جہانگیر ترین، از سر نو تحقیقات کا امکان؟


اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے سنیئر ترین رہنما جہانگیر ترین کئی زاویوں سے چشم کشا اور بدلتے ہوئے حقائق کے تناظر میں حکمراں جماعت کے لئے وفاق اور پنجاب میں صبر آزما اور اعصاب شکن تجربات کا کھلا ہوا باب ہیں، موجودہ حکومت و تحریک انصاف داخلی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ذہنی، عملی، اور انتظامی طور پر مختلف محاذوں پر مصروف ہے، ان حالات میں کہ شوگر سکینڈل و منی لانڈرنگ کے نتیجے میں دیگر سیاسی شخصیات کے علاوہ جہانگیر ترین اور ان کے صاحب زادے علی ترین کے خلاف بھی انکوائری ہو رہی ہے۔

تحقیقات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جہانگیرترین ہم خیال گروپ میدان میں ہے، بظاہر تو ان کے موقف بڑے سادہ ہیں کہ ان کے خلاف مبینہ طور پر سازش ہے اور وزیراعظم کو غلط معلومات فراہم کی جا رہی ہیں، انہوں نے وزیراعظم کی مقرر کردہ کمیٹی سے ملنے سے انکار کر دیا تھا تاہم عمران خان نے ترین گروپ سے وابستہ اراکین اسمبلی سے ملنے کی آمادگی ظاہر کرتے ہوئے ملاقات کی۔

یہاں تک معاملہ الجھا ہوا نہیں، لیکن سوال یہ اٹھا کہ کیا جہانگیر ترین کو اپنی ہی بنائی جانے والی حکومت کے سائے تلے قانون کی حکمرانی پر یقین نہیں؟ انہوں نے وفاق و پنجاب میں اپنی جماعت کی حکومت بنانے کے لئے دن رات ایک کر دیے تھے، اب ایسا کیا ہے کہ وہ قانون کا سامنا کرنے سے زیادہ قریبی دوست کی شخصیت کو مزید ”متنازع“ بنانے کی سعی کر رہے ہیں، وہ اس امر کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ وزیراعظم پر اپنے ساتھیوں کو مبینہ طور پر این آر او دینے کے الزامات اپوزیشن لگاتی رہتی ہے۔

شوگر سیکنڈل کے نتیجے میں ایک کمیشن تحقیقات کے لئے مقرر ہوا، جس کی روشنی میں کارروائی ہوئی، جب کہ وہ عدالت سے قبل از گرفتاری ضمانت بھی حاصل کر چکے ہیں تو پھر اپنے رفقاء کے ہمراہ حکومت پر دباؤ کیوں ڈال رہے ہیں کہ ان کے خلاف ہونے والی کارروائی غیر جانبدارانہ نہیں۔

جہانگیر ترین کے خلاف جب حنیف عباسی کی جانب سے دائر درخواست پر سپریم کورٹ نے 405 دنوں میں 50 سماعتوں کے بعد 101 گھنٹے عدالتی کارروائی کر کے 250 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا تو ان پر لگائے گئے الزامات درست قرار پائے، الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں انہیں 154 لودھراں کی نشست سے ڈی سیٹ کر دیا تھا۔ تحریک انصاف کی سیاست میں بڑا خلاء پیدا ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ جہانگیر ترین کا آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نا اہل قرار پانے کے بعد سیاسی مستقبل ختم ہو گیا، لیکن جہانگیر ترین نے اپنی جماعت کے ساتھ وابستگی برقرار رکھی۔

15 دسمبر 2017 کا عدالتی فیصلہ تاریخی قرار دیا گیا تاہم ترین نے جماعت سے وابستگی اور حکومت کی تشکیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، اس حقیقت سے قریباً سب آگاہ ہیں کہ تحریک انصاف میں چار نمایاں ایسے گروپ ہیں جن کا اپنی جماعت میں کافی اثر رسوخ ہے، ان گروپس میں سیاسی یا فروعی اختلاف بھی ہے اور یہ ایسی غیر معمولی بات بھی نہیں، کیونکہ ہر سیاسی جماعت میں فروعی و سیاسی مفادات کی وجہ سے گروپ بندیاں معمول کا حصہ ہوتی ہیں اور کوئی بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جہاں آپسی اختلاف کی وجہ سے گروپ بندیاں نہ ہوں، لیکن معاملہ اس وقت سنجیدہ ہو جاتا ہے جب کسی گروپ کی وجہ سے پوری جماعت کے اجتماعی مفاد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔

جہانگیر ترین کو اس وقت صوبہ پنجاب اور سب سے بڑھ کر وفاق کے لئے خطرہ سمجھا جا رہا ہے، وہ چاہتے تو ہیں کہ ان کے خلاف تحقیقات غیر جانب دارانہ ہوں، لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جو کمیشن خود وزیراعظم نے تشکیل دیا تھا، اسے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تحفظات ہونے کے باوجود کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی، دوسرے معنوں میں کمیشن رپورٹ پر وزیراعظم کو مکمل اعتماد حاصل ہے، لہٰذا سیاسی پنڈت جہانگیر ترین کی مشق کو فیس سیونگ کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں اور سمجھا جا رہا ہے کہ سیاسی دباؤ ڈال کر اداروں کو ان کے فرائض منصبی سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

عدالتوں میں اراکین اسمبلی کو ساتھ لے کر آنا، کوسٹر میں ان کے ہمراہ جانا، 11 ایم این اے اور 23 ایم اپیز کے اس اکٹھ کا مقصد واضح نظر آتا ہے کہ جو کارروائیاں ہو رہی ہیں اسے ذاتی عناد قرار دے کر اثر انداز ہوا جائے۔ وزیراعظم کے ساتھ راجہ ریاض کی سربراہی میں ہونے والی ملاقات (مذاکرات) کا اندرونی احوال تو کچھ دنوں بعد ہی سامنے آ جائے گا کہ جہانگیر ترین کے خلاف کارروائیوں کا رخ کس جانب ہوتا ہے، تاہم سنجیدہ حلقوں میں جہانگیر ترین کے اس قسم کے احتجاج و مطالبے کو مثبت نہیں دیکھا جا رہا ، انہیں حکومت و وزیراعظم کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور سمجھا جا رہا ہے کہ اس عمل سے اداروں پر براہ راست اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

وزیراعظم یا کسی بھی حکومتی شخصیت سے کسی ایم این اے یا ایم پی اے کا ملنا غیر معمولی نہیں، لیکن یہاں بعض اپوزیشن جماعتیں خواہاں ہیں کہ ہم خیال گروپ کے اختلافات شدت اختیار کریں تو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب و وفاق پر وار کیا جائے، اس حوالے سے پی پی پی کی سینئر رہنما شہلا رضا نے ٹویٹ بھی کی تھی کہ زرداری سے ترین کی ملاقات طے ہے اور اگر ایسا ہوا تو حکومت کا جانا طے ہے، تاہم جہانگیر ترین نے اس خبر کی تردید کر دی، جس کے بعد شہلا رضا نے ٹویٹ تو ڈیلیٹ کر دی، لیکن ایسی ٹویٹ کیوں کی؟ ، اس پر تسلی بخش جواب نہیں دے سکیں۔

جہانگیر ترین کے مقدمات اس وقت زیر سماعت ہیں، اس لئے اس پر تو بات نہیں کی جا سکتی لیکن وہ حکومت کے لئے اچھے ثابت نہیں ہو رہے، حکومتی قلعے کا کمزور حصہ سب کے سامنے ظاہر ہو چکا، اگر ان حالات پر سیاسی سمجھ بوجھ سے قابو پا لیا گیا تو حکومت کسی بڑی افتاد سے بچ سکتی ہے، تاہم ہم خیال گروپ کے وزیراعظم سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں اراکین کے چہروں پر بے سکونی و نا امیدی نمایاں نظر آئی، وجہ سامنے آ چکی ہے، انہوں نے صحافیوں کے سوالات کا بھی تسلی بخش جواب نہیں دیا اور فوراً روانہ ہو گئے۔ اب وقت ہی بتائے گا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments