٹر بشار الاسد نے شامیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تو یہ سید رجب طیب ایردوان ہی تھا جس نے القاعدہ اور داعش کی مدد کی تاکہ بشار الاسد کے جبر کا یہ دور ختم ہو پائے۔ صدر سید رجب طیب ایردوان کی اس بروقت مدد سے جلد ہی پورے شام میں یہ عالم ہو گیا کہ کروڑوں شامی شہری بشار الاسد کی ظالمانہ حکومت سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور آزاد مہاجر کیمپوں میں بس گئے۔ بیس لاکھ مہاجرین کو تو صرف سید رجب طیب ایردوان کے ترکی نے ہی پناہ دی ہے اور انصار مدینہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ اس وقت روسی فوجی امداد کے بعد سے بشار کی فوجیں مسلسل فتوحات حاصل کر رہی ہیں اور داعش پیچھے ہٹتی جا رہی ہے۔ تازہ ترین معرکہ داعش کے گڑھ حلب میں ہو رہا ہے جس پر بشار الاسد کی فوجوں نے شدید حملہ کر دیا ہے اور وہ داعش کو شکست دیتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں۔

سید رجب طیب ایردوان نے روسیوں کے اس طرح بشار کی مدد کرنے پر شدید ناراضی ظاہر کی ہے۔ حلب کے لوگ داعش کی حکومت میں اچھے بھلے خوش باش رہ رہے تھے کہ روسیوں نے داعش کے خلاف یہ کارروائی کر دی۔ نتیجہ یہ کہ روس کی وجہ سے اب کوئی پینتیس ہزار حلبی شامی اس وقت داعش کے علاقے سے نکل کر ترکی کی سرحد پر پہنچ گئے ہیں اور ترکی میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ترکی ایک کمزور اور چھوٹا سال ملک ہے۔ وہ پاکستان کی طرح نہیں ہے جو کہ تیس لاکھ مہاجرین کو تیس سال تک راضی خوشی رکھ لے۔ ترکی نے کہا ہے کہ وہ شامی مہاجرین کی مدد کرنے کو تیار ہے اور اس نے اپنی سرحد بند کر دی ہے تاکہ شامی مہاجرین اپنا وطن چھوڑ کر پردیس پردیس میں دربدر ہونے کے دکھ سے بچ جائیں۔ کسی بھی ذی فہم شخص کو یہ سوچنا چاہیے کہ بیس لاکھ شامی پہلے ہی ترکی میں موجود ہیں، ان اضافی پینتیس ہزار کی گنجائش کہاں نکلے گی؟ ترکی نے بہ امر مجبوری اپنی سرحد بند کی ہے اور یہ پینتیس ہزار سے زائد شامی اس وقت ایسی سرحد پر کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں جس کا درجہ حرارت آج کل دو ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی کم ہوتا ہے۔ صدر سید رجب طیب ایردوان ان سردی سے کپکپاتے ہوئے مہاجرین کا غم اپنے دل میں محسوس کر رہے ہیں۔

مجاہد ملت سید رجب طیب ایردوان کے خلاف مغربی سازشیں تو اس امر سے ہی نمایاں ہیں کہ اس وقت انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں ترکی سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ شامی مہاجرین کے لیے اپنے سرحدی راستے کھولے، لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ یورپی یونین سے محض تین چار ارب یورو سالانہ لے کر ترکی آخر کتنے مہاجرین کو پناہ دے سکتا ہے؟ یورپی یونین دس پندرہ ارب یورو سالانہ دیں تو پھر وہ یہ مطالبہ کرتے اچھے لگتے ہیں کہ ترکی ان شامیوں کو اپنے ملک میں آنے دے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ پاکستان اس سے کہیں زیادہ مہاجرین کو اپنے پاس رکھے رہا ہے، لیکن مجاہد ملت ایردوان سے کوئی احمقانہ فیصلہ کرنے کی توقع نہ کی جائے۔ ساری دنیا کو یہ احساس کرنا چاہیے کہ داعش پر روسی حملے بند ہو جائیں تو یہ بحران ہی پیدا نہیں ہو گا اور سید رجب طیب ایردوان سارے شامی مہاجرین کو واپس داعش کی حکومت میں امن چین کی زندگی گزارنے کے لئے واپس بھیج دیں گے۔

مغرب کے علاوہ روسی بھی اس وقت ہمارے اس ہیرو کو تنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اچھا بھلا سب ٹھیک چل رہا تھا کہ روسیوں نے شرارت کی اور ترک \"erdogan-2\"سرحد کے قریب شام میں باغیوں پر بمباری کرنے کو اپنا ایک جہاز بھیج دیا۔ صدر ایردوان کو علم ہوا تو انہی شدید غصہ آیا کہ ان کی پناہ لئے ہوئے شامی باغیوں پر کوئی دوسرا کیسے ظلم کر سکتا ہے۔ سو انہوں نے ایک روسی بمبار جہاز گرا دیا۔ اب یہ کوئی اتنا بڑا واقعہ ہرگز نہیں تھا کہ اس پر اتنا طوفان اٹھایا جاتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ روسی جہاز شامی علاقے میں گرا تھا، اور ترک علاقے میں وہ پانچ دس سیکنڈ سے زیادہ کسی بھی حال میں رہ ہی نہیں سکتا تھا، اور یہ بھی مانا کہ تباہ ہوئے جہاز سے پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگانے والے ہواباز کو فضا میں ہی گولیاں مارنا بھی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ روسی اب ترکی میں سیاحت ہی بند کر دیں۔ یا تجارت بند کر دی جائے۔ اب اس روسی اوور ری ایکشن سے مفت میں ترکی کو کئی ارب ڈالر سالانہ کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ جبکہ غلطی ساری روس کی ہے کہ اس نے اپنا جہاز ترک میزائل سے کیوں ٹکرا دیا تھا۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ میزائل اپنے اندر کمپیوٹر سے چلتا ہے جبکہ بمبار میں انسانی پائلٹ موجود تھا جو کہ میزائل کے راستے سے ہٹ سکتا تھا۔

بہرحال شکر ہے کہ امت کی راہنمائی کے لئے سید رجب طیب ایردوان کی شکل میں ایک بہادر اور دانشمند راہنما اس وقت موجود ہے جو نہ تو کسی سے دبتا ہے اور نہ ہی ڈرتا ہے۔ امت مسلمہ کے لئے یہی مناسب ہے کہ اس نازک گھڑی میں سید رجب طیب ایردوان کی خلافت کا اعلان کر دیا جائے۔

اس معاملے پر گزشتہ مضامین

ایردوان کی معافی: سو پیاز اور سو جوتے 28 جون 2016

 روس کا کدو بم نومبر 2015

روس کا ٹماٹر میزائیل اور ترکی نومبر 2015

 صدر ایردوان کی حکمت مئی 2016

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments